"AHC" (space) message & send to 7575

قرآن مجید اور کرسپر ٹیکنالوجی

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کریمﷺ پر قرآن نازل فرمایا۔۔۔۔ ساڑھے چودہ صدیاں قبل نازل ہونے والی یہ کتاب منفرد امتیاز رکھتی ہے کہ ان پڑھ معاشرے میں اس کتاب کا آغاز ''اِقْرَاْ‘‘ سے ہوتا ہے‘ یعنی پڑھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ پڑھنے کے اندر ''لکھائی‘‘ کا حکم موجود ہے‘ کیونکہ پڑھنے کے لیے کسی چیز کا لکھا ہوا ہونا ضروری ہے۔ اچھا! پڑھائی کا آغاز کہاں سے ہو؟ فرمایا! اپنے رب کے نام سے آغاز کرو۔ آگے رب کا تعارف یوں کروایا کہ رب وہ ہے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو جونک نما خونی لوتھڑے سے پیدا کیا۔ قارئین کرام! آپ نے ''سورۃ العلق‘‘ کا ابتدائی الہام ملاحظہ کیا۔ اس کے بعد ''سورۃ الطارق‘‘ میں نازل ہونے والے الہام میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ''انسان کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ اسے کس شئے سے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ جی ہاں! اسے مخصوص پانی کے ایک مالیکیول سے پیدا کیا گیا۔
تیسرے الہام پر غور و فکر کی دعوت ''سورۃ عَبَس‘‘ میں ہے‘ وہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو خوب جھڑکا اور لتاڑا ہے‘ مگر جھڑکنے اور لتاڑنے میں بے پناہ محبت کا انداز بھی پنہاں ہے‘ یعنی یہ علمی دنیا میں پڑھتا لکھتا ہوا آگے کیوں نہیں بڑھتا۔ یہ آگے بڑھے۔ ریسرچ کرے‘ اپنی تخلیق پر غور و فکر کرے؛ چنانچہ فرمایا! ''مارا جائے یہ انسان کہ یہ کیسے اللہ کا منکر و ناشکرا بنا پھرتا ہے۔ (دیکھیے تو سہی) کونسی شئے سے اس (اللہ) نے اسے پیدا کیا ہے۔ پانی کے جرثومے سے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی تقدیر کو لکھ دیا۔ جی ہاں! اس تقدیر کو فرشتے نے لکھا۔ یہ تقدیر اللہ کے سپر کمپیوٹر میں محفوظ ہے۔ اسے ''لوحِ محفوظ اور کتاب مبین‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اس کا کچھ حصہ پانی کے اس مالیکیول پر لکھا ہوا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہوا چلا آ رہا ہے اور باقی آسمانوں میں موجود ہے۔ آج ہمارا موضوع پانی کے مالیکیول پر لکھی ہوئی وہ تحریر ہے جس کا سائنس نے انکشاف کیا ہے۔ قرآن کی نصیحت ساڑھے چودہ صدیوں سے موجود ہے۔ ہر انسان کے نام موجود ہے‘ اس کا انکشاف بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہو رہا ہے۔ اس انکشاف کو ''کرسپر ٹیکنالوجی‘‘ کہا جاتا ہے۔بعض صاحبانِ علم نے اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے فکر مندی کا اظہار کیا ہے جبکہ بعض تحقیق و ریسرچ پر توجہ دلاتے ہیں۔ میں نے اپنی عاجزانہ بساط سے بڑھ کر کچھ کوشش کی ہے‘ جو حاضرِ خدمت ہے۔
دو پانیوں کے ملنے سے ایک مالیکیولر خلیہ بنا۔ انگریزی میں اسے Cellکہا جاتا ہے۔ یہ ایسا مالیکیول ہے جو انسانی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا‘ مگر یہ اپنی حیثیت میں اک پورا اور مکمل جہان ہے۔ اسے آج کی میڈیکل سائنس ''ڈی این اے‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس میں ''آر این اے‘‘ ہے۔ آر این اے ایسی چیز ہے جو زندگی کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس میں جینز کی ایک لڑی اور کڑی ہے‘ اسے ''کرسپر‘‘ کہا گیا ہے۔ اس ''کرسپر‘‘ میں ہزاروں جین ہیں۔ بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ لاکھوں میں ہیں۔ جینز کی بھی نئی اقسام ہیں اور یہ سب قسمیں اگر ملائی جائیں تو تیس لاکھ سے زائد ان کی تعداد بنتی ہے۔ ''آر این اے‘‘ کی لڑی اور کڑی کا نام CRISPR ہے۔ یہ چھ حروف چھ الفاظ(clustered regularly interspaced short palindromic repeats) کے مخفف ہیں۔ کرسپر نامی دھاگوں کی لڑی میں ماں باپ کا وراثتی نظام ہوتا ہے۔ اسی وراثتی نظام سے بچہ اپنے ماں باپ اور خاندان کے گزرے ہوئے آباء و اجداد سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس مشابہت میں جہاں بے شمار مثبت چیزیں ہوتی ہیں وہیں منفی بھی ہوتی ہیں۔ وراثتی طور پر بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔ ویسے انسانی ڈی این اے کے دھاگوں کی لمبائی چند میٹر ہے‘ مگر یہ انسان جو ایک ڈی این اے سے شروع ہوا اس میں مختلف جین مختلف اعضا بناتے چلے گئے‘ اور پھر ایک سو کھرب خلیات پر مشتمل انسان معرض وجود میں آ گیا۔ اب اگر ایک انسان کے تمام ڈی این اے اور ایک ڈی این اے میں موجود جین اور پروٹین وغیرہ کے دھاگوں کو ڈور کے ایک گولے میں تبدیل کر دیا جائے تو اس کے دھاگوں کو پھیلانے کے لیے لاکھوں بار سورج تک کے چکر کاٹے جائیں تب یہ گولا کھل پائے گا اور پھر اسے لپیٹنے کے لیے بھی ایسی ہی مسافت پر مشتمل چکر کاٹنے پڑیں گے۔ صدقے قربان جائوں قرآن بھیجنے والے پر کہ مولا کریم کی نصیحت پر عمل ہوا اور آج ہم انسان کے بارے یہ حقائق جان کر سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کا ورد کر رہے ہیں۔
ایک اور سائنسی حقیقت کا انکشاف ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام انسان جو حضرت آدم علیہ السلام تک گزر چکے اور قیامت تک پیدا ہوں گے‘ سب بنیادی اور اساسی طور پر 99.9 فیصد پاک ہیں۔ اختلاف صرف اعشاریہ ایک کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تمام انسان ایک ہزار میں نو سو ننانوے آپس میں ایک ہیں۔ فرق ہزار میں سے ایک کا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ انتہائی معمولی فرق سے انسانوں کی اس قدر ورائٹیز یعنی اقسام بن گئی ہیں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ انگلیوں اور ہاتھوں کے نشانات الگ ہیں۔ ایک جسم میں اگر دوسرے جسم کے اعضا پیوند کیے جائیں تو وہ جسم قبول نہیں کرتا‘ امیون سسٹم کو قدرے سلانا پڑتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک ڈرگز دی جاتی ہیں‘ جس سے کچھ فائدہ ہوتا ہے‘ مگر نقصان بھی بہت ہوتا ہے۔ غور کیجیے! اگر یہ فرق ہزار کی سطح سے نیچے گر کر سو کی سطح پر ایک فیصد ہوتا تو خون کا انتقال اور اعضا کی تبدیلی نا ممکن ہو جاتی۔ صدقے قربان جائوں مہربان رب کریم پر کہ اس نے فرق معمولی رکھا۔ انسانوں کو بتلایا کہ رنگ نسل پر اکڑتے نہ پھرو‘ یہ کچھ بھی نہیں ہے‘ تم آپس میں ایک ہو۔ اللہ کریم گویا انسان کو بتا رہے ہیں کہ وہ فرق جو ہمارے ہاں معمولی ہے وہ ہم نے اس لیے رکھا ہے تا کہ تم ''تَعَارَفُوْا‘‘ اپنی اپنی پہچان کے قابل رہو۔ پہچان کے بغیر زندگی کا نظام چلنا نا ممکن ہو جاتا۔ نادرا جیسے ادارے بن نہ پاتے‘ مگر اس میں تمہیں جو اعضا کی منتقلی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اسے علم اور جدید ترین علمی ٹیکنالوجی سے دور کرو۔
قارئین کرام! ''ڈی این اے‘‘ کی اگر پوری تاریخ بیان کروں تو بات لمبی ہو جائے گی تاہم ڈی این اے کے جدید ترین تاریخی سفر کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر لیں تو پہلا سفر بیسویں صدی کے آخری 30 سال ہیں۔ ان میں ریسرچ ہوتی رہی حتیٰ کہ اس کا رزلٹ 2000ء میں سامنے آیا جب امریکہ کے صدر بل کلنٹن کو سائنسدانوں نے بتایا کہ ہم ڈی این اے کے اہم ترین حصے آر این اے کے جین پر لکھی ہوئی کچھ تحریر پڑھ چکے ہیں۔ اس تحریر میں خالق اور صرف ایک خالق کا تصور اور عقیدہ موجود ہے۔ صدر کلنٹن اور امریکی سائنسدانوں نے وائٹ ہائوس میں اس کا اعلان کیا اور ساتھ ہی صدر کلنٹن نے پابندی لگا دی‘ اور یہ عالمی پابندی تھی کہ اس تحقیق کو مس یوز نہ کیا جائے۔ لا محالہ باقی بڑے ممالک بھی اس ریسرچ میں لگے ہوئے تھے۔ خدشہ یہ تھا کہ انسانی جین کی چھیڑ چھاڑ سے انسانیت بھیانک نتائج سے دو چار نہ ہو جائے۔ مزید یہ کہ انسانی اور حیوانی خلیات کو باہم ملا کر شیطانی تجربات نہ کیے جائیں کہ انسانیت جس کی متحمل نہ ہو سکے‘ مگر پابندی کے باوجود بڑے اور امیر ممالک نے اپنی اپنی لیبارٹریوں میں ریسرچ جاری رکھی‘ مثبت ریسرچ جو انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو‘ وہ الہامی مذاہب میں پابندی سے مستثنیٰ ہے‘ جیسا کہ ہم نے عرض کیا‘ آخری الہامی کتاب‘ قرآن مجید ایسی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے لازم قرار دیتی ہے۔ 2020ء کے آخر پر اس ریسرچ کا نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب امریکہ کی سائنسدان خاتون جینیفر ڈوڈنا اور فرانسیسی خاتون سائنسدان ایمانوایل کو نوبل انعام دیا گیا اور وہ اس بات پر دیا گیا کہ دونوں نے کرسپر ٹیکنالوجی کی جینی لڑی میں وراثتی طور پر کینسر کی بیماری کو انزائم کی قینچی سے ختم کرنے کا کامیاب تجربہ کر لیا۔۔۔۔ اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر فوق الجینیات پر گفتگو ان شا اللہ تبارک وتعالیٰ آئندہ ہفتے کریں گے۔ تب تک کے لیے تمام اہلِ پاکستان ‘ اہلِ ایمان اور ہر انسان کی بھلائی کے لیے ڈھیر ساری دعائیں سب کے خالق اللہ مہربان کی جناب میں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں