قرآنِ مجید‘ فرقانِ حمید کے اکیسویں پارے کا آغاز سورہ عنکبوت سے ہوتا ہے۔ اکیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ‘ اپنے حبیبﷺ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ پہلے سے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے‘ نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ اہلِ باطل اس قرآن کے اللہ کی جانب سے ہونے پر شک کرتے۔ اللہ کے حبیبﷺ نے کسی مکتب یا مدرسے سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی‘ اگر آپﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو اہلِ باطل کے شک میں کوئی وزن ہوتا‘ لیکن آپﷺ کا بغیر کسی رسمی تعلیم کے قرآنِ مجید جیسی کتاب کو پیش کرنا اس امر کی واضح دلیل تھی کہ آپﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور اس کے سچے رسول ہیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ واضح آیات ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے جھگڑنے والے لوگ ظالم اور کافر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں مشرکین مکہ کی بداعتقادی کا ذکر کیا کہ جب وہ سمندروں میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پورے اخلاص سے پکارتے ہیں اور جب بحفاظت خشکی پہ آ جاتے ہیں تو وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جو لوگ میرے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں‘ میں ان کو ہدایت کا سیدھا راستہ ضرور دکھائوں گا اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
سورۃ الروم
سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم ہے۔ یہ سورہ مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب روم کے اہلِ کتاب کو ایران کے آتش پرستوں سے شکست ہوئی تھی۔ کفارِ مکہ ایرانیوں کی اس فتح پر دلی طور پر بہت خوش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میںمومنوں کی دل جوئی کے لیے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اہلِ روم مغلوب ہو گئے‘ قریب کی سرزمین (شام) میں اور اپنی مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آئیں گے۔ پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کے پاس تھا اور بعد میں بھی صرف اسی کے پاس رہے گا اور اس دن مومن خوش ہو جائیں گے۔ جب ان آیات کا نزول ہوا تو مشرکین مکہ نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو ناممکن خیال کیا۔ ابی بن خلف تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرط لگانے پر اتر آیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کافر‘ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیارات سے ناواقف تھے اس لیے کہ ان کی نگاہ صرف ظاہری حالات پر تھی۔ اللہ تعالیٰ کی برحق پیش گوئی کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل فارسی کمزور ہونا شروع ہو گئے اور 2 ہجری میں اہلِ فارس کا سب سے بڑا آتش کدہ بھی رومی فتوحات کی لپیٹ میں آگیا اور اسی سال بدر کے معرکے میں مسلمانوں کو اللہ نے غلبہ عطا فرمایا اور مسلمانوںکی خوشیاں دوچند ہو گئیں کہ رومیوں کی فتح کی اچھی خبر بھی سننے کو مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی کافروں کے مقابلے میں فتح یاب فرما دیا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ قرابت داروں‘ مساکین اور مسافروں کا حق ان کو دینا چاہیے، یہ بہتر ہے‘ ان لوگوں کے لیے جو اپنے اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو سود انسان کھاتا ہے‘ جس کا مقصد مالوں کو پرورش دینا یعنی بڑھانا ہوتا ہے ‘اس سے مال پروان نہیں چڑھتا اور جو زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے لیے دی جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرماتے ہیں۔
سورہ لقمان
سورہ روم کے بعد سورہ لقمان ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ‘ نمازوں کو قائم کرنے والے‘ زکوٰ ۃ کو ادا کرنے والے اور آخرت پر پختہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ بعض لوگ لغو باتوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ لغو باتوں میں موسیقی‘ بے راہ روی پیدا کرنے والا لٹریچر‘ مخرب الاخلاق افسانے اور ناول وغیرہ سبھی شامل ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذلت والے عذاب کو تیار کر رکھا ہے۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان کا ذکر کیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی و حکمت سے نوازا تھا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکچھ قیمتی نصیحتیں کی تھیں‘ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے: جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے شرک نہ کرنا‘ بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو والدین کی خدمت کی بھی تلقین کی‘ نیز اللہ کے علم کی وسعتوں سے آگا ہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے اندر یا آسمان و زمین میں موجود ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی سامنے لے آئے گا، بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ اس نصیحت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بھی نصیحت کی کہ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر‘ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت والے اور ضروری کام ہیں۔ آپ نے اپنے بیٹے کو مزید یہ نصیحت کی کہ لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اکڑ کر چلنے والے متکبرین کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ، بے شک بدترین آواز گدھے کی آواز ہے۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پانچ غیب کی باتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کو صرف وہی جانتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ جانتا ہے بارش کب ہو گی اور وہ جانتا ہے جو ماں کے رحم میں ہے اور کسی نفس کو نہیں پتا کہ وہ کل کیا کر سکے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا؟ ان تمام باتوں کا علم صرف باخبر اور علم رکھنے والے اللہ ہی کے پاس ہے۔
سورہ سجدہ
اس کے بعد سورہ سجدہ ہے۔ سورہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے ملک الموت کی ڈیوٹی انسانوں کی ارواح قبض کرنے پر لگائی ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کر تے ہوئے بتایا کہ کسی انسان کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا اہتمام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں بیان کیا کہ مومن اور گناہ گار برابر نہیں ہو سکتے۔ مومن کا مقدر جنت جبکہ سرکشی اور نافرمانی اختیار کرنے والے کا مقدر جہنم کے انگارے ہیں۔
سورۃ الاحزاب
سورہ سجدہ کے بعد سورۃ الاحزاب ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جنگِ خندق کا ذکر کیا ہے کہ جس میں کافروں کی افرادی قوت دیکھ کر منافقین کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی تھی جبکہ اہلِ ایمان پوری استقامت سے میدان میں ڈٹے رہے۔ چوبیس ہزار کے لشکرِ جرار نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے علاوہ سترہ سو یہودی بھی حلیف تھے مگر یہ سترہ سو حلیف اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ اب رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف جانباز مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی۔ مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کی جماعتوں کے ذریعے اہلِ ایمان کی مدد فرمائی اور کافر کثرتِ تعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم حساب کی آمد کا یقین ہے‘ اس کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ رسول کریمﷺ ہرشعبہ زندگی میں ہمارے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور گھریلو زندگی‘ سماجی زندگی‘ انفرادی زندگی‘ اجتماعی زندگی میں آپﷺ کی ذاتِ اقدس ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!