انسان کو جرائم سے دو چیزیں روکتی ہیں‘ ایک آخرت پر پختہ ایمان اور دوسرا دنیا میں احتساب کا درست نظام۔ اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب میں فرماتے ہیں: ''جہاں تک تعلق ہے اس انسان کا کہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور دل کی خواہش پر قابو پا کر اسے روک لیا تو ایسے انسان کی منزل جنت ہی ہے۔‘‘ (النازعات:41,40) اللہ کے رسولؐ نے فرما دیا کہ جس نے انسانوں کا حق غصب کیا‘ وہ اگر زمین ہے تو سات طبقات تک اپنے سر پر اسے اٹھائے ہوئے ہو گا اور مجھے آواز دے گا: ''یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَغِثْنِی‘‘ اے اللہ کے رسولؐ میری فریاد رسی کیجئے، فرمایا‘ میں کوئی مدد نہیں کروں گا، کیوں؟ اس لئے کہ حقوق العباد کی معافی نہیں ہے۔
جی ہاں! مرنے کے بعد اور قیامت کے دن کی اس ذلت و رسوائی کو سامنے رکھتے ہوئے جس نے بدعنوانی کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ صحیح بخاری میں ہے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، جنتی آدمی کو ایسا محل دیا جائے گا‘ جو ایک سفید موتی سے تیار کیا گیا ہو گا‘ اس میں کوئی جوڑ وغیرہ نہیں ہو گا‘ آسمان کی جانب اس کی اونچائی ساٹھ میل ہو گی۔
قارئین کرام! ساٹھ میل نوے کلومیٹر بنتا ہے یعنی یہ محل 90 کلومیٹر بلند ہو گا۔ دنیا میں اس وقت جو سب سے بلند ترین عمارت ہے‘ وہ دبئی میں ''برج خلیفہ‘‘ ہے۔ دنیا کی اس نمبر ون عمارت کی بلندی 2717 فٹ ہے یعنی صرف پونے تین ہزار فٹ جبکہ جنت کی بلڈنگ کی اونچائی فٹ کی پیمائش میں پونے تین لاکھ فٹ بنتی ہے۔ کہاں پونے تین ہزار اور کہاں پونے تین لاکھ... الغرض! آخرت کا محل جو 90 کلومیٹر اونچا ہو گا‘ جنت کی زمین پر وہ کتنا چوڑا اور لمبا ہو گا‘ اگر اونچائی کا تیسرا حصہ بھی اس کے رقبے کو ملے تو جنت کی زمین پر یہ محل 30 کلومیٹر چوڑا ہو گا اور تیس کلومیٹر لمبا ہو گا۔ اتنا بڑا محل ایسے سفید موتی سے تیار ہو گا کہ جس کی سفیدی، چمک، رعنائی اور دمک کو حضورؐ کے فرمان کے مطابق نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کان نے سنا ہے اور نہ دل میں تصور ہی پیدا ہوا ہے۔ اب دنیا کے محلات میں زندگی کا کل دورانیہ ساٹھ ستر سال ہے جبکہ جنت کے محل میں زندگی کا دورانیہ لامحدود ہے اور ہمیشگی پر مشتمل ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ وہ حکمران‘ جن کے احتساب کی باتیں چل رہی ہیں‘ جب صبح سویرے اپنے دفتر میں آ کر بیٹھیں تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے مندرجہ بالا فرامین کو خوبصورت فریم میں اپنے سامنے لگا کر پڑھیں اور پھر اپنے کام کا آغاز کریں۔ دوسرا کام احتساب کا درست نظام ہے۔ یہ دونوں باہم مل کر حکمرانوں کو‘ تمام پاکستانیوں اور انسانوں کو سیدھا رکھیں گے۔
نیب ایک ادارہ ہے‘ جسے احتساب کے لئے بنایا گیا ہے مگر اس میں مفادات کے قیدی بندوں نے پہلی اینٹ ہی غلط رکھ دی‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کرپشن کرنے والے نے اگر آٹھ ارب روپے کی کرپشن کی ہے تو 2 ارب اسے چھوڑ دیے جائیں، چار ارب خزانے میں جمع کروا دیے جائیں اور دو ارب روپے نیب کے اہلکار کھا جائیں‘ اور دو ارب جو نیب کے اہلکار کھا جائیں وہ کہیں لکھے ہوئے نہ پائے جائیں‘ یعنی کرپشن کے خلاف ایک ادارہ بنایا گیا اور اس کی بنیاد کرپشن پر رکھ دی گئی۔ اسی طرح ایک ''اینٹی کرپشن‘‘ نامی ادارہ ہے جسے محکمہ ''انسداد رشوت ستانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عوام میں سے ہر بندے کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ رشوت کا خاتمہ تو اس ادارے نے کیا کرنا تھا، خود یہ ادارہ رشوت خور بن گیا۔ اور اس پر جو اخراجات ہیں وہ پاکستانیوں کی کمائی پر جو ٹیکس ہے اس سے پورے کئے جا رہے ہیں۔ اس کا نام ہے بری اور ناکام حکمرانی۔
اس ناکام حکمرانی کا ناکام انداز بدلنے کے بجائے مزید برا یہ کیا جاتا ہے کہ ایک ناکامی کے بعد ناکامی کا ایک اور ادارہ بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مفاہمت سے احتساب کے مزید ادارے بننے جا رہے ہیں۔ ان کے نام ''احتساب کمیشن‘‘ اور ''جوڈیشل کمیشن‘‘ ہوں گے۔ زبان خلق پر ان کے بارے میں ایک ہی بات ہے کہ ''میگا پروجیکٹس‘‘ کی کرپشن پر بننے والے یہ ادارے کیا کر لیں گے کہ جو ان کو بنا رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں میں ''میگا پروجیکٹس‘‘ یعنی بڑے ترقیاتی منصوبے بنتے رہے ہیں اور اب بھی انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اینٹی کرپشن کے یہ ادارے پاکستانی عوام کا پیسہ مزید اڑائیں گے اور موج میلہ کریں گے یعنی ناکام حکمرانی کے وہی تجربے ہیں جو بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا تفصیل میں جائیں تو سارے نظام کا یہی حال ہے۔ ایک ہماری عدلیہ ہے، اس کے متوازی ''دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں‘‘ اضافہ ہیں، پھر فوجی عدالتیں بن گئی ہیں۔ یہی معاملہ واپڈا کا ہے، واپڈا کے ساتھ حبکو، پیپکو، لیسکو وغیرہ وغیرہ بن گئیں۔ اب یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ بجلی فراہمی کی مذکورہ کمپنیاں کرپشن کی بنیاد پر ہی بنی ہیں مگر کمپنیاں ہیں کہ بنتی جا رہی ہیں۔ اسی طرح عدلیہ کا جو ایک ادارہ ہے اس کے نظام کو درست، ٹھیک اور تیز کرنے کے بجائے مزید عدالتی نظام کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور رزلٹ وہیں کا وہیں ہیں۔ پی آئی اے کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا، ہاں یہ کر دیا گیا کہ ایک اور فضائی کمپنی بنا دی گئی۔ اسی کا نام بری اور ناکام حکمرانی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے نیب پر برستے ہوئے خود کہا کہ نیپرا، پیپرا، پیمرا نہ جانے کیا کیا بن گیا ہے؟ یعنی پیمرا کو وزارت اطلاعات ہی کا ایک ڈیسک ہونا چاہئے۔ کاش! یہ بات وہ حکمرانی کو درست کرنے کے لئے ارشاد فرماتے مگر انہوں نے تو نیب کو رگیدا تو معصوم لوگوں کی خاطر رگیدا اور اب یہ معصوم اور بے گناہ لوگ عوام کی زبان پر اک مذاق بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان ان باتوں پر بہت بولتے تھے مگر انہوں نے اپنے صوبے میں احتساب کمیشن کو جس طرح زنجیروں میں جکڑ ڈالا اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملنگ خان نے دبنگ خان کے وزن کو کافی کم کر دیا ہے۔ الغرض! وفاق ہو یا سندھ، پنجاب ہو یا صوبہ خیبر سب کے حکمران ایک ہی لائن میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ احتساب کی لائن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف یک جہت ہو گئے ہیں۔ یہ یکجہتی جمہوریت کو کمزور کرے گی یا مضبوط؟ یہ سیاستدانوں کے سوچنے کا مقام ہے۔ جمہوریت جو نام کی جمہوریت ہے‘ مذکورہ یکجہتی اسے قائم بھی رہنے دیتی ہے یا نہیں، یہ سب سیاستدانوں کے غور و فکر کا مقام ہے۔
بری حکمرانی کا ایک اور انداز اور طریق کار یہ ہے کہ کسی شخص پر ہاتھ ڈالا۔ میڈیا میں خوب خبریں شائع ہوئیں۔ سزا کس کو ہوئی، جائیداد کس کی ضبط ہوئی، یہ نہ پوچھئے، یعنی سزا کی خبر ہی کوئی نہیں۔ درست انداز یہ ہے کہ کرپٹ بندہ پکڑا جائے یا ادارہ، مضبوط ثبوتوں کے ساتھ پکڑو، عدالت سے سزا ہو جائے، پھر سزا پر عملدرآمد کی خبریں چلائو۔ دیکھو معاشرے میں اس کے دور رس اثرات کیسے ہوتے ہیں؟ لہٰذا میڈیا کا ایک معروف دستور ہے جو جاری ہے۔ رزلٹ محلِّ نظر ہے۔ رزلٹ چاہئے تو ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر محکمہ میں سے دیانتدار بندہ سربراہ بنا دو۔ وہ ایسی اہلیت والا ہو کہ اپنے محکمے کو رشوت خوروں سے پاک کر دے، رزلٹ دے دے۔ کرپٹ مجرموں کو سزا ہوتی ہوئی معاشرے کو دکھا دو۔ جس معاشرے میں نہ اللہ کے سامنے جانے کا خوف ہو، نہ جنت کا محل پانے کا شوق ہو‘ نہ دنیا میں احتساب کا درست نظام ہو اور نہ سزا کا ڈر ہو وہاں اچھی حکمرانی ملک کو خاک ملے گی؟