انسانی تاریخ میں بہت سی ایسی عظیم شخصیات گزری ہیں جن کے کردار وعمل نے تاریخ کے صفحات پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں اور آنے والی نسلیں ان کے کردار وسیرت سے نہ صرف یہ کہ رہنمائی حاصل کرتی رہی ہیں بلکہ ان کے طرزِعمل کو اپنانے کی وجہ سے ہر دور میں بہت سے لوگوں نے عظمت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کا شمار بھی ایسی ہی جلیل القدر اور عظیم المرتبت شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی اوصاف سے نوازا تھا۔ آپؓ غیر معمولی شرم و حیاکے حامل تھے اور اسلام قبول کرنے سے قبل بھی آپ ہمیشہ غیر اخلاقی امور سے دور رہے۔ آپؓ اپنی سخاوت اور فراخ دلی کی وجہ سے ممتاز ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شخص سلیم الطبع ہوتا ہے وہ دعوتِ حق کو بلا جھجک قبول کر لیتا ہے۔ حضرت رسول اللہﷺ نے جب دعوتِ توحید کا ابلاغ کیا تو جن شخصیات نے فوراً سے پیشتر اسلام کو قبول کیا ان میں حضرت عثمان غنی ؓ بھی شامل ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ اُن عظیم ہستیوں میں شامل ہیں جن کو دین کی وجہ سے مختلف طرح کی ابتلاؤں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؓ نے دین متین کے لیے دو دفعہ اپنے دیس کو خیرباد کہا۔ آپؓ نے پہلی ہجرت مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف کی تھی۔ حضرت عثمان غنیؓ ان عظیم ہستیوں میں شامل ہیں جن کو اس دنیا میں رہتے ہوئے نبی کریمﷺ نے زبانِ رسالت سے جنت کی بشارت دی تھی۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہے:
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک باغ (بئر اریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو، وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو، وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔
2۔سنن ابو داؤد میں حدیث ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپﷺ فرماتے تھے: ''دس اشخاص جنتی ہیں۔ نبی کریمﷺ جنت میں ہیں، ابوبکرؓ جنت میں ہیں، عمرؓ جنت میں ہیں، عثمانؓ جنت میں ہیں، علیؓ جنت میں ہیں، طلحہؓ جنت میں ہیں، زبیرؓ بن عوام جنت میں ہیں، سعدؓ بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں‘‘۔ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو وہ خاموش ہو رہے۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ہے (میں خود) سعید بن زید۔
حضرت عثمان غنی ؓ ایک کامیاب اور صاحبِ ثروت تاجر تھے۔ آپؓ ان عظیم اور جلیل القدر شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے اپنے مال کو ہمیشہ دین کے وقف کیے رکھا۔ جب بھی کبھی اسلام اور اہلِ اسلام کو آپؓ کے مال کی ضرورت پڑی ‘تو آپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ مسلمانوں کی پیاس اور تشنگی کو دور کرنے کے لیے آپؓ نے پانی کے معروف کنویں بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اسی طرح آپ ؓنے مسجد نبوی شریف کی توسیع کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جیشِ عسرہ یعنی غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو ایک بڑے دشمن کا سامنا تھا اس موقع پر اللہ کے دین کی نصرت کے لیے آپؓ نے بہت خطیر امداد لشکرِاسلام کے حوالے کی جس پر نبی کریمﷺ انتہائی خوش ہوئے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن ترمذی میں ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے گھر کی چھت سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے؛ چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟‘‘، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں۔ لوگوں نے کہا: ہاں! یہی بات ہے۔ انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟‘‘ تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہاں! بات یہی ہے۔ پھر انہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپﷺ کے ساتھ ابوبکر، عمر رضی اللہ عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ''ٹھہر جا اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں‘‘، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔
آپ ؓکو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس اور خانوادے سے غیر معمولی عقیدت اور محبت تھی‘ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی دو بیٹیوں کویک بعد دیگر ے آپؓ کے عقد میں دیا۔ نبی کریمﷺ کے خانوادے اور اہلِ خانہ سے محبت اور عقیدت کا سلسلہ آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی جاری رہا اور آپ امہات المومنینؓ کی خبر گیری کے حوالے سے ہمیشہ مستعدرہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ حضرت عثمان غنیؓ کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اور اُن کے یہاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کا مقام سب سے بلند سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کرام کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔
حضرت عثمان غنیؓ نے نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں اپنی توانائیوں، صلاحیتوں اور مال ومتاع کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے وقف کیے رکھا اور آپ ؓ نبی کریمﷺ کی خصوصی محبت اور شفقت بھی حاصل کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو جن نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا آپ نے اُن کو نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد بھی اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کیے رکھا اور حضرات صدیقؓ و فاروق ؓکے ادوار میں بھی آپؓ دینی خدمات کو بڑھ چڑھ کر انجام دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کو خلافت کا منصب جلیلہ عطا فرما دیا۔ آپؓ نے اللہ کے دین متین کی خوب بڑھ چڑھ کر خدمت کی‘ لیکن آپؓ کی طبعی شفقت اور نرمی کا بعض فسادی لوگوں نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپؓ کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا اور شورش برپا کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اس شورش کو سختی سے کچلنے کے بجائے اس کو نظر انداز کیے رکھا یہاں تک کہ یہ بڑھتے بڑھتے اس سطح تک پہنچ گئی کہ آپؓ کے خلاف سرعام بغاوت کا ایک بازار گرم کر دیا گیا۔ یہ بغاوت زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت عثمان غنیؓ کو اپنے گھر ہی میں حالتِ محصوری میں تلاوتِ قرآنِ مجید کے دوران شہید کر دیا گیا۔
حضرت عثمان غنیؓ نے خلیفہ وقت ہونے کے باوجود اپنی ذات کے دفاع کے لیے اپنے اختیارات کو استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنی ذات کے دفاع کے لیے ایک بھی مسلمان کے خون کو مدینہ میں گرنے دیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شخصیت ایک انتہائی تابناک اور ہمہ جہت شخصیت ہے۔ شرم وحیا اور جود و سخا جیسے آپؓ کے اوصاف تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ آپؓ یقینا آنے والی نسلوں کے لیے ایک کامیاب رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور مسلمان ہمیشہ سخاوت،زُہد، تقویٰ، للہیت اور شرم وحیا کے حوالے سے آپؓ کی سیرت وکردار کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنا کر زندگی کے مدارج کو احسن طریقے سے طے کرتے رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو خلیفہ راشد، شہید مظلوم، داماد رسولﷺ حضرت عثمان غنیؓ کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !