گیارہویں پارے کا آغاز سورہ توبہ سے ہوتا ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجر اور انصار صحابہ کرامؓ میں سے ایمان پر سبقت لے جانے والے صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو ااور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی جنتوں کو تیار کر دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ بہت بڑا اجر ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ مدینہ میں رہنے والے بہت سے لوگ منافق ہیں اور بہت سے لوگ منافقت کی موت مر رہے ہیں؛ اگر چہ رسول اللہﷺ ان کو نہیں جانتے مگر اللہ تعالیٰ ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایسے لوگوں کو عام لوگو ں کے مقابلے میں دُگنا عذاب دوں گا۔
گیارہویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان منا فقین کا ذکر کیا ہے‘ جو بغیر کسی سبب کے جنگِ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ ان منافقوں کے ذہن میں یہ بدگمانی موجود تھی کہ مسلمان تبوک کے محاذ پر شکست سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی مدد فرمائی اور اپنے فضلِ خاص سے ان کو فتح یاب فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع دی تھی کہ آپﷺ ان کے پاس پہنچیںگے تو وہ آپ کے سامنے عذر پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ پر اس وحی کو نازل کیا کہ آپ انہیں کہیں کہ بہانے نہ بنائو‘ ہم تم پر یقین نہیں کریں گے، اللہ نے تمہاری خبریں ہم تک پہنچادی ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ تمہاری حرکتوں پر نظر ر کھیں گے‘ پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے‘ جو حاضر اورغائب‘ سب کا جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کی اصلیت سے آگاہ کرے گا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا ہے کہ نیکی کرنے والوں نے اگر اللہ کی راہ میں کوئی چھوٹی بڑی رقم خرچ کی یا کسی وادی (سفر) کو طے کیا تو اس عمل کو ان کے نامہ اعمال میں لکھ دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالی ان کے کاموں کا ان کو اچھا بدلہ عطا فرمائے۔ رسول اللہﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرامؓ سے مالی تعاون کا تقاضا کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سات سو اونٹ مع سامان‘ اللہ کے راستے میں خرچ کر دیے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کا نصف حصہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں وقف کر دیا جبکہ جنابِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو جنابِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: گھرمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا کر لیا ہے، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں‘ اللہ کے دشمنوں کو مارتے ہیں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت کو انتہائی فائدہ مند تجارت قرار دیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے بعض امتیازی اوصاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین توبہ کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے‘ اللہ کی حمد کرنے والے‘ زمین میں پھرنے والے‘ اللہ کے سامنے جھکنے والے‘ اس کی بارگاہ میں سجدہ کرنے والے‘ نیکی کا حکم دینے والے‘ برائی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے تھے اور ایسے ہی مومنوں کے لیے خوش خبری ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دینی علم کو بھی فرض کفایہ قرار دیا اور ارشاد ہوا کہ تمام مومنوں کے لیے ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں تاکہ جب اپنی قوم کی طرف واپس پلٹیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا سکیں۔
اس سورہ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی صفات کا ذکرکیا کہ تم میں سے ایک رسول تمہارے پاس آیا جو کافروں پر زبردست ہے‘ مسلمانوں پر حریص ہے کہ وہ جنت میں چلے جائیں اور مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس‘ اگر وہ رسول اللہﷺ کی ذات اور ان کے پیغام سے رو گردانی کریں تو رسول اللہﷺ اعلان فرما دیں کہ میرے لیے اللہ کافی ہے‘ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔
سورہ یونس
اس کے بعد سورہ یونس ہے اورسورہ یونس میں اللہ تعالی نے فرعون کا ذکر کیا ہے کہ اس کے خوف کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لانے سے کتراتے تھے۔ بنی اسرائیل کی مرعوبیت دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی ''اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے مصاحبوں کو دنیا کی زینت اور مال عطا کیا ہے‘ تاکہ وہ لوگوں کو تیرے راستے سے برگشتہ کرے۔ اے پروردگار! تو ان کے مال اور دولت کو نیست و نابود فرما اور ان کے دلوں کو سخت بنا‘ تاکہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعاکو قبول فرما لیا اور ہر طرح کا عذاب دیکھنے کے باوجود بھی فرعون ہدایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا یہاںتک کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو لے کر نکلے تو اس نے اپنے لشکر سمیت ان کا تعاقب کیا۔
جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر سمندرکو پار کر گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمندر کی لہروں کو آپس میں ملا دیا۔ فرعون سمندرکے وسط میں غوطے کھانے لگا۔ اس حالت میں فرعون نے پکار کر کہا ''میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں‘ اس کے سوا کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں فرمان برداروں میں سے ہوں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کے ایمان کو قبول کرنے سے انکارکر دیا اور کہا کہ کیا اب ایمان لائے ہو؟ اس سے پہلے تک تو تُو نافرمانی اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو سمندرسے نکال لیں گے تا کہ تو اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے اللہ کے عذاب کی نشانی بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا اور اقتدار کے نشے میں اندھے ہوکر اپنے انجام اور آخرت کو فراموش نہیں کر دینا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کیا انسانوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ انہی میں سے ایک مرد پر وحی کو نازل کیا جائے‘ جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ان کو ڈرائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو روشنی عطا کی اور چاند کی منازل کو بھی طے کیا تاکہ تم اس کے ذریعے سالوں اور مہینوں کا حساب لگائو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بے شک زمین اور آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کے آنے جانے میںاللہ سے ڈر نے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو! تم تک تمہارے رب کی نصیحت آ پہنچی ہے‘جو شفا ہے‘ سینے کی بیماریوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے اہل ایمان کے لیے۔ اے حبیبﷺ! اعلان فرمائیں‘ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اہلِ ایمان کو خوش ہو جانا چاہیے اور یہ قرآنِ مجید ہر اس چیز سے بہتر ہے‘ جسے تم اکٹھا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ''خبردار! اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم‘‘ اور ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایمان والے اور تقویٰ کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قوم یونس علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب یونس علیہ السلام اپنی قوم کی نافرمانیوں پر ناراض ہوکر ان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو وہ اللہ کی بارگاہ میں آکر باجماعت اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اجتماعی توبہ اور استغفار کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ناراض ہو جائیں اور وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اجتماعی توبہ کا راستہ اختیارکرے تو اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں اجتماعی توبہ کرنے کی توفیق دے‘ تا کہ ہماری اجتماعی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ اللہ ہمیں قرآن پاک میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!