مجھے بچپن سے ہی دنیا کی سیر کا شوق تھا۔ 1992ء میں لاہور کے ایک ایسے تاجر سے دوستی ہوئی جو ایران میں تجارت کرتے تھے، یوں میں نے ان سے معلومات حاصل کر کے ایران دیکھنے کا پروگرام بنا لیا۔ ایران دیکھنا سستا تھا؛ چنانچہ میں زمینی راستے سے ایران جا پہنچا۔ وہاں میں نے تہران، اصفہان اور شیراز کی دیواروں پر ''مرگ برآل سعود‘‘ جگہ جگہ لکھا ہوا دیکھا۔ تہران میں ایک جگہ بورڈ پر لکھا ہوا دیکھا ''دشمنِ خمینی کافر است‘‘۔ اس کے بعد اب تک میں چاربار سعودی عرب جا چکا ہوں مگر سعودی عرب کی کسی دیوار پر میں ایران کے خلاف ایسے جملے ملاحظہ کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ اسی وقت سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ اللہ نہ کرے دو ایسے ملکوں میں کشیدگی پیدا ہو کہ جن میں سنی اور شیعہ صدیوں سے اکٹھے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبوں نجران اور قطیف میں شیعہ کثیر تعداد میں ہیں تو ایران کے صوبوں بلوچستان، سیستان، اہواز اور خوزستان وغیرہ میں سنی اکثریت میں ہیں۔ پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا‘ ایرانی حجاج نے حج کے دوران مکہ مکرمہ میں (آیت اللہ) خمینی کے باتصویر پوسٹر اٹھا لئے اور نعرے لگانے شروع کر دیئے: ''اللہ اکبر‘ خمینی رہبر‘‘۔ اس پر سعودی پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو ایرانی زائرین نے خنجروں سے حملہ کر دیا۔ جواب میں سعودی پولیس نے گولی چلا دی اور یوں امن والے شہر کی حرمت متاثر ہو کر رہ گئی۔
یہاں پر پاکستان کی ایک مثال بھی قابل غور ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، ظفر ہلالی صاحب جو خارجہ امور کے معروف تجزیہ نگار ہیں‘ اس وقت محترمہ کے اسپیشل سیکرٹری تھے جبکہ اسلام آباد میں ایران کے سفیر محمد مہدی تھے جو 1993ء سے 1998ء تک یہاں تعینات رہے۔ محترمہ نے ظفر ہلالی سے کہا کہ ایرانی سفیر کو بلا کر کہو‘ تم جو اپنے سفارتخانہ کے ذریعہ لٹریچر تقسیم کر رہے ہو اس سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ظفر ہلالی صاحب بتلاتے ہیں کہ میں نے جب سفیر کو بلا کر محترمہ کی تشویش سے آگاہ کیا تو انہوں نے الٹا مجھ سے سوال کر دیا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے کہ کتنی تعداد میں پاکستان کے لوگ ایران کے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں؟ میں نے کہا‘ مجھے کیا معلوم۔ اس پرمحمد مہدی کہنے لگے، ہماری ہدایت پر 75ہزار پاکستانی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن چونکہ ہم آپ کو اپنا برادر ملک خیال کرتے ہیں اس لئے آپ کے لئے مسائل پیدا نہیں کرتے۔
بہرحال اس قسم کی سوچوں اور طرز عمل کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں جنگ تک جا پہنچا۔ ایک جانب عراق کا صدام حسین تھا تو دوسری جانب ایران کے امام خمینی۔ عراق کے پیچھے پوری عرب دنیا تھی۔ وہ کہتے تھے‘ ایران اپنا مخصوص انقلاب برآمد کرنے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ آخرکار یہ بے نتیجہ جنگ آٹھ سال کی بربادیوں کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ صدام حسین سنی تھا مگر وہ سیکولر بھی تھا۔ اس نے جہاں شیعہ پر ظلم کیا، سنیوں پر بھی ظلم کیا تھا۔ کرد سنیوں کو بھی زہریلی گیسوں سے مارا تھا اور پھر اس نے کویت پر چڑھائی کی تو تب بھی سنی شیعہ کا کوئی لحاظ نہ کیا۔ اس کے بعد جب امریکہ نے کویت چھیننے کے چند سال بعد دوبارہ عراق پرحملہ کیا تو وہاں سنی شیعہ کے اختلاف کو فرقہ وارانہ قتل عام میں تبدیل کر دیا اور جاتے جاتے عراق کی حکومت نوری المالکی کے سپرد کر دی جس نے فرقہ واریت کے تحت ظلم شروع کر دیا۔ ردعمل میں داعش وجود میں آ گئی جس نے اپنے سلوگن (نعرے) میں فرقہ واریت کو نمایاں کیا۔ یوں عراق فرقہ وارانہ دشمنی کی آگ کے الائو میں جلنے لگا اور تاحال جل رہا ہے۔
اب شام کا محاذ امریکیوں نے کھول دیا ہے‘ وہاں کے علوی شیعہ‘ سنیوں کے مقابلے میں 15سے 20فیصد ہیں۔ ایران کے بارہ امامی شیعوں کا ان سے شدید مسلکی اختلاف ہے مگر ایران نے شامی صدر کی عملی حمایت شروع کر دی۔ لبنان کچھ عرصہ پہلے شیعہ سنی اور مسیحی اختلافات کی آگ میں جلتا رہا ہے۔ وہاں کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے بھی بشارالاسد کی حمایت میں اپنے رضاکار بھیج دیئے۔ دوسری جانب النصرہ فرنٹ کو سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی، یوں شام میں بھی شیعہ سنی کے نام پر خون بہنے لگا اور تاحال بہہ رہا ہے۔
اب یمن میں بھی آگ پہنچ چکی ہے۔ وہاں سنی شیعہ صدیوں سے آرام و سکون سے رہتے چلے آ رہے تھے‘ مگر امریکہ نے آگ یہاں بھی بھڑکا دی۔ حوثی باغی جو داعش جیسے دہشت گرد ہیں‘ ان کو امریکہ اور ایران کی مدد حاصل ہے۔ آج کل ایران اور امریکہ باہم قریب ہیں۔ امریکہ کسی کے بھی قریب ہو یا تعلقات میں بعید ہو، فرق نہیں پڑتا‘ اس نے کام اپنا کرنا ہے اور وہ ہے مسلمان ملکوں میں فساد اور خونریزی کروانا؛ چنانچہ اب یہ خونریزی یمن میں بھی شروع ہو چکی ہے۔ یمن میں اس آگ کے پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرحد جو اٹھارہ سو
کلومیٹر یمن کے ساتھ لگتی ہے‘ وہاں سے متواتر دراندازی ہوتی رہے گی اور سعودی عرب کو ہر جانب سے گھیر کر بے بس کیا جائے گا۔ یہ ہے وہ صورت حال جو سعودی عرب کی جگہ کسی بھی ملک کی ہو تو اس کے لئے ناقابل برداشت ہو گی؛ چنانچہ سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ میدان جنگ بپا کر دیا ہے‘ اس لئے کہ اس نے سوچا کہ اگر اپنے گھر کے گھیرے کو روایتی انداز سے دور ہٹانے کی کوشش کی جائے گی تو فائدہ نہ ہو گا بلکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں نقصان ہی نقصان ہو گا۔
خلیج کی ریاستیں سعودی عرب کی فطری حلیف ہیں اس لئے کہ وہ جزیرۃ العرب کی ریاستیں ہیں۔ یاد رہے‘ متحدہ عرب امارات سالہا سال سے اپنے تین جزائر کی واپسی کی کوششیں کر رہا ہے، یہ تین جزائر طنب صغیر، طنب کبیر اور جزائر ابوموسیٰ ہیں۔ خلیج فارس میں واقع یہ جزائر سمندر کے بین الاقوامی قانون کے مطابق ایران کی نسبت امارات کے قریب ہیں۔ امارات کے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ان کے جزائر پر ایران نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں فوجی اڈے بنا لئے ہیں۔ یہاں سے امارات پر کارروائی کرنا انتہائی آسان ہے۔ یوں خلیجی ریاستیں اپنی بقا کے لئے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔
موجودہ صورت حال میں ایران کے حکمران انتہائی خوش ہیں، اس خوشی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونسی نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ایران ایک عظیم سلطنت بن چکا ہے‘ اب دارالحکومت بغداد ہو گا۔ ایران کی ایک غیر سرکاری ایجنسی ''ایسنا‘‘ کے مطابق علی یونسی ایران کے سابق صدر محمد خاتمی کے دور میں انٹیلی جنس کے وزیر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ''سارا مشرق وسطیٰ ہمارا ہے‘‘۔ اسی طرح ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شیخانی نے واضح طور پر کہا کہ ہم یمن کے باب المندب اور بحیرہ روم کے دہانے پر کھڑے ہیں‘ یعنی ایک جانب شام کے ساحل پر ہیں تو دوسری طرف یمن کے بین الاقوامی سمندری راستے پر بیٹھے ہیں، یوں دنیا ہماری محتاج ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کردار اور سوچ ایسی ہی ہے تو مشرق وسطیٰ میں امن کیسے حاصل ہو گا؟ ایران کے ایک اور سابق صدر جناب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے کہا ہے کہ داعش نے جس قدر نقصان پہنچایا‘ ہمارے ہاں کے وہ لوگ جو اپنا انقلاب برآمد کرتے پھر رہے ہیں‘ وہ داعش کے لوگوں سے کم نقصان نہیں پہنچا رہے۔ دوسرے لفظوں میں ہاشمی رفسنجانی نے واضح کر دیا ہے کہ سوچوں کو بدلنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو ہر جانب سے آگے بڑھنا چاہئے۔ امن کا آغاز یمن سے کرنا چاہئے اور بتدریج اسے پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلانا چاہئے۔ پاکستان ایٹمی، میزائل ٹیکنالوجی اور فوج کے لحاظ سے عالم اسلام کا نمبر ایک ملک ہے۔ عالم اسلام کی مشترکہ فوج بنا کر اسے سربراہی دی جائے۔ عرب ملکوں نے اپنی مشترکہ فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی خوش آئند ہے مگر اس کے دائرے کو پھیلا کر عالم اسلام کی فوج بن جائے اور اسے یمن میں اتارا جائے‘ وہ وہاں امن قائم کرے اور پرامن طریقے سے اقتدار وہاں کے عوامی نمائندوں کو منتقل کر دے۔ یہ وہ مبارک عمل ہے کہ اس سے مسلمان ملکوں میں جاری خانہ جنگی ختم ہو جائے گی اور بیرونی مداخلت بھی دم توڑ جائے گی۔ عالم اسلام اک نئے انداز سے دنیا میں نمایاں ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں‘ اگر موجودہ شر سے خیر کا مذکورہ دروازہ کھل جائے تو سنی اور شیعہ سب خوش قسمت ہوں گے۔