"AHC" (space) message & send to 7575

زمین کی جسامت کے برابر انسان اور سائنس!

اللہ تعالیٰ اپنے منکر اور ملحد انسان کو قرآن میں مخاطب فرماتے ہیں تو غصے اور غضب کی آخری حد دکھائی دیتی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے غضب کا ایک سمندر ہے اور اس پر لہریں و موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں لیکن ٹھاٹھیں اور جوش مارتی ان موجوں کے نیچے اگر دیکھا جائے تو محبت ور الفت کا اک خاموش مگر سیلِ رواں دیکھنے کو ملتاہے۔ محسوسات کی دنیا میں اس کی بہترین مثال ماں ہے کہ جس کے دل میں اپنے بچوں کے لیے محبت و الفت کا اک خاموش سیلِ رواں ہے اور اس کا جسم بچے کو سامنے پا کر غصے سے کپکپا رہا ہوتا ہے۔ ہاتھ اور بازو حرکت میں ہوتے ہیں، چہرہ سرخ ہوتا ہے۔ منہ سے زور دار جملے کچھ یوں ادا ہوتے ہیں ''تجھے سانپ ڈس لے، راستے میں مر جائے، تیرا بیڑا غرق، ٹُٹ جانیا ں‘ یعنی ٹکڑے ہو جا وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اب یہ جو ظاہری طور پر سخت جملے ہیں‘ بیٹے کی ہلاکت اور بربادی کے جملے ہیں۔ یہ دراصل فسادی بیٹے کی اصلاح کے لیے ہیں جبکہ یہی ماں اپنی چمڑی اور جِلد کے نیچے محبت و الفت کا ایک سیلِ رواں لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے محبت اور ماں کی بچے کے لیے محبت کا کوئی موازنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے‘ ماں کو دی ہوئی محبت بھی اسی کی ہے۔ وہ رحمن ہے‘ رحیم ہے۔ 'ودود‘ ہے اور 'حنّان‘ ہے۔ ماں کا وجود صرف ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے بچے کو اپنے وجود کے ایک حصے میں اٹھائے پھرے اور پھر وہ بچہ دنیا میں ظاہر ہو جائے تو اس کی پرورش اور نگہداشت ان نعمتوں سے کرے کہ جو اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں یعنی محبت کا سر چشمہ اور منبع اللہ کی ہستی ہے۔ اب جب مہربان مولا کریم دیکھتے ہیں کہ اس کا بندہ بہک گیا ہے‘ اپنے خالق سے بے پروا ہو گیا ہے‘ منکر اور ملحد ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہلاک ہو جائے یہ انسان کہ اس قدر یہ کُفر کرنے والا (نا شکرا، نمک حرام) ہے۔ (دیکھے تو سہی) کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا ہے۔ پانی کی اک معمولی سی بوند سے۔ اس کو پیدا کیا اور پھر اس کی تقدیر بنا ڈالی (تمام تفاصیل اس کے خلیے میں درج کر دیں) پھر ( دنیا میں آنے کا) اس کا راستہ آسان کر دیا۔ پھر اس کو (روح قبض کر کے) مار دیا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اس کو (نئی زمین کے بطن میں پڑے اس کے ایک خلیے ''عجب الذنب‘‘ سے) اٹھا کھڑا کرے گا۔ صورتحال یہ ہے کہ جو کام اس کے ذمہ لگا کر اسے پورا کرنے کا (اللہ) نے حکم دیا تھا وہ اس نے ابھی تک پورا نہیں کیا (جبکہ مہلت ختم ہونے کو ہے)۔ (عَبَس: 17 تا 23)
اللہ کی قسم! کمال دعوت ہے غور و فکر کی کہ ہمارا عظیم خالق اربوں کھربوں مائوں کی محبتوں سے بڑھ کر اپنے اس بندے کو انتہائی محبت کے ساتھ راہِ راست پر آنے کی دعوت دے رہا ہے جس نے غلط روش اختیار کر لی ہے۔ ایسی روش کہ جس کا نجام دنیا میں بھی خرابی اور آخرت میں مکمل بربادی ہے یعنی یہاں بھی مارا جائے گا اور اگلے جہاں میں بھی بار بار مارا جائے گا مگر وہ قتل ایسا قتل ہو گا کہ نہ پوری طرح قتل ہو گا اور نہ زندہ رہے گا۔ (دیکھیے ،الاعلیٰ: 13)
ایک انسان میں ایک سو کھرب خلیات ہوتے ہیں۔ ہر خلیے میں ''ڈی این اے‘‘ ہوتا ہے، ''RNA‘‘ ہوتا ہے۔ لاکھوں جین ہوتے ہیں۔ جی ہاں! تین کروڑ تو مالیکیول ہوتے ہیں۔ خلیہ کیا ہوا ایک پورا شہر ہے۔ ہر خلیے میں ایک پاور سٹیشن ہوتا ہے۔ یہ اپنی توانائی خود پیدا کرتا ہے۔ توانائی بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے خون میں سے اس طرح حاصل کیا جاتا ہے کہ پہلے خون سے شوگر کو حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس شوگر سے توانائی یا بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ پھر یہ بجلی یا توانائی خلیے میں موجود مخلوقات کو مہیا کی جاتی ہے۔ یاد رہے! یہ پاور پلانٹ ہر حلقے میں موجود ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک انسان میں 100 کھرب خلیات ہوتے ہیں تو ہر انسان میں 100 کھرب ہی پاور پلانٹس ہیں۔ کسی خلیے میں لوڈ شیڈنگ کا مطلب بیماری ہے اور اگر کسی عضو یعنی دل، پھیپھڑے، جگر وغیرہ میں سے کسی کے خلیات زیادہ تعداد میں توانائی سے محروم ہونے لگ جائیں یعنی لوڈ شیڈنگ زیادہ گھروں تک پھیل جائے اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہونے لگ جائے تو وہ عضو اسی رفتار سے ناکارہ ہونے لگ جاتا ہے۔ متاثرہ عضو سے محروم ہو کر انسان معذور بھی ہو جاتا ہے۔ یاد رہے! جب تمام اعضا لوڈ شیڈنگ کی زد میں آ جاتے ہیں‘ مکمل بلیک آئوٹ ہو جائے تو اس کا مطلب موت ہے‘ یہ بیالوجی کے سائنسدان کہتے ہیں۔ ڈاکٹر سام پارینا جیسے بڑے سائنسدان اپنے تجربات کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ جب موت کا حملہ ہوتا ہے تو انتہائی سرعت کے ساتھ تمام خلیات توانائی سے محروم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یوں مکمل بلیک آئوٹ ہوتے ہی انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔
خون سے ہی زندگی میں روانی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے مگر یہ مکمل حقیقت نہیں بلکہ جزوی حقیقت ہے۔ اس لیے کہ خون کے خلیات میں پاور پلانٹس نہیں ہوتے یعنی خلیات تو ہیں مگر پاور پلانٹس کے بغیر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیات سے اعضا بنتے ہیں۔ اگر خون کے خلیات سے بھی اعضا بننے لگتے تو تمام اعضا کے خلیات کو انرجی کیسے ملتی؟ چنانچہ خون کے خلیات تمام خلیات کو ان کی ضرورتوں کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ جسم میں پھیلی شریانیں جسمانی جہاں کے بڑے بڑے دریا ہیں۔ ان دریائوں میں خون چلتا ہے۔ 100 کھرب خلیات کو جس جس سامان کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ سارا سامان اور خلیات کی ضروریات کی ہر شے خون میں موجود ہوتی ہے۔ ''دورانِ خون‘‘ یا بلڈ سرکل کا نظام کہ جس کی ذمہ داری دل پر ہے‘ وہ ایسی پمپنگ کرتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کا بہت بڑا نظام چلتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بتایا اسی نظام کے تحت جسمانی اعضا کے خلیات کو سامان کی سپلائی ہوتی ہے، ٹرانسپورٹ اور سپلائی کا یہ نظام اس قدر مضبوط اور باہم منظم اور مربوط ہے کہ پوری دنیا کی سپلائی کا نظام اس نظام کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ دونوں کا موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ غور فرمائیں! یہ جو خون میں سرخ خلیات ہیں ان میں ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز، بحری جہاز اور ٹرک و ٹرالر چلتے ہیں۔ ریلوے کی مال گاڑیاں چلتی ہیں۔ کتنی لاکھوں اور کروڑوں ٹرانسپورٹ چلتی ہے‘ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ یہ ٹرانسپورٹ ہر 90 سیکنڈ یعنی ہر ڈیڑھ منٹ میں ایک لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ 50 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے آکسیجن اور دیگر سامان کی سپلائی کرتی ہے اور فیکٹریوں اور گھروں کا جو کوڑا کرکٹ یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ ہوتا ہے‘ اسے اٹھا کر واپس پھر 50 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے اور یہ سارا کام ہر ڈیڑھ منٹ میں ہوتا ہے اور لگاتار اور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ انسان کی تمام عمر تک پیہم ہوتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے ایک اندازے کے مطابق جن صارفین (اعضا و خلیات)کی خدمت کا یہ کام ہوتا ہے‘ ان کی تعداد دنیا کی سات ارب آبادی سے 80 ہزار گنا زیادہ ہے۔ مذکوہ ٹرانسپورٹ جب کوڑا کرکٹ وغیرہ واپس لاتی ہے تو پھیپھڑوں، گردوں وغیرہ تک یعنی ان اعضا تک پہنچاتی ہے جو کوڑے کرکٹ کو جسم سے باہر پھینکتے ہیں جیسا کہ پیشاب، پاخانہ، بلغم، پسینہ وغیرہ۔
قارئین کرام! دنیا میں 200 سے زیادہ ممالک ہیں۔ ان میں رقبے کے اعتبار سے ہمارا وطن عزیز پاکستان ایک اوسط سائز کا ملک ہے۔ گزشتہ 73 سالوں کا نتیجہ یہ ہے کہ پی آئی اے تباہ کر بیٹھے ہیں، انگریز کا بنایا ہوا ریلوے کا نظام بھی بوسیدہ شکل میں ہے، سڑکیں مانگ تانگ کر کچھ بنائی تو ہیں مگر چینی، آٹا اور اجناس وغیرہ کی سپلائی میں حکمرانی ناکام ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کا جسمانی نظام اپنے ہاتھ میں رکھا‘ اسی لیے وہ چل رہا ہے۔ اسے ذہنی طور پر فیصلے کرنے کا اختیار دیا کہ لواپنے گھروں اور ملکوں کا نظام چلائو اور یہ بیچارہ گالی گلوچ، حسد، بغض اور لڑائی جھگڑے کا شکار ہو گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے جسمانی نظام چلانے کا کوئی پانچ ‘دس فیصد بھی اختیار دے دیتا تو یہ چند منٹوں میں ہی اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ اپنے آپ کو سیدھا کر، اپنے گھر اور ملک کو چلانے کے لیے خود کو عقلِ کل نہ سمجھتا رہ ‘میرے حبیبﷺ کے دیے ہوئے نظام کی طرف آ۔
جدید میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ایک خلیے کے اندر اتنا بڑا نظام چل رہا ہے کہ اگر اس نظام کو انسان زمین پر بنائیں تو نیویارک، ماسکو، کراچی، کلکتہ جیسا ایک بڑا شہر آباد کرنا پڑے گا۔ جی ہاں! میرے اندازے کے مطابق ایسے شہر اگر زمین پر ایک ارب کی تعداد میں بن جائیں تو زمین کا کل رقبہ بھی ختم ہو کر رہ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انسانی جسم ایک ارب خلیات پر مشتمل ہو اور اس کا ہر خلیہ ایک بڑے شہر کی جسامت کا حامل ہو تو صرف ایک انسان ہی زمین پر پورا آ سکتا ہے‘ یا زیادہ سے زیادہ اس کی ایک بیوی... بچے پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر انسانی جسم کے خلیات ایک کھرب ہوں تو ایک انسان اتنا بڑا ہو گا کہ اس زمین پر پورا نہیں آئے گا۔ اس کے لیے ایسی 99 زمینیں مزید درکار ہوں گی مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ انسان کا وجود 100کھرب خلیات پر مشتمل ہے اس کے لیے حساب کتاب کرتے رہیں کہ صرف ایک انسان کو اپنے وجود کے لیے کتنے کروڑ اور کتنی ارب زمینیں درکار ہیں مگر ایک سوال پھر موجود رہے گا کہ ایسے دیوہیکل انسان کے لیے میٹریل کہاں سے آئے گا اور کون اسے بنائے گا۔ اور اتنی بڑی زمین کہاں سے آئے گی جو کروڑوں گنا بڑی ہو گی۔۔۔۔۔ اور اگر یہ بن بھی جائے تو یہ ایک بے جان بُت ہو گا۔ اس میں روح نہیں ہو گی... میں صدقے قربان جائوں اس عظیم خالق پر کہ جس نے ساڑھے پانچ‘ چھ فٹ کے انسان میں اتنا بڑا نظام رکھ دیا پھر اس میں روح بھی پھونک دی۔
حضرت محمد کریمﷺ پر جو آخری کتاب نازل ہوئی اس میں مولا کریم نے کیا خوب فرمایا: ''کیا ہم نے زمین کو کافی ہو جانے والی نہیں بنایا۔ زندوں کے لیے بھی اور مر جانے والوں کے لیے بھی‘‘ (المرسلات:25) ہاں! انسان اپنے مناسب وجود کے ساتھ زندگی گزارتا ہے‘ مر کر پانچ‘ چھ فٹ کی قبر میں زمین کی مٹی کا حصہ بن کر ختم ہو جاتا ہے۔ اصل انسان کی فکر کر اے ناداں! کہ وہ تو روح اور نفس ہے‘ جو مرنے کے بعد اپنے اعمال سر پر اٹھائے اپنے خالق و مالک کے سامنے جوابدہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں