اللہ تعالیٰ اپنے بندے گلزار احمد مظاہری کو فردوس کے گلزار عطا فرمائیں۔ اس طرح گلزاروں کی عنایت ہو کہ ان کا ہر نیک عمل صدقہ جاریہ بنے اور ہر صدقہ جاریہ فردوس کا تا حد نظر گلزار بنے۔ آمین!
مولانا گلزار احمد مظاہری پر ان کے فرزند ارجمند جناب ڈاکٹر حسین پراچہ نے ایک کتاب لکھی ہے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے مجھے یہ کتاب عنایت فرمائی۔ کتاب کے سرورق نے میرے ان تاروں کو چھیڑ دیا جو دل اور دماغ کے درمیان تھے اور گزشتہ چالیس سالوں سے لاشعور کے بستر پر سو رہے تھے۔ کتاب دیکھتے ہی یہ تار جاگ اٹھے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری رحمہ اللہ کے مرشد حضرت سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے میں دوبارہ ملا۔ ذیلدار پارک اچھرہ میں ایک بار ان کی مجلس میں بیٹھنے کا موقع ملا اور دوسری بار ہفت روزہ تکبیر کے بانی ایڈیٹر مرحوم صلاح الدین کی کتاب ''بنیادی حقوق‘‘ کی تقریب میں سید مودودی سے ملا جس کا انعقاد اچھرہ ہی میں ہوا تھا۔ سید مودودی تو دنیا سے چلے گئے مگر ان کے جماعتی رفقا اور پیرو کاروں سے رابطے بنتے گئے۔ ان میں سرفہرست حضرت مولانا گلزار احمد مظاہری رحمہ اللہ ہیں۔ میں نے اپنی ثانوی تعلیم کے بعد لاہور کے مدرسہ ''جامعہ اسلامیہ‘‘ میں تعلیم شروع کی تو یہاں میرے تین اساتذہ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ ان میں مولانا محمود احمد غضنفر رحمہ اللہ اور مولانا عبید الرحمن مدنی رحمہ اللہ وفات پا چکے جبکہ مولانا عبید اللہ عبید حیات ہیں۔ مولانا عبید الرحمن مدنی رحمہ اللہ مدینہ یونیورسٹی کے فاضل تھے اور سعودی عرب کی طرف سے مبعوث تھے۔ ان کا تبادلہ ڈھاکہ میں ہو گیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کے امیر جناب میاں طفیل محمد رحمہ اللہ تھے۔ جامعہ کے طلبہ کا ایک وفد تشکیل دیا گیاجس نے میاں صاحب سے منصورہ میں ملاقات کی۔ راقم نے میاں صاحب سے گزارش کی کہ ہمارے استاد ہمارے محبوب ہیں‘ آپ ان کا تبادلہ رکوائیں۔ الحمد للہ! تبادلہ رک گیا۔ انہی دنوں پتا چلا کہ مولانا گلزار احمد نے منصورہ کے سامنے کھیتوں میں ایک پرانی عمارت میں علما اکیڈمی قائم کی ہے۔ ڈاکٹر حسین پراچہ کی کتاب پڑھ کر پتا چلا کہ مولانا مظاہری نے سرگودھا میں مدرسہ بنایا، اچھی بلڈنگ بنائی۔ طلبا اور اساتذہ اپنا اپنا کام کر رہے تھے کہ سید مودودی نے مولانا مظاہری کو لاہور طلب فرما لیا، چنانچہ جس طرح انہوں نے سید مودودی کے حکم پر بھیرہ میں اپنے زمیندارے اور شاندار بزنس کو چھوڑ دیا‘ اسی طرح اس مدرسے جامعہ قاسم العلوم کو اپنے پرانے دوست مولانا محمد عبداللہ علوی کے حوالے کیا اور خود لاہور آ گئے۔ مولانا مودودی نے انہیں منصورہ کی زیر تعمیر مسجد کا خطیب مقرر کر دیا۔ یہاں انہوں نے افتتاحی جمعہ پڑھایا۔ مولانا مودودی نے مظاہری صاحب کی امامت میں یہ جمعہ پڑھا۔ اب علماء اکیڈمی بنانے کا پروگرام بنا تو منصورہ کے سامنے سر سبز کھیتوں کے درمیان چاول چھڑنے کے ایک پرانے کارخانے پر نظر پڑی؛ چنانچہ اسے خرید لیا گیا ۔
چھ کنال رقبے پر یہ عمارت تھی۔ پرانی عمارت تھی‘ اینٹوں کی چنائی گارے سے تھی۔ سانپ یہاں بکثرت تھے۔ مولانا مظاہری نے یہاں اساتذہ اور طلبا کی رونق لگا لی۔ سانپوں کا مسئلہ سامنے آیا تو انہوں نے علما اور اساتذہ کو اکٹھا کر کے اللہ سے مدد مانگی اور سانپوں کو مخاطب کر کے کہا: یہ جگہ اب قرآن و سنت کی تعلیمات کا مرکز ہے‘ لہٰذا اب تم نے ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ اس کے بعد کوئی سانپ اس عمارت کے قریب نہیں آیا۔ ہم جامعہ اسلامیہ کے طلبا اور اساتذہ یہاں آتے اور یہاں کے طلبا اور اساتذہ جامعہ اسلامیہ میں آتے۔ مولانا مظاہری تمام مسالک کے مدارس کے ساتھ ایسے ہی تبادلے کر رہے تھے، مقصد یہ تھا کہ فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں طلبا اور اساتذہ اپنا وقت خراب نہ کریں، ایک دوسرے کو برداشت کریں اور معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگیں اور عدم برداشت سے بچائیں۔ ملک بھر کے تمام مسالک کے مدارس سے ایسے فارغ التحصیل طلبا‘ جو علما بن چکے تھے، کو دعوت دی جاتی کہ وہ علما اکیڈمی میں تین ماہ کا کورس کریں۔ میں نے بھی یہ کورس کیا۔ اس کورس کا انعقاد منصورہ میں ہوا۔ اس لحاظ سے مولانا گلزار احمد مظاہری رحمہ اللہ میرے استاد گرامی بھی ہیں۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی مولانا مظاہری کے لگائے ہوئے اس درخت کو بھی متواتر سنبھال رہے ہیں۔ اس کا پھل مسالک کے مابین مٹھاس بانٹتا ہے تو روحانی صورت میں مولانا مظاہری کے لیے فردوس میں گلزار بناتا چلا جاتا ہے (ان شاء اللہ تعالیٰ)
مولانا کوثر نیازی مرحوم جو پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں میں سے تھے، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دست راست اور وزیر اطلاعات و مذہبی امور تھے۔ ان کا اولین سیاسی سفر بھی جماعت اسلامی سے شروع ہوا تھا۔ مولانا گلزار احمد مظاہری جب میانوالی میں جماعت کے امیر بن کر گئے تو میانوالی کی سنگلاح زمین میں گائوں گائوں‘ بستی بستی جاتے ہوئے کئی بار ان کے جوتے پھٹ جاتے ، پیدل چلتے چلتے جرابیں پھٹ جاتیں اور تلووں پر آبلے پڑ جاتے۔ اسی آبلہ پائی میں انہیں کوثر نیازی جیسا جوان ملا۔ وہ جماعت کارکن بنااور پھر پیپلز پارٹی کو ابھرتے ہوئے دیکھا تو مولانا مودودی اور مولانا مظاہری کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا سیاسی مُرشد بنا لیا۔
مولانا مظاہری کے بیٹے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے اپنے والد گرامی پر کتاب کا عنوان ہی ''زندگانی ، جیل کہانی‘‘ رکھا ہے۔ یعنی مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایوب خان مرحوم کے دور سے ہوتا ہے۔ مولانا مظاہری جیل میں باقاعدگی کے ساتھ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ 29 مئی 1964ء کو لکھتے ہیں ''آج خبر آئی کہ پنڈٹ نہرو مر گیا ہے۔ ابھی دو دن پہلے اس نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: میں ابھی اتنی جلدی نہیں مروں گا، ابھی مجھے کئی سال زندہ رہنا ہے۔ خالق کائنات کو یہ بڑا بول پسند نہ آیااور وہ کئی سال تو کجا کئی دن بھی زندہ نہ رہ سکا‘‘ ۔
قارئین کرام! آپ محمود اچکزئی سے واقف ہوں گے، ان کے والد عبدالصمد اچکزئی تھے۔ وہ بھی جیل میں تھے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری 28 جون 1964ء کو ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی روشنی میں لکھتے ہیں ''خان عبدالصمد اچکزئی عجیب و غریب خیالات کا ملغوبہ ہیں۔ معجزات پر بات ہوئی تو وہ معجزے کی مادی توجیہ کرتے رہے۔ 'پختوستان کیوں؟ اور کیسے؟‘ اس پر آج ان سے خوب مناظرہ ہوا‘‘۔ جی ہاں! مولانا مظاہری جیل میں بھی سنتِ یوسفی ادا کر رہے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ 2 جولائی 1964 کو لکھتے ہیں ''آج مشرق (اخبار) میں پاکستان کا جو نقشہ افغانستان، ایران اور ترکی کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس میں مشرقی پاکستان کا حصہ نہیں دکھایا گیا۔ معلوم نہیں فروگزاشت ہے یا کسی بڑی عالمی سازش کی تمہید‘‘۔ قارئین کرام! ٹھیک ساڑھے سات سال بعد وطن عزیز پاکستان دو ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مولانا مظاہری کے مندرجہ بالا الفاظ کے سوا سال بعد ہم نے 1965ء کی جنگ بھی جیتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری باہمی سیاسی چپقلش نے ہمیں دو ٹکڑے کر دیا۔ آج بھی ہمیں ایسی سیاسی چپقلش سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ 22 کروڑ پاکستانیوں کو پاسبانِ پاکستان بننا ہو گا۔
18 ستمبر 1964 کو مولانا مظاہری رقمطراز ہوتے ہیں: آج کے اخبار میں (روسی صدر) خروشچیف کی دھمکی شائع ہوئی ہے کہ ہمارے پاس دنیا کو آناً فاناً ختم کرنے والے ہتھیار موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے خدائی دعوے کرنے والے خود نیست و نابود ہو جاتے ہیں‘‘۔ جی ہاں! پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے والا خود درجنوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوا اور آج پاکستان کا دوست ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''یہ دن ہیں کہ جن کو ہم انسانوں کے درمیان ادل بدل کرتے رہتے ہیں‘‘ (القرآن)
مولانا گلزار احمد مظاہری 28 جون 1964 کو بیتی رات کے ایک خواب کا تذکرہ کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ''خواب میں دیکھا کہ خیمے لگے ، ایک خیمے میں بہتر غالیچے اور قالین بچھے ہیں۔ والد صاحب (حاجی عبدالمجید پراچہ) بیٹھے ہیں۔ کسی شادی کا اہتمام معلوم ہوتا ہے‘‘۔ قارئین کرام! خواب ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی ریسرچ پر اربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، مگر حقیقت کوئی نہ پا سکا۔ حقیقت وہی ہے جو حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمائی ہے کہ نبوت کا اختتام ہو چکا‘ اس کا صرف چھیالیسواں حصہ باقی ہے اور وہ سچا خواب ہے۔ حضور کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سچا خواب سچے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔ میرے استادِ گرامی سچے تھے۔ صادق و امین تھے۔ سچے دین اسلام کے وارث تھے۔ جیل کی چار دیواری میں ساری کائنات کے سچے رب کریم نے اپنے بندے گلزار کو تسلی دی کہ یہ جیل کی قید بھی ختم ہو گی اور جب دنیا کی قید کا خاتمہ ہو گا تو اے میرے بندے گلزار ! میرے فردوس میں آ کر آزادی ملے گی۔ وہاں خیمے بھی ہوں گے۔ غالیچے اور قالین بھی ہوں گے اور میرے قرآن میں ''سورۃالرحمن‘‘ میں خیموں کا ذکر تو پڑھتے ہی ہو۔ خیموں میں خیموں والیاں بھی ہیں۔ وہ انتظار کر رہی ہیں...دس ستمبر 1986ء کو صبح 8 بجے یہ انتظار ختم ہو گیا۔ حسین پراچہ اپنے بابا گلزار کے پاس تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون کا مطلب یہی ہے کہ اب ہمیں وہاں جانا ہے مگر دنیا کے دکھی گلزار میں اگلے سُکھی گلزار کا انتظار کون کرتا ہے؟