"AHC" (space) message & send to 7575

ایک عظیم علمی جہاد

مولانا عبدالمالک مجاہد نے سٹیج پر گیارہ علمی شخصیات کو بلایا۔ پروفیسر ساجد میر کی صدارت میں مجھ طالب علم کو وفاقی وزیر مذہبی امور و حج سردار محمد یوسف اور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جناب کامران مجاہد کے درمیان کھڑا کر دیا۔ پروفیسر محمد یحییٰ، حافظ عبدالسلام مفسر قرآن اور پروفیسر ظفر اقبال جیسی علمی شخصیات بھی جلوہ افروز ہو گئیں تو سیرت انسائیکلوپیڈیا اللؤلؤالمکنون کی گیارہ جلدیں ہر علمی شخصیت کے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔ ہر ایک نے فیتہ کاٹا اور گزشتہ سالہا سال کی محنت کے نتیجے کا افتتاح ہو گیا۔ انسانیت کی تاریخ میں بقول مائیکل ہارٹ سب سے بڑی اور عظیم ہستی کہ جنہیں معلوم انسانی تاریخ کے مشاہیر میں اول نمبر پر رکھا گیا۔ ان کی سیرت پر مولانا عبدالمالک مجاہد کی نگرانی میں اتنا بڑا علمی، خوبصورت اور تحقیقی کام ہو گیا ہے کہ اس کام کو پندرہویں صدی کا اعجاز کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے محبوب پاکؐ کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔
مولانا عبدالمالک نے اللہ کی کھائی قسم کو خوبصورت موتیوں کی مالا بنا دیا ۔ میرے آج کے کالم کا موضوع اسی ادارے کا ایک اعجاز ہے۔ اس معجزے کا افتتاح بھی اسی مبارک محفل میں ہوا ۔ یہ ایسا کام ہے کہ اس کام پر محترم پروفیسر ساجد میر نے افتتاحی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کا قانون یہی ہے کہ جو انسان اس دنیا سے چلا گیا دوبارہ نہیں آئے گا لیکن اگر مجھے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں دوبارہ بھیجے اور پوچھے کہ اب کے دنیا میں کیا کردار ادا کرو گے؟ میں ساجد میر اگرچہ اپنے کردار سے مطمئن ہوں لیکن عرض کروں گا کہ مجھے عبدالمالک مجاہد بنا دیجئے کہ جس کے ادارے ''دارالسلام‘‘ نے دو درجن سے زائد زبانوں میں تیری کتاب قرآن کے تراجم شائع کئے۔ سیرت انسائیکلوپیڈیا اور ''الجامع الکامل‘‘ شائع کر دی۔ ان سے پہلے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے مولانا عبدالمالک مجاہد کی ان علمی خدمات پر انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ 
''الجامع الکامل‘‘ اک ایسا علمی جہاد ہے جو چودہ صدیوں بعد پہلی بار انسانیت کے ہاتھ میں تحفہ ہے کہ حضورؐ کی زبان مبارک سے نکلنے والی ہر حدیث اور سنت کو ''الجامع الکامل‘‘ میں فقہی ترتیب کے ساتھ مذکورہ ''انسائیکلوپیڈیا‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے‘یعنی حضورؐ کی مبارک زندگی اور مبارک فرامین کے دو ''انسائیکلوپیڈیاز‘‘ ہیں کہ جو مولانا عبدالمالک مجاہد کی نگرانی میں ہمارے ہاتھوں میں دے دیئے گئے ہیں۔ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ ان دو تحائف کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہا ہوں۔ دوسرا تحفہ یعنی ''الجامع الکامل‘‘ جس شخصیت کے قلم سے تیار ہوا ہے وہ اپنی جگہ حیرت کا اک جہان ہے۔
ہندوستان کی سرزمین پر ایک ہندو پنڈت کا بچہ دسویں جماعت کا امتحان ممتاز پوزیشن سے پاس کرتا ہے تو مسلمان ہو جاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے دیس کا یہ برہمن لڑکا پنڈت لال مدرسے میں داخل ہوتا ہے۔ درس نظامی کا علم حاصل کر کے مدینہ یونیورسٹی کا طالب علم بن جاتا ہے۔ وہاں علم حدیث میں پی ایچ ڈی کر کے مدینہ یونیورسٹی میں حدیث کا پروفیسر بن کر پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ ''کلیۃ الحدیث‘‘ یعنی یونیورسٹی میں حدیث کے شعبے کا سربراہ بن جاتا ہے۔ پھر یہیں سے ریٹائر ہو کر ''مسجد نبوی‘‘ میں حدیث کے دروس دیتا ہے۔ اس عظیم شخصیت کا نام محمد عبداللہ ضیاء الاعظمی ہے۔ مولانا عبدالمالک مجاہد ان سے ملتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ امت کو ایک تحفہ دیجئے۔ تمام صحیح اور حسن احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیجئے۔ فضیلۃ الشیخ محمد عبداللہ جو خود اس ضرورت کو محسوس کرتے تھے اور کئی علمی شخصیات نے ان سے ایسے کام کا تقاضا کیا تھا، انہوں نے ہامی بھر لی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مذکورہ انسائیکلوپیڈیا سترہ سال کی بے پناہ ریاضت کے بعد مکمل کیا ہے۔ شیخ نے دن رات ایک کر دیا۔ مدینہ منورہ سے باہر نہ نکلے۔ مسجد نبوی کی لائبریری میں ''ریاض الجنۃ‘‘ میں اور اپنی لائبریری میں کام کرتے رہے۔ انہوں نے ہر طرح کی تقریبات میں شرکت ختم کر دی۔ ملاقاتوں کا خاتمہ کر دیا اور 17سال کی علمی ریاضت اور علم حدیث کی تحقیقی چلہ کشی کے بعد امت کو ایک نایاب تحفہ دیا۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ کام کیا مگر وہ مکمل نہ کر سکے اور دوسری بات یہ کہ گیارہ جلدوں پر مبنی ان کا علمی کام فقہی ترتیب پر نہ تھا۔ شیخ محمد عبداللہ ضیاء نے کام مکمل کر دیا اور فقہی ترتیب سے کر دیا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ وہ کام جو امام بخاری اور امام مسلم نے کیا تھا‘ اسے اللہ نے میرے ہاتھوں سے مکمل کروا دیا۔ شیخ ضیاء حفظہ اللہ ''الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں!
امام محمد بن سیرینؒ جو 33ہجری میں پیدا ہوئے اور 110ہجری میں فوت ہوئے‘ فرماتے ہیں: اسناد کا علم دین ہے لہٰذا اے لوگو! دیکھ لو کہ روایت کرنے والے کن لوگوں سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟ امام اوزاعی جو 157ھ میں فوت ہوئے فرماتے ہیں علم حدیث میں سند نہ رہی تو علم نہ رہا۔ امام ثوری کوفی فرماتے ہیں: مومن کا علمی ہتھیار سند ہے‘ جس کے پاس یہ نہ ہو، وہ کس چیز کے ساتھ جنگ کرے گا؟ امام عبداللہ بن مبارک مروزی جو 181ھ میں فوت ہوئے‘ فرماتے ہیں: اگر سند (کی صحت) کے بغیر کوئی شخص حدیث بیان کرتا ہے تو اس کی مرضی ہے جو چاہے کہتا پھرے۔
امام سفیان مکی جو 198ھ میں فوت ہوئے‘ ایک مجلس میں ان سے عرض کیا گیا کہ سند کے بغیر احادیث بیان فرمایئے تو کہنے لگے، اس شخص کو دیکھو مجھ سے مطالبہ کر رہا ہے کہ میں بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھ جائوں۔ مولانا محمد عبداللہ ضیاء اپنے اسلاف کے مندرجہ بالا اقوال لا کر بتلاتے ہیں کہ نزول قرآن کے ابتدائی زمانے کے بعد جب اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ مطمئن ہو گئے کہ اب قرآن اور حدیث باہم خلط ملط نہیںہوں گے تو آپؐ نے حدیث کو لکھنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ کے مبارک زمانے میں 50سے زیادہ صحابہؓ نے آپ کی احادیث کو لکھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ نے احادیث کا ایک مجموعہ لکھا اور اس کا نام ''اَلصَّادِقْۃ‘‘ رکھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ اس میں درج وہ احادیث ہیں جنہیں میں نے خود حضورؐ سے سن کر لکھا۔ میرے اور حضورؐ کے درمیان کوئی راوی نہیں ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت عمرو بن حزمؓ نے بھی احادیث کو لکھا۔ بعض صحابہؓ نے حضورؐ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد احادیث کے مجموعے لکھے۔ ان صحابہ سے ان کے تابعین شاگردوں نے اپنے مجموعے لکھے جیسا کہ معروف تابعی حضرت ہمام بن مُنَبِّہؒ نے مجموعہ لکھا۔ قارئین کرام! میں نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی کتاب ''الوثائق‘‘ میں پڑھا کہ یہ مجموعہ اب دریافت ہو چکا ہے۔ اس میں جو احادیث ہیں وہی احادیث بخاری، مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں موجود ہیں۔ جی ہاں! مولانا ضیاء مزید بتلاتے ہیں کہ حضرت بشیر بن نہیک رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے احادیث لے کر مجموعہ لکھا۔ وہب بن منبہ نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے۔ جناب سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اور جناب نافع نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے احادیث لے کر مجموعے تیار کئے اور ان کے علاوہ سینکڑوں تابعین نے صحابہ سے احادیث لے کر علمی اور قلمی کام کیا۔ حضرت انس بن مالکؓ جنہوں نے دس سال حضورؐ کے ساتھ گزارے اور لمبی عمر پائی وہ اپنے بیٹوں سے کہا کرتے تھے‘ مجھ سے یہ علم لے کر قید کر لو یعنی قلم کے ساتھ لکھ کر کتابی شکل میں محفوظ کر لو۔
صحابہ کا دور جب اختتام پذیر ہو رہا تھا تو امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے‘ جو 101ھ میں فوت ہوئے‘امام ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو حکم دیا کہ آپ کے پاس اللہ کے رسولؐ کی جو احادیث موجود ہیں انہیں لکھ کر میرے پاس بھیج دو۔ جناب عبدالرحمن کی بیٹی عَمرہ کی جو احادیث آپ کے پاس ہیں وہ بھی بھیج دو۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ علم ہم سے ضائع نہ ہو جائے لہٰذا لکھ کر بھیج دو۔ قارئین! پتہ چلا کہ تابعات صحابیات بھی علم حدیث کے مجموعے تیار کر رہی تھیں کہ ان کی کاوشوں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز آگاہ تھے۔ ایسا ہی خط حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ منورہ کے علماء کوبھی لکھا، مدینہ کے محدث امام زُہریؒ کو بھی ایسا ہی حکم دیا۔ امام زہری نے کس طرح تعمیل کی۔ حضرت ابوزناد بتلاتے ہیں کہ ہم امام زہری کے پاس ملاقات کو گئے تو ان کے پاس علماء کی ایک ٹیم بیٹھی تھی جن کے پاس تختیاں اور رجسٹر تھے اور وہ ان پر لکھ رہے تھے۔ الغرض تابعین علماء میں سے جناب مجاہد بن جبر کے پاس تفسیر میں لکھا ہوا ایک ذخیرہ تھا۔ آپ مکہ میں تھے، بصرہ میں حضرت قتادہ، شام میں حضرت مکحول، یمن میں وہب بن منبہ اور معمر بن راشد، بصرہ میں سعید بن عروبہ، کوفہ میں سفیان ثوری، خراسان میں ابراہیم بن طہمان، مدینہ میں حضرت مالک بن انس نے ''مؤطا‘‘ لکھی۔ پھر دوسری صدی ہجری میں امام شافعی نے ''کتاب الام اور ابودائود طیالسی، امام احمد بن حنبلؒ، امام حمیدی، امام عبدالرزاق کی کتب سمیت بہت ساری کتابیں تیار ہوئیں۔ تیسری صدی ہجری میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابن ماجہ، امام ابودائود، امام ترمذی اور نسائی نے کتب لکھیں۔ الغرض! یہ کام ہوتا چلا آیا، جناب مولانا محمد عبداللہ ضیاء اپنے علم حدیث کی سند اپنے 24واسطوں کے ساتھ اللہ کے رسولؐ تک لکھتے ہیں۔ صحیح مسلم کی سند 25واسطوں سے اور اسی طرح ابودائود اور باقی کتابوں کا سلسلہ بھی بیان کرتے ہیں۔ الغرض! آج جو علماء حدیث پڑھتے ہیں اس حدیث کی سند واسطوں کے ذریعے اللہ کے رسولؐ تک پہنچتی ہے۔ یوں یہ وہ یقینی علم ہے جس کی کسی دوسری قوم میں مثال نہیں ملتی، حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں اناج کی پیمائش کے جو پیمانے رائج تھے جنہیں ''مُد اور صَاع‘‘ کہا جاتا ہے ان کی پیمائش بھی آج سند کے ساتھ موجود ہے اور ''مدنی مُد‘‘ موجود ہے کہ جس کی پیمائش کے ساتھ فطرانہ ادا کیا جاتا ہے۔ سبحان اللہ! یہ ہے حفاظتِ دین کا نظام کہ میں نے مذکورہ ''مُد اور صَاع‘‘ کے پیمانے مدینہ کے عجائب گھر میں دیکھے یعنی ہمارے حضورؐ کا قرآن بھی محفوظ، سیرت بھی محفوظ اور سند کے ساتھ حدیث محفوظ۔ 
میرے پاس گھر میں سجادہ نشین حضرت میاں میر پیر ہارون علی گیلانی تشریف لائے۔ میں نے انہیں مذکورہ کام کے بارے میں بتلایا تو بے حد خوش ہوئے، فرمانے لگے ''الجامع الکامل‘‘ عربی میں ہے، اس کو اعراب اور ترجمے کے ساتھ بھی آنا چاہئے۔ مولانا عبدالمالک مجاہد کو کیا تجویز دوں کہ ان کے ذہن نے پہلے ہی یہ سوچ رکھا ہو گا۔ پیر جی نے سیرت کا تحفہ طلب فرمایا، میں نے اپنے قلم کے ساتھ لکھ کر گیارہ جلدوں کا مبارک نذرانہ ان کی جھولی میں ڈال دیا۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں، مولا کریم! ہم سب کی جھولیاں بھر دے۔ حضورؐ کی سیرت اور حدیث سے آنکھوں کو ٹھنڈا کر دے۔ تیری بے نیازی ہے کہ جناب جب کرم کرنے پہ آتے ہیں تو پنڈت لال کو موجودہ دور کا ایسا محدث بنا دیتے ہیں جو چودہ صدیوں بعد 11 جلدوں کا حدیث انسائیکلو پیڈیا امت کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ حکمرانوں نے نہ جانے میری کون سی آف شور کمپنی کے جرم میں میرا نام ای سی ایل میں ڈال رکھا ہے۔ جب اللہ نے کرم کیا تو ارادہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں شیخ ضیاء سے ملوں گا اور پھر اک اور کالم قارئین کی نذر کروں گا۔ (ان شاء اللہ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں