"AHC" (space) message & send to 7575

مکہ مدینہ کا الہامی رقبہ اور خادم اعلیٰ کے لاہور کا رقبہ

خادم اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف نے لاہور کے رقبے میں اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ شیخوپورہ، ننکانہ اور قصور یعنی تین اضلاع میں (L.D.A) کے دفاتر قائم کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ شیخوپورہ کے دو شہر مریدکے اور نارمنگ منڈی لاہور کے قریب ہیں، لہٰذا یہ تو اب لاہور شہر کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ ننکانہ شہر سے قصور شہر تک فاصلہ تقریباً سوا سو کلو میٹر بنتا ہے۔ رائیونڈ اور کوٹ رادھا کشن کے شہر لاہور کے ساتھ مل چکے ہیں۔ پھولنگرتک لاہور شہر پھیل چکا ہے۔ شرقپور تک لاہور شہر کا حصہ بننے کو تھوڑے دنوں کی بات لگتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں لاہور کے اردگرد ضلعی صدر مقامات، تحصیلیں، قصبات اور بہت سارے دیہات اب نئے اعلان کے مطابق لاہور شہر کا حصہ بن گئے ہیں۔ درمیان کے فاصلے اور خلاء عنقریب پر ہو جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق مستقبل میں خادم اعلیٰ پنجاب کا مجوزہ لاہور سوا سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے درمیان پھیلا ہوا شہر ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے لاہور شہر کراچی کے برابر یا اس سے بڑا شہر بننے جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تب تک کراچی کہاں پہنچے گا۔ یقینا وہ حیدر آباد کو اپنا محلہ بنا لے گا کیونکہ کراچی سمندر کی جانب بڑھ نہیں سکتا لہٰذا اسے حیدر آباد کی طرف ہی بڑھنا ہے۔ ویسے بھی کراچی اور حیدر آباد کے درمیان جناب ملک ریاض صاحب کا بحریہ ٹائون بہت بڑا شہر بننے کے قریب ہے۔ دیگر بڑی سکیمیں بھی یہاں شروع ہیں لہٰذا کراچی کا پھیلائو مستقبل میں دو اڑھائی سو کلو میٹر تک نظر آ رہا ہے۔ 
جب شہر بڑے ہو جاتے ہیں تو ان میں لاء اینڈ آرڈر کے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ جرائم بڑھ جاتے ہیں، جرائم پر قابو پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سماجی مسائل بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ تعصبات بھی ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کراچی ہمارے سامنے ایک مثال ہے۔ بڑی مشکل اور شدید ترین جدوجہد سے اب کہیں جا کر امن بحال ہوا ہے۔ وہ بھی مکمل طور پر نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قانونی، سیاسی، سماجی اور بلدیاتی مسائل ابھی تک جوں کے توں پڑے ہیں جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے امن کی مکمل گارنٹی خطرے سے دوچار رہے گی۔ مگر ہم تو لاہور اور کراچی کو قابو کرنے کی بجائے انہیں اور بڑا کرنے چلے ہیں تو میری گزارش ہے کہ آنے والے مسائل کو بھی سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ کراچی میں جس طرح کے تہذیبی اور سماجی مسائل سامنے آئے۔ لاہور میں ایسے مسائل مستقبل قریب میں بلکہ فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتے۔ لیکن یہاں ایک اور موازنہ ہے جسے نظر انداز بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ کراچی سے حیدر آباد تک کا رقبہ زرعی نہیں ہے۔ یہ پتھریلا رقبہ ہے لہٰذا کراچی کو جو پانی ملتا ہے وہ دریائے سندھ سے نہر نکال کر اور اسے صاف کر کے ملتا ہے۔ اس کے برعکس لاہور اور گردونواح کا سارا رقبہ زرعی ہے۔ یہ سارا زرعی رقبہ پختہ عمارتوں، سڑکوں اور فرشوں میں تبدیل ہو جائے گا تو پانی اور ماحول کا کیا حال ہو گا اس پر غور کرنا لازم بلکہ ضروری ہے۔ 
ہمارا زرعی رقبہ پہلے بھی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے، اب ہم اس کی رفتار کو اور تیز کرنے جا رہے ہیں تو سوچیے لاہور جس کے درمیان سے گزرنے والا دریائے راوی سوکھتا جا رہا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح سات آٹھ اور نو سو فٹ تک جا پہنچی ہے۔ اس کے بعد تو چٹانیں آئیں گی تب لاہور اور لاہوریوں کو پانی کہاں سے ملے گا؟ بارشوں سے پانی زیر زمین چلا جاتا ہے لیکن جب ہر جانب فصلوں اور باغوں کی بجائے ڈیڑھ سو مربع کلو میٹر کے قریب پختہ عمارتیں ہوں گی تو بارش کے پانی کی زیر زمین جانے کی اوسط انتہائی کم ہو جائے گی یوں ہم زیر زمین پانی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ لاہور پہلے بھی دنیا کا چوتھا آلودہ ترین شہر قرار پا چکا ہے۔ چند ہفتے قبل ہم اس کا بھیانک نظارہ بھی کر چکے ہیں۔ اب ہمارے نئے رویے سے اتنے بڑے شہر میں ٹرانسپورٹ کا دھواں، اے سی چلنے کی حرارت اور گرمی، سڑکوں سے اٹھنے والی حدت یہ سب کچھ ماحول کا ستیا ناس کر ڈالے گی۔ یقین مانیے! میں کئی ہفتوں سے سوچ رہا تھا کہ ہمارے محکموں کی عدم پلاننگ سے سڑکوں اور شہروں کا جو برا حال ہو چلا ہے۔ اس پر لکھوں ابھی لکھا نہ تھا کہ لاہور کا پھیلائو سامنے آ گیا۔ 
مواصلات کے ضمن میں ہمارا ایک محکمہ ہے، جسے ''نیشنل ہائی وے اتھارٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہم آج سے پچاس سال قبل دیکھتے تھے کہ محکمہ نے سڑکوں کے گرد وال چاکنگ اور بورڈز کے ذریعہ وارننگ دی ہوتی تھی کہ 220 فٹ کے اندر کوئی عمارت بنانا منع ہے۔ اب فرض کریں کہ پختہ سڑک اور اس کے کچے شولڈر 60 فٹ ہیں تو سڑک کی چوڑائی کا رقبہ پانچ سو فٹ بنتا ہے لیکن آج یہ رقبہ کہاں ملتا ہے۔ اگر دونوں طرف کا رقبہ ملایا جائے تب بھی چار سو چالیس فٹ بنتا ہے مگر آج نصف صدی بعد بجائے اس کے کہ یہ رقبہ تین چار گنا زیادہ ہوتا یہ مزید سکڑ گیا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سکڑتی ہوئی سڑکوں پر اس تیزی سے تعمیرات اور شہر بننے لگے کہ اب لاہور سے گجرات تک اور آگے پشاور تک سڑک کے دونوں جانب تعمیرات ہیں۔ لاہور کے دوسری جانب اور سارے پاکستان کی سڑکوں کا یہی حال ہے۔ حکومت بائی پاس بناتی ہے تو وہاں سکیمیں بن جاتی ہیں اور بائی پاس شہر کے درمیان کا ایک رش والا روڈ بن جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس کی پلاننگ کس نے کرنا تھا کہ بائی پاس کے ساتھ ایک ہزار فٹ تک کوئی بلڈنگ اور گھرنہ بن سکے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ حادثات کی بھرمار ہے۔ معلوم ہوا پلاننگ کا محکمہ موجود ہے مگر عدم پلاننگ نے گنڈ ڈال دیا ہے۔ پورا ملک تجاوزات کی شدید ترین بھرمار کی زد میں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کی وہ تصویر جس میں وہ اپنا ہاتھ چہرے پر سجائے غور و فکر اور پلاننگ میں نظر آتے ہیں۔ یہ پلاننگ زمین پر کہاں واقع ہے۔ محترم خادم اعلیٰ صاحب نشاندہی کرنا پسند فرمائیں گے؟
قارئین کرام! ہم سمجھتے ہیں سڑکوں کا نظام بننا چاہئے، قوانین کو سختی سے لاگو ہونا چاہئے، شہروں کی پلاننگ ہونی چاہئے، شہروں کو بڑا کرنے کی بجائے نئے شہر بنانے چاہئیں، شہروں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے، ان فاصلوں کے خلاء کو پر کرنا جرم ہونا چاہئے، بعض لوگ اللہ کے رسولؐ کی حدیث کا ذکر کرتے ہیں کہ شہر چھوٹا ہونا چاہئے، مگر ایسی کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گزری۔ اگر کسی صاحب کو معلوم ہو تو حوالے کے ساتھ ضرور بتلائے۔ ہاں! البتہ دو شہر ایسے ہیں جن کی حدود الہامی ہیں، حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم سے مکہ شہر کی حدود حرم کا تعین فرمایا تھا۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے ان حدوں کی نشاندہی فرمائی تھی۔ حکومت سعودی عرب نے ان حدود پر نشانات کھڑے کر دیئے ہیں۔ حرم مکی کی حدود تقریباً 20 کلو میٹر چوڑی اور 25 کلو میٹر لمبی بنتی ہیں۔ اسی طرح حضرت محمد کریمﷺ نے حرم مدنی کی جو حدود متعین فرمائیں وہ تقریباً دس سے پندرہ کلو میٹر مربع ہے۔ اس سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ بڑا شہر 25 مربع کلو میٹر سے زیادہ نہ ہو اور جو دوسرے نمبر پر بڑا شہر ہو وہ دس بارہ یا پندرہ کلو میٹر مربع سے زیادہ نہ ہو۔ پھر شہروں کے درمیان فاصلے ہوں، شہروں کا یہ سائز الہامی ہے، پیغمبرانہ ہے، یہ ایک پسندیدہ ماڈل ہے۔ ہاں اس کو اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایک شہر کے سیکٹر بنا دیئے جائیں ہر سیکٹر کے چاروں طرف دو تین کلو میٹرز کے فاصلے ہوں۔ یہاں باغات اور فصلیں اور پارک بن سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایسا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس کو اس قدر پھیلا دیا گیا کہ اسلام آباد اور پنڈی باہم گھل مل گئے۔ یوں اصل مقصد کو نقصان پہنچ گیا۔ ہمیں گوادر کے بارے میں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ شہر بڑا تو بنے مگر پلاننگ اور حسن کے ساتھ... اور جو اقتصادی کوریڈور بن رہا ہے۔ اس پر نئے شہر پلاننگ کے ساتھ بنانے چاہئیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ مرکز میں آپ کی حکومت ہے، لہٰذا پورے ملک کی پلاننگ کیلئے زرعی زمین کو بچایئے۔ ماحول اور لاء اینڈ آرڈر ہی نہیں سڑکوں پر حادثات، آلودگی، تجاوزات اور دیگر تمام مسائل کو سامنے رکھ کر شہروں کی جامع پلاننگ کیجئے۔ یہ صدقہ جاریہ ہو گا۔ آنے والی نسلوں پر احسان ہو گا، بسم اللہ کیجئے۔ پاکستان کو شاداب، حسین اور شاندار پلاننگ کا حامل ملک بنایئے۔ آپ کے لئے اللہ کی توفیق کا خواستگار ہوں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں