کوہ قاف کا ملک 1991ء میں آزاد ہوا تو سب سے پہلے ترکی نے اسے تسلیم کیا اور وہاں اپنا سفارتخانہ قائم کر دیا۔ ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا ملک پاکستان تھا جس نے ترکی کے فوراً بعد آذربائیجان کو تسلیم کرلیا اور وہاں اپنا سفارتخانہ قائم کر دیا۔ ترکی اور پاکستان کی باہمی دوستی ایسی دوستی ہے جو احترام کے رشتے میں بندھی ہوئی ہے۔ پاکستان کو روس کی آزاد ہونے والی مسلمان ریاستوں میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس لئے کہ وہاں کے عوام اور حکمران یہ سمجھتے تھے کہ یہ پاکستان کے صدر ضیاء الحق ہی ہیں کہ جن کے فعال کردار کی وجہ سے روس افغانستان سے نکلا اور ہماری مسلم ریاستیں آزادی حاصل کر گئیں۔ پاکستان کردار ادا نہ کرتا تو ہم محکوم ہی رہتے۔ پاکستان آذر بائیجان کو فوراً تسلیم کر کے دنیا کا پہلا ملک بھی بن سکتا تھا لیکن پاکستان نے سمجھا کہ یہ حق میرے دوست ملک ترکی کا ہے کہ وہ ان آزاد ریاستوں کا پڑوسی بھی ہے اور ہم زبان بھی۔ آذر بائیجان اس کا حصہ بھی رہا ہے لہٰذا پہلاحق اُسی کا بنتا ہے کہ وہ آذر بائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنے، ہمارا حق اس کے بعد بنتا ہے؛ چنانچہ پاکستان کے اس حقیقت پسندانہ رویے نے ترکی اور آذر بائیجان دونوں کے دلوں میں اپنا احترام پیدا کرلیا۔
اگلے سال یعنی 1992ء کو میں آذر بائیجان اس طرح گیا کہ اسلام آباد سے تاشقند گیا، وہاں سے ریل گاڑی کے تین روزہ سفر کے بعد ماسکو پہنچا۔ ماسکو سے ٹرین کے ذریعے تاتارستان کے صدر مقام ''قازن‘‘ گیا اور پھر وہاں سے تین منزلہ بحری جہاز کے ذریعے دریائے وولگا میں سفر کرتا ہوا ''آستراخان‘‘ پہنچا۔ یاد رہے! اسی آسترا خان میں چند روز پہلے پاکستان اور روس نے مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ آستراخان سے ٹرین کے ذریعے میں آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو جا پہنچا۔ خزر نامی اس بند سمندر کو کیسپین بھی کہا جاتا ہے۔ باکو شہر اسی سمندر کے کنارے واقع ہے۔ میرا ہمسفر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند کا شہری فتح اللہ تھا۔ ہم دونوں سمندر کے کنارے بیٹھے بحرِ خزر کی لہروں کا نظارہ کر رہے تھے کہ میں نے فتح اللہ سے کہا کہ کسی سے پوچھو کہ ہم یہاں کی بندرگاہ سے بحری جہاز میں بیٹھ کر ترکمانستان کے شہر ''اشک آباد‘‘ جانا چاہتے ہیں‘ کیسے جائیں گے۔ تفصیلات معلوم کر کے آؤ۔ وہ مجھ سے دو سو فٹ دور پہنچا تو وہاں ایک پولیس وین آن کھڑی ہوئی۔ فتح اللہ نے ان سے مذکورہ معلومات کے بارے میں پوچھا۔ اب میں کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگ گیا۔ پولیس مین نے پوچھا: اکیلے ہو یا کوئی اور بھی ساتھ ہے؟ فتح اللہ نے میری طرف اشارہ کیا اور پولیس والے نے اشارے کے ساتھ مجھے اپنی جانب بلا لیا۔ میں وہاں پہنچا‘ سلام دعا ہوئی اور اس کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔ اس نے ویزہ طلب کیا تومیں نے کہا ویزہ تو صرف ازبکستان کا ہے۔ کہنے لگا۔ پھر بغیر ویزے کے آذر بائیجان کیوں آئے؟ میں نے کہا آپ ہمارے بھائی ہو‘ آپ سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اس نے کہا آپ دونوں وین میں بیٹھیں۔ وہ ہمیں باکو کی سیر کراتا رہا، آخر پر کہنے لگا: میں فتح اللہ کو جیل بھیجوں گا‘ آپ کو پاکستان کے سفارتخانے بھیج دوں گا۔ میں نے کہا: میں اس کو نہیں چھوڑوں گا‘ مجھے بھی جیل بھیج دو۔ کہنے لگا: یہ نہیں ہو سکتا، آپ بہرحال ہمارے معزز مہمان ہیں۔ میں نے کہا: پھر اس کو بھی چھوڑ دو۔اب وہ تین پولیس والے اکٹھے ہو گئے، کہنے لگے: جاؤ ہمارے بھائی! اپنے دوست کوبھی لے جاؤ۔ یہ تھا پاکستان اور اہلِ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت و الفت کا ابتدائی منظر جو میں نے خود دیکھا۔
قارئین کرام! روس نے آذر بائیجان اور آرمینیا کو آزادی تو دے دی مگر آذر بائیجان کاعلاقہ ''نگورنو کاراباخ‘‘ کاانتظام آرمینیا کے حوالے کر دیا اور آذر بائیجان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اسے آزاد علاقہ قرار دے دیا یعنی اس کی وہی پوزیشن بن گئی جو پاکستان کے لئے مقبوضہ کشمیر کی پوزیشن 1947ء میں بنا دی گئی تھی۔ جس طرح ہم 1947ء میں آزاد ہوئے اور 1948ء میں انڈیا کے ساتھ کشمیر پر جنگ شروع ہو گئی‘ بالکل اسی طرح آذر بائیجان اور آرمینیا دونوں 1991 ء میں آزاد ہوئے اور 1992ء میں نگورنو کاراباخ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ جس روز میں باکو میں تھا‘ اس دن بھی باکو میں جنگ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ محاذِ جنگ سے گرم گرم خبریں آ رہی تھیں مگر آذر بائیجان کو نگورنوکاراباخ نہ مل سکا‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہمیں کشمیر نہ مل سکا۔ اب آذر بائیجان نے کیا کیا؟ اس نے بھی ہماری طرح یو این میں کوششیں شروع کر دیں۔ قراردادیں پاس ہو گئیں کہ یہ علاقہ آذر بائیجان کا ہے مگر آذر بائیجان کو مل نہ سکا، بالکل اسی طرح جس طرح ہمیں کشمیر نہ مل سکا۔ اب آذر بائیجان نے ایک اور راستہ اختیار کیا: -1انہوں نے اپنی تیل اور گیس کی دولت سے ملک کو بنانا‘ سنوارنا شروع کر دیا۔ -2 سیاحت کو فروغ دیا۔ اس کے سفارتخانے ملک کا سیاحتی امیج بلند کرنے پر ڈٹ گئے‘ لہٰذا دنیا سے رابطے مضبوط ہونے لگے۔ -3 سب ملکوں سے دوستی اور محبت کے رشتے قائم کئے۔ -4 ملک میں امن و امان کا مثالی نظام قائم کیا اور میرٹ کو ترجیح دی۔ -5 تعلیمی ادارے‘ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ آج 2020 میں وہاں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے۔ -6 بزنس کے لئے اچھا اور پُرامن ماحول فراہم کیا۔ -7 نگورنوکاراباخ کو حاصل کرنے کا ایک قابلِ عمل منصوبہ تیار کیا اس پر متواتر مگر خاموشی سے کام ہوتا رہا یعنی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے، عوام اور فوج کو ایک صفحے پر ایک مقصد کے حصول کیلئے باہم شیرو شکر کیا۔
جس طرح ہمارے ہاں ایل او سی پرفائرنگ ہوتی رہتی ہے اور ہمارے عام شہری اور فوجی جوان شہید ہوتے رہتے ہیں‘ آرمینیا بھی ایسی نیچ حرکتیں کرتا رہتا تھا۔ اب پھر اس نے ایسی ہی حرکت کی تو اب کے بار آذر بائیجان کی حکومت اور فوج فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ جوابی فائرنگ نہیں ہوگی بلکہ حملہ ہوگا اور اس وقت تک جنگ رہے گی جب تک نگورنوکاراباخ واپس نہیں لے لیتے؛ چنانچہ آج پانچ اکتوبر کو جنگ شروع ہوئے 9دن ہو چکے ہیں۔ آذر بائیجان کا اخبار ''آذر نیوز‘‘ آرمینیا کے ایک فوجی دستے کا جنگی جھنڈا آذری فوجی کے ہاتھ میں دکھا رہا ہے کہ جسے آرمینیا کا دستہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اب آرمینیا کے فوجی بھاگ رہے ہیں۔ مقامی لوگ کثیرتعداد میں آذری فوج کا ساتھ دے رہے ہیں۔ آذری فوج کاراباخ شہر کے قریب پہنچ گئی ہے۔ آرمینیا جنگ بندی کی دہائیاں دے رہا ہے مگر آذری فوج کا میجر جنرل حکمت حسن کہتا ہے کہ ہم تو فاتخانہ رویہ بنا کر جنگ جیتنے آئے ہیں۔ جی ہاں! یہ رویہ انہوں نے اس روز بھی بنا لیا ہوا تھا جس روزمیں باکو میں تھا۔ آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے واضح کر دیا ہے کہ یو این اور ساری دنیا نے نگورونو کاراباخ کو ہمارا علاقہ تسلیم کیاہے مگر وہ باتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے، اب ہم ان سے مایوس ہو کر اپنی ٹانگوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہمارے قدم وہاں رک جائیں گے جہاں کاراباخ کا علاقہ ختم ہو جائے گا اور آرمینیا کا شروع ہو جائے گا۔ یہ ہے وہ مضبوط اور عادلانہ مؤقف جس پر آذری فوج اور آذری عوام یک جسد اور یک جان ہیں۔ پاکستان کا پلڑا آج پھر ترکی کے بعد آذر بائیجان کے حق میں ہے۔ یہ اخلاقی یکجہتی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔ اس یکجہتی میں بھی ترکی پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان دوسرے نمبر پر۔ آذری صدر اور آذری قوم دونوں کے لئے تشکر کے جذبات سے لبریز ہے۔
میں سوچوں میں گُم ہوں کہ میرے وطن عزیز کے حکمران مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کی ایسی پالیسی کب بنائیں گے؟ ممکن ہے اور میرا حسنِ ظن ہے کہ وہ ضرور بنی ہوئی ہو گی، تو پھر آئیے! آگے بڑھئے۔ کشمیر کے مظلوموں کی خاطر فرقہ واریت کو چھوڑیں، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ سے محبت کرنے والے مسلمان بنیں۔ پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان اور کشمیری سے پہلے پاکستانی بنیں۔ نفرتوں کی دیواروں کو منہدم کریں۔ کفرکے فتوے اور غداری کے نعرے بند کریں، آپس میں مل بیٹھیں، سیاسی استحکام کا حل نکالیں، ایثار اور قربانی سے آگے بڑھیں۔ قوم اور فوج کو ایک صفحے پر لا کر کچھ ایسے مضبوط انداز سے دنیا کو دکھائیں کہ دنیا کو واضح پیغام ملے ۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین قدموں کی چاپوں نے مسئلہ حل کے قریب کر دیا ہے‘ پاکستان بھی ایسا کرنے جا رہا ہے مگر یہ تو دو ایٹمی قوتیں ہیں۔ دنیا آگے بڑھ کر عدل کرتی ہے تو ٹھیک وگرنہ چین اور آذر بائیجان کی طرح‘ پاک فوج اور پاک عوام یک جہت اور یک قدم‘ زندہ باد اور پائندہ باد! پورا اور مکمل پاکستان‘ زندہ باد!