ہفت روزہ نیچر (NATURE) کا آغاز 4 نومبر 1869ء کو ہوا۔ یہ آج تک لندن سے متواتر شائع ہو رہا ہے۔ یہ سائنس کے تمام شعبوں میں ہونے والی ریسرچ اور تحقیق کی اشاعت کرنے والا عالمی سطح کا معروف میگزین ہے۔ ڈیڑھ صدی قبل برطانیہ دنیا کی بڑی سپر پاور تھا۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے سپر پاور بنا تھا۔ آج مذکورہ ایمپائر زوال پذیر ہے مگر نیچر کی اشاعت روز افزوں ہے۔ نیچر کے معنی ہم فطرت، قدرت، جبلت اور طبیعت کر سکتے ہیں۔ مادی وجود کی کھوج لگاتے لگاتے سائنسدانوں نے انسانیت کو ترقی اور سہولت کی راہ پر تو ڈال دیا مگر مادی وجود کی نیچر کے پیچھے کون ہے‘ جو نیچر اور فطرت کو سنبھالے ہوئے ہے؟ اس کا جواب سائنسدانوں نے نہیں دیا۔ جب کہا گیا کہ نیچر کے پیچھے ایک خالق ہے تو سائنسدانوں نے سائنسی دلائل پا کر بھی جھٹلانے کی کوشش کی اور ''نیچر‘‘ کو ہی خالق قرار دینے کی کوشش کی۔ وہ جب بھی کوئی سائنسی انکشاف کرتے ہیں تو نیچر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ فطری قوانین کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ فزکس کے قوانین کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یعنی وہ مادی قوتوں اور ان کے قوانین کا تو شکریہ ادا کریں گے مگر خالقِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک جانب وہ کائنات کے کسی خالق کا انکار کرتے ہیں اور ملحد کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں تو ساتھ ہی قدرتی، مادی قوتوں کا شکریہ ادا کر کے ان کو برتر ہستی بھی قرار دیتے ہیں یعنی انہوں نے اصل خالق کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو خالق مان لیا؛ چنانچہ ایسے لوگ الحاد کا بھی شکار ہیں اور ہماری نظر میں شرک کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے نام نہاد دانشور سائنسدانوں کو کیسے دانشور مانا جائے کہ وہ لوگ جو پتھروں، دھاتوں اور لکڑی کی مورتیاں بنا کر ان کا شکریہ بجا لاتے ہیں وہ تو بت پرست کہلوائیں جبکہ جو لوگ کائنات کی چار مقناطیسی قوتوں کا شکریہ ادا کریں، جاذبی قوت کا شکریہ ادا کریں، فزکس کے قوانین کا شکریہ ادا کریں، ان کو سائنسدان اور دانشور مانا جائے، آخر کیوں؟
الحادی اور شرکیہ سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ کائنات خود بخود بن گئی ہے اور اس میں موجود ہر شئے اپنے آپ کو روز بروز بہتر سے بہتر کر رہی ہے یعنی ہر شئے اپنی خالق آپ ہے۔ اسی طرح کے نظریات اور عقائد ان لوگوں کے تھے جو آج سے ڈیڑھ‘ دو ہزار سال پہلے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا! ''کیا وہ ان چیزوں کو (اللہ تعالیٰ کا) شریک بناتے ہیں جو تخلیق نہیں کرتیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ وہ خود تخلیق (پیدا) کی گئی ہیں‘‘۔ (الاعراف: 191)
''کیا وہ (اللہ) جو پیدا کرتا ہے اس جیسا کیسے ہو سکتا ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ تم لوگ اس قدر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ (النحل: 17)
''کیا وہ کسی شئے کے بغیر ہی پیدا کر دیے گئے ہیں یا وہ اپنے خالق آپ خود ہیں؟‘‘ (الطور: 35)
قارئین کرام! مکہ اور عرب کے بت پرست مشرکین کی جو سوچ تھی اس سوچ کے مطابق قرآن نے انہیں جواب دیا اور حضرت محمد کریمﷺ نے انہیں لا جواب کیا۔ کیا وہی سوچیں آج کے ملحد دانشور وں اور سائنسدانوں کی نہیں ہیں؟ جی ہاں! جب سوچیں ایک جیسی ہیں تو ان سب کے عقائد میں فرق کیا ہے؟ یقین جانیے! تاریخِ انسان کے تمام بت پرست مشرک قدرے ملحد بھی تھے۔ آج کے ملحد بھی قدرے مشرک ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ اپنی قوم سے کہنے لگے: ''اس اللہ سے ڈر جائو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور (تم سے پہلی) مخلوقات کو بھی پیدا کیا‘‘۔ (الشعراء:184) یہاں اللہ تعالیٰ نے ''جبلۃ الاولین‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جبلت سے مراد فطرت اور نیچر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی مخلوق کو بھی اس کی طبعی فطرت اور نیچر پر پیدا کیا تھا۔ وہ نیچر ایک خالق کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔ عرب یوں کہتے ہیں کہ ''اللہ نے اس کی فطرت کو مخلوق کے اندر ایسے کر دیا کہ وہ دکھائی نہیں دیتی اور جبلت اور خلقت ہم معنی ہیں‘‘۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ''فاطر‘‘ بھی ہے اور ''خالق‘‘ بھی ہے کُن کہنے کے بعد جب کائنات وجود میں آئی تو آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ قرآن کی ان کی ملی ہوئی شکل کو ''رثق‘‘(بند) اور جب وہ پھٹ کر الگ الگ ہوئی تو اسے ''قتق‘‘ قرار دیتا ہے اور جس کے حکم سے ''فتق‘‘ یعنی پھٹنے کا عمل ظہور پذیر ہوا‘ وہ فاطر ہے۔اسی طرح دن رات کے لیے اور خصوصاً نباتات کے لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ کی صفت ''خالق‘‘ آئی ہے۔ ''رات کے اندھیرے سے صبح کے اجالے کو پھاڑ کر نکالنے والا‘‘ دانے اور کھجور کی گٹھلی کو پھاڑنے والا(القرآن) پھٹنے اور پھٹ کر نمودار ہونے والا نومولود چوزہ ہو یا ممالیہ جاندار‘ سب پھٹنے کے عمل سے ہی وجود میں آتے ہیں تو یوں اللہ تعالیٰ ایسا ''فاطر‘‘ اور ایسا ''خالق‘‘ ہے کہ اس میں ایک فطری اور نیچری عمل کام کر رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے مکمل ڈیزائن کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں رحمت اور ربوبیت کمال درجے کو پہنچی ہوتی ہے۔ اس سب کے پیچھے یقینا ایک خالق ہوتا ہے۔ جو شخص فطرت اور نیچر پر ہی اٹک جاتا ہے اور اسی کے شکریے پر لگ جاتا ہے، وہ ہزاروں سال پرانا شخص ہو یا آج کا نام نہاد دانشور سائنسدان‘ دونوں اپنی نادانی میں ایک جیسے ہیں۔
قرآن مجید آگاہ فرماتا ہے: ان لوگوں نے کہا کہ زندگی صرف اور صرف دنیا ہی کی ہے۔ اسی میں ہم مرتبے اور زندگی پاتے ہیں اور زمانے کے سوا ہمیں کوئی ہلاک نہیں کرتا (الجاثیۃ: 24) اللہ! اللہ! ثابت ہوا کہ ہمارے حضور نبی کریمﷺ کے دور میں جو مشرک تھے وہ بھی ''الدھر‘‘ یعنی زمانے اور ٹائم کی اہمیت سے آگاہ تھے کہ وہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز ٹائم کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور ٹائم کے بندھن میں ہر شئے کی ناکارگی ایک حقیقت ہے۔ آج کے دور کی سائنس دیکھیں تو اس نے بھی یہی اصول وضع کیا کہ زمان و مکان میں بندھی اس کائنات میں (Entropy) یعنی ناکارگی ایک اصول ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ یعنی جو چیز موجود ہے وہ بوسیدگی کا شکار ہو کر موت سے دو چار ہوگی۔ ثابت ہوا پرانے زمانے کے مشرکوں کی سوچ اور آج کے سائنسدانوں کی سائنسی سوچ اور اپروچ ایک جیسی ہی ہے مگر یہ ایک سطحی سوچ ہے۔ علم کی بات اس سے آگے ہے اور وہ یہ ہے کہ اس فطری اصول اور قانون کے پیچھے ایک خالق ہے‘ جس نے یہ سارا ضابطہ بنایا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کا اختتام یوں کیا کہ'' ان لوگوں کو اس حقیقت کا کچھ بھی علم نہیں‘ یہ لوگ (علم کے نام پر) واہمی اندازے لگاتے ہیں۔ (الجاثیہ: 24)
قارئین کرام! حقیقت تو وہی ہے کہ جس کا تذکرہ ہم گزشتہ دو کالموں میں بھی کر چکے ہیں اور اس سلسلے کا یہ تیسرا اور آخری کالم ہے کہ Plos-one کا جو سائنسی میگزین اور پانچ رسالوں میں ون یعنی اولین اہمیت کا حامل ہے‘ اس کے مخفف کا مطلب ''پبلک لائبریری آف سائنس‘‘ ہے۔ اس لائبریری پہ ہم اپنے تین کالمز بھی شائع کر چکے ہیں کہ جب آپ نے تسلیم کیا کہ انسانی ہاتھ پر جو ریسرچ کی گئی ہے‘ اس سے یہ سائنسی ثبوت سامنے آیا کہ انسانی ہاتھ کی تخلیق کے پیچھے ایک خالق (اللہ) کے ہاتھ کی ہنر مندی اور تدبیر کا جو ثبوت ہے وہ حتمی اور واضح ہے۔ جی ہاں! پھر واضح سائنسی ثبوت اور دلیل کے بعد آپ لوگ وہمی انداز سے کیوں لگانے لگ گئے۔ خالق (اللہ) کے کردار کو اپنے سائنسی رسالے سے کھر چنے پر کیوں تل گئے کہ
We will change the creator to nature in the revised manuscript.
(ہم نظرثانی شدہ مسودے سے خالق کے لفظ کو ہٹا کر نیچر کے لفظ کو لے آئیں گے)۔
آپ لوگوں نے واضح لکھ دیا کہ خالق کے لفظ کی جگہ تبدیلی کریں گے اور یہ چینج نیچر سے کریں گے۔ اللہ کا شکر ادا نہیں کریں گے کہ جس نے ہمیں انتہائی کرشماتی ہاتھ عطا فرمایا بلکہ فطرت کا شکریہ ادا کریں گے۔ معبود بنائیں گے تو نیچر کو بنائیں گے۔ حقیقی خالق کو معبود نہیں مانیں گے۔ پھر آپ لوگوں نے ایک غیر سائنسی اصول بھی بنا دیا کہ:
The goal of science is to develop a natural explanation for the natural world without reliance on supernatural force.
(سائنس کا ٹارگٹ اور مقصد یہ ہے کہ فطری دنیا کی وضاحت ایک فطری ڈویلپمنٹ سے ہی کی جائے جس میں نیچر سے ماورا کسی سپر فورس (اللہ کی طاقت) کی بات نہ ہو)
قارئین ! ہم پوچھتے ہیں کہ سائنس کا معنی تو علم ہے تو کیا یہ علم ہے کہ ایک مقصد خود طے کر کے یہ اصول بنا دیا جائے کہ وہ سائنس سے باہر ہے؟ اللہ کی قسم! یہ سراسر غیر سائنسی، غیر علمی اصول ہے جو صرف اور صرف واہمہ اور اٹکل پچو کے سوا کچھ نہیں جبکہ علمی اور سائنسی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نیچر کا خالق ہے۔ نیچر تک اٹک جانا اور نیچر کے سامنے سجدہ ریزی اور تشکر و سپاس الحاد اور شرک ہے جبکہ آگے بڑھ کر نیچر کے خالق کے سامنے سجدہ ریزی اور تشکر و سپاس اصل توحید ہے اور یہی حضرت محمد کریمﷺ کا پیغام ہے۔ لاکھوں درود و سلام حضرت محمد کریمﷺ پر۔