ترکوں نے اپنے دور حکومت میں حجاز کے گورنرکو ''شریف مکہ‘‘ کا خطاب دے رکھا تھا، یعنی وہ مکہ اور مدینہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی کے امور کا نگہبان ہوا کرتا تھا... ہماری اردو زبان میں شریف کا لفظ سیدھے سادھے انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر عربی زبان میں یہ لفظ قیادت و سیادت اورعزت و افتخار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سعودی حکومت کے بانی شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جب شریف مکہ کی حکومت کو ختم کر کے حجاز پر قبضہ کر لیا تو اپنی بادشاہت کا اعلان کیا... ان کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے جب ان کے چوتھے بیٹے شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سعودی عرب کے بادشاہ بنے تو شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اپنے لئے بادشاہ کے بجائے ''خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ اس لقب میں جہاں عاجزی اور انکسار کی جھلک نمایاں ہے، وہیں شرافت و سیادت کا کمال درجہ بھی موجود ہے مگر یہ کمال مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کی خدمت سے جڑا ہوا ہے۔ ''حرمین شریفین‘‘ کے شرف و کمال سے ملا ہوا ہے۔
شاہ فہد کے بعد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز حکمران بنے تو انہوں نے بھی یہی لقب اختیار کیا۔ گویا اب سعودی عرب کا جو بھی بادشاہ بنے گا وہ بادشاہ نہیں کہلوائے گا بلکہ خادم الحرمین الشریفین ہی کہلوائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اپنے اللہ کے پاس چلے گئے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین بن گئے۔
''حرمین شریفین‘‘ کے حوالے سے اپنے ابا جی مولانا نذیر احمد رحمہ اللہ کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا اس لئے کہ بچپن میں ماں باپ سے سنے ہوئے واقعات اذہان میں انمٹ نقوش کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک انمٹ نقش میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔ شریف مکہ کے دور میں حاجیوں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ ہندوستان کے حاجی تب اپنے گناہوں کو بخشوا کر حج پر جایا کرتے تھے اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب برصغیر کے بعض علماء نے فریضہ حج کے ساقط ہونے کا فتویٰ بھی دے دیا تھا... ایسے میں حالات نے یکدم پلٹا کھایا جب شاہ عبدالعزیز نے ریاض کے بعد حجاز پر بھی قبضہ کر لیا... پھر حاجیوں کو لوٹنے والے ڈاکوئوں کو اکٹھا کر لیا، ان کو لائنوں میں کھڑا کیا اور وعدہ لینے لگے کہ حاجیوں کو کچھ نہ کہا جائے گا۔ سرکش ڈاکوئوں نے اسے اپنا روزگار قرار دیا اور شاہ عبدالعزیز کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا... شاہ عبدالعزیز نے اشارہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو لائنیں گولیوں سے بھون دی گئیں۔ باقی سارے زمین پر گر گئے اور گڑگڑا کر معافی مانگنے لگے کہ کسی حاجی کو کانٹا بھی نہیں چبھے گا۔ یوں تب سے لے کر آج تک حاجیوں کے لئے امن ہی امن ہے۔
حرمین شریفین کو شاہ عبدالعزیز نے بھی وسعت دی، شاہ فیصل نے بھی اور شاہ فہد نے تو وسعت کو چار چاند لگا دیئے۔ مگر جو وسعت شاہ عبداللہ کے دور میں ہوئی، وہ پہلے تمام ادوار سے بڑھ گئی۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کی طباعت تھا۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور پھر مدینہ منورہ میں قرآن کی طباعت کا اسپیشل پرنٹنگ پریس نصب کروایا گیا جہاں آج تک بے شمار نسخے حاجیوں میں اور پوری دنیا میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز جب 1982ء میں حکمران بنے تھے تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط بھیجا تھا۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مجھے ایک شاہی کارڈ پر شکریے کے ساتھ جواب دیا تھا۔ میں اس وقت محض 22 سال کا ایک نوجوان تھا۔ اس کارڈ کا نقرئی نقش آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ شاہ فہد کے سگے بھائی ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز فوت ہوئے تو میں نے جو کالم لکھا اسے عربی میں ترجمہ کروا کر عرب اخبارات کو بھیج دیا... اس پر مجھے سعودی عرب کے سفارتخانہ اسلام آباد سے فون آیا کہ شہزادہ سلطان کے صاحبزادگان آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز جہاں ولی عہد تھے وہاں ایک پختہ عالم بھی تھے۔ وہ جب فوت ہوئے تب میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ حرم مکی میں ان کا غائبانہ جنازہ ہوا تھا۔
موجودہ حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز دونوں بھائی ہیں، بزرگ شخصیات ہیں۔ ان کے بعد آل سعود کی خاندانی تاریخ سعودی عرب کے ایسے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے جہاں شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کا دور ختم ہونے کو جا رہا ہے اور پوتوں کا دور اپنا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز وزیر داخلہ ہیں اور شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز وزیر دفاع ہیں۔ دونوں اپنی ترتیب کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور اپنے بزرگوں کی جگہیں سنبھالیں گے۔ یوں شاہ عبدالعزیز کا اپنا دور... پھر بیٹوں کا دور... اور عنقریب تیسرے دور کا ٹائم آنے والا ہے، اللہ کریم کا نظام ہی ایسا ہے کہ اگلوں کو جانا ہے، پچھلوں کو آنا ہے اور ہر پچھلے کو اگلا بن کر اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے آل شیخ کے ساتھ مل کر مملکت کی بنیاد شریعت پر رکھی۔ اس شریعت کی خوشبو اس وقت ساری دنیا کی فضا کو معطر کرتی ہے جب کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ ریاض کا وہ قبرستان جہاں سعودی خاندان کے لوگوں کو دفن کیا جاتا ہے، اس کا نام ''عود‘‘ رکھا گیا ہے، یعنی کستوری کی خوشبو دینے والا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قبرستان میں خالص کستوری کے چھڑکائو کا بندوبست کیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال ایسے ہوں کہ جب فرشتے جان لینے آئیں تو حضور نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق جنت کی کستوری میں بھیگے ہوئے ریشمی لباس لے کر آئیں جس میں روح کو رکھ کر اللہ کے سامنے پیش کریں۔ رہا عود نامی شاہی قبرستان تو اس قبرستان میں کوئی قبر پختہ نہیں۔
شاہ عبداللہ بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ دنیا کے وہ تیسرے امیر ترین شخص تھے۔ اللہ کی راہ میں اپنی جیب سے بے دریغ خرچ کرتے تھے۔ حرمین شریفین کے خادم بھی تھے اور دنیا کی ایک امیر ترین اور طاقتور مملکت کے حکمران بھی تھے۔ نرم دل بھی بڑے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ایک کردار ادا کیا تھا۔ وہ امن اور انسانیت کے بادشاہ تھے ، وہ اس دنیا سے گئے تو اسی سادگی سے گئے جس سادگی کا شریعت میں حکم ہے۔ سعودی عرب کے جھنڈے پر کلمہ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہ جھنڈا نہ کبھی سرنگوں ہوا اور نہ ہو گا (ان شاء اللہ)۔ شاہ عبداللہ کو سادہ سا کفن دیا گیا۔ سٹریچر نما بچھونے پر رکھا گیا۔ وہ کہ جو زمین کے ساتھ ہی لگ جاتا ہے۔ ریاض کی امام ترکی مسجد میں جنازہ پڑھا گیا اور پھر ''قبرستان عود‘‘ میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو اتار دیا گیا، منوں مٹی سے ڈھانپ دیا گیا، وہی پتھریلی مٹی کی کچی قبر جسے ساری دنیا کے لوگ دیکھ رہے تھے۔ اس پر کتبہ بھی کوئی نہ تھا کہ بادشاہ یہاں آرام فرما ہے۔ بادشاہت ختم، اب تو بادشاہ اپنے رب کے دربار میں فقیر بن کر آ گیا ہے۔ جنازے کا امام جنازے میں ہی کہہ رہا تھا: اے اللہ کریم! تیرا بندہ عبداللہ اب فقیر بن کر تیری رحمت کا بھکاری ہے، اسے معاف فرما دے، معاف فرما دے، ہم سب کی بھی اپنے مہربان مولا سے یہی فریاد ہے۔ اے اللہ کریم! اپنے بندے عبداللہ کی مغفرت فرما دے۔ فردوس کی عود اور کستوری عطا فرما دے۔ وہ نہر کوثر کہ جس کا گارا کستوری ہے اس میں غوطے لگوا دے۔(آمین)