اللہ تعالیٰ حضرت امام مسلم رحمہ اللہ کے درجات بلند سے بلند فرمائے۔ امام مسلم کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے اپنی کنیت ابوالحسین رکھی تھی۔ وہ اپنی ''صحیح مسلم‘‘ میں ''کتاب الفضائل‘‘ کے عنوان سے ایک باب لائے تواس میں سب سے پہلے حدیث شریف ''بنو ہاشم‘‘ کی فضیلت پر لائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ''کنانہ قبیلے‘‘ کا انتخاب فرمایا اس کے بعد کنانہ کے قبائل میں سے ''قریش‘‘ قبیلے کا انتخاب کیا۔ پھر قریش کے قبیلوں میں سے ''بنو ہاشم‘‘ کا انتخاب کیا۔ اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا‘‘۔ (مسلم: 2276) قارئین کرام! حضرت ہاشم ہمارے حضور کریمﷺ کے پڑدادا تھے۔ وہ مکہ کے سردار تھے۔ کعبہ شریف کے والی یعنی متولی تھے۔ سارے عرب میں ہی نہیں‘ عرب سے باہر کی دنیا میں بھی محترم تھے۔ تاریخ طبری اور امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب ''البدایہ والنھایہ‘‘ میں درج ہے کہ عربوں میں تجارت کے لیے سردی اور گرمی کے دو تجارتی سفروں کا تجارتی نظام انہوں نے ہی رائج کیا تھا؛ چنانچہ سردیوں میں مکہ کے تجارتی قافلے یمن اور حبشہ کی طرف جاتے اور گرمیوں میں شام اور مصر کی جانب جاتے۔ حضرت ہاشم نے یمن اور حبشہ کے بادشاہوں سے ملاقات کرکے تجارتی تعلقات بنائے تو شام میں اس دور کی رومی سپر پاور کے بادشاہ قیصر اور اس کے ماتحت مقامی شامی گورنروں سے ملاقات کرکے تجارتی تعلقات مضبوط کیے۔ جناب ہاشم کو ''صاحبِ ایلاف‘‘ بھی کہاجاتا ہے اس لیے کہ وہ تجارتی نظام کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے بہت فیاض تھے۔ روٹیوں کا چُورا کرکے گوشت کے شوربے میں بھگو کر حاجیوں کو کھلاتے تھے‘ مکہ کے لوگوں کو کھلاتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کا نام ہاشم پڑ گیا تھا۔ ''سبل الھدیٰ والرشاد‘‘ میں درج ہے: زم زم کا کنواں صدیوں سے بند تھا؛ چنانچہ وہ چمڑے کے مشکیزوں کو پانی سے بھروا کر مکہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں رکھوا دیتے۔ پانی کے ساتھ ہر جگہ گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹیاں یعنی ''ثرید‘‘ وافر مقدار میں ملتا۔ ساتھ ساتھ جو کے ستو اور کھجوروں سے ضیافت کا بھی اہتمام ہوتا،یعنی حج کے مواقع پر حاجیوں کی ضیافت کا خوب اہتمام ہوتا تھا اور یہ اہتمام حضور کریمﷺ کے پڑدادا حضرت ہاشم کی قیادت میں ہوتا تھا۔
''البدایہ والنھایہ‘‘ میں درج ہے کہ حضرت ہاشم اپنے ایک تجارتی سفر میں شام گئے‘ جب وہاں سے واپس آرہے تھے تو کثیر تعداد میں اونٹ لدے ہوئے تھے۔ گندم کا آٹا، زیتون کا روغن اور دیگر طرح طرح کا کھانے کا سامان تھا۔ دیگر کئی اشیا بھی تھیں۔ انہیں معلوم ہوا کہ مکہ اور اس کے اطراف میں قحط پڑ چکا ہے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچے تو اپنے اونٹ روزانہ کی بنیاد پر ذبح کرنے لگے۔ ان کے گوشت کے شوربے میں روٹیاں چورا کرکے ملاتے اور زیتون شامل کرتے۔ یہ دستر خوان چلتا رہا جب تک کہ قحط کا زمانہ ختم نہ ہوگیا۔ اصحابِ خیر نے بھی اس میں حصہ ڈالا مگر ہمارے حضورﷺ جو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لانے والے تھے‘ ان کے پڑدادا حضرت ہاشم نے اپنا سارا تجارتی قافلہ ضرورت مندوں کے لیے وقف کردیا۔ ''سبل الھدیٰ والرشاد‘‘ کے مطابق: حضرت ہاشم کی انہی خوبیوں کی وجہ سے انہیں ''العلا‘‘ کہا جاتا تھا؛ یعنی انسانی خدمت کے اعتبار سے وہ انتہائی بلند اور ارفع کردار کے مالک تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جناب ہاشم کے بارے میں بتاتے ہیں کہ قریش میں سے کسی کا مال تباہ ہوجاتا‘ وہ آفت زدہ یا دیوالیہ ہوجاتا تو کسی ویرانی میں خیمہ لگا لیتا تاکہ دوسرے لوگ اس کی محتاجی سے آگاہ نہ ہوں۔ حضرت ہاشم کو اپنی خوددار قوم کی اس صفت کا پتا چلا تو انہوں نے سرداروں کی ایک مجلس بلائی اور یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا۔ سردارانِ مکہ نے کہا کہ آپ جو حکم کریں گے‘ ہم تسلیم کریں گے۔ اس پر حضرت ہاشم نے فرمایا کہ ہم ایسے آفت زدہ لوگوں کو اپنے مال اور تجارت میں شریک کریں گے تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں۔ سب نے اس پر اتفاق کیا۔ جی ہاں! یہ ہیں ہمارے حضورﷺ کے پڑدادا محترم کہ جن کے نام سے اللہ تعالیٰ نے ایک قبیلہ چنا۔ وہ بنو ہاشم بنا۔ا یسا اس لیے ہوا کہ اس قبیلے سے ساری انسانی تاریخ کی سب سے بڑی پُر رحمت اور سخی ہستی حضرت محمد کریمﷺ نے تشریف لانا تھا۔ لوگو! جب تجارت انسانیت کی خدمت کے لیے ہو‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی شامل ہو تو وہ تجارت اللہ تعالیٰ کی محبوب بن جاتی ہے؛ چنانچہ جب حضرت ہاشم کے پڑپوتے حضرت محمد کریمﷺ تاجدارِ ختمِ نبوت کے منصب پر فائز ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ قریش نازل فرمائی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''قریش کے اندر ایلاف پیدا کرنے کے لیے کہ ان کا ایلاف سردی اور گرمی (تجارتی سفر) ہے۔ (میرے محبوب کے آجانے پر) ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ یہ (قریش) اس گھر (کعبہ) کے رب کی عبادت کریں۔ وہ رب کہ جس نے انہیں بھوک میں کھاناکھلایا اور انہیں ڈر سے امن عطا فرمایا‘‘۔
قارئین کرام! ''طبقات ابن سعد‘‘ میں ہے کہ حضرت ہاشم کو قیصر کے دربار میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ انہیں تحائف سے نوازا جاتا تھا۔ ''ایلاف‘‘ کا معنی الفت و محبت اور انسیت و مانوسیت بھی ہے۔''صاحبِ ایلاف‘‘ حضرت ہاشم نے تجارت میں اپنے اعلیٰ کردار کی وجہ سے عرب کے سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے دلوں میں انسیت و الفت کے جذبات پیدا کر دیے تھے۔ اس رویے کا رزلٹ تجارت کی ترقی کی صورت میں سامنے آیا۔ خوف کے بجائے امن کی صورت میں سامنے آیا۔ حضرت ہاشم نے اپنی تجارت و ثروت کو قحط زدہ انسانیت کے لیے وقف کرکے ایلافی کردار ادا کیا۔ یہ کردار اس لیے تھا کہ ان کی رعایا کا ہر فرد کھانا کھا کر اپنا پیٹ بھرے اور اپنا منہ نرم اور گداز تکیے کے حوالے کرکے سکون کی نیند سوجائے۔
لوگو! 2022ء میں پاکستان سخت سیلاب کا شکار ہے۔ وطن عزیز کا بیشتر رقبہ زیرِ آب آ گیا ہے۔ اس سیلاب میں جہاں ابتلا اور آزمائش کے حادثات اور واقعات خون کے آنسو رلاتے ہیں، وہیں دلیری، جانبازی اور قربانی کی داستانیں بھی رقم ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں پاکستانی تاجروں نے حسبِ معمول ایک تاریخ رقم کردی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے‘ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سیلاب سے متاثرین جب تک پوری طرح بحال نہیں ہوجاتے‘ ہمیں اپنے حضور نبی کریمﷺ کے جد امجد حضرت ہاشم کی طرح اپنی تجوریوں کے مونہوں کو متواتر کھلا رکھنا چاہیے۔ ان تجوریوں کے مونہوں سے جس قدر مال نکلے گا اس سے زیادہ اس میں رب العالمین ڈالتے جائیں گے۔ حضور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: مولا کریم آگاہ فرماتے ہیں ''اے آدم کے بیٹے! تو خرچ کرنے والا بن‘ تجھ پر خرچ کیاجائے گا‘‘۔ (بخاری: 5352)
پاک فوج ایک منظم اور قابلِ فخر ریاستی ادارہ ہے۔ سیلاب زدگان کے لیے سب سے پہلے قربانی انہوں نے اپنے کور کمانڈر جنرل سرفراز علی اور ان کے پانچ ساتھیوں کی شہادت کی صورت میں دی۔ سیلاب کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے افراد کو جن دلاوروں نے چھلانگیں لگا کر ان کی زندگیوں کو بچایا‘ ان سب کو پوری قوم کا سلام ہو۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب پورے ملک میں جگہ جگہ سیلاب زدگان کے پاس جا رہے ہیں۔ حکومتی مشینری کو حرکت میں لا رہے ہیں۔ یہ قابلِ تحسین ہے مگر وہ جماعتیں، تنظیمیں اور افراد بھی قابلِ قدر اور ان کا کردار قابلِ تحسین ہے کہ جو پہلے دن سے خدمت کے میدانوں میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے حافظ عبدالرئوف کا تحریکی کردار نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق صاحب کی جماعت اس میدان میں ایک نام رکھتی ہے۔ یہ نام موجودہ سیلاب میں مزید نمایاں ہوکر ابھرا ہے۔ دیگر مذہبی، رفاہی، سیاسی جماعتیں اور چھوٹے چھوٹے انفرادی گروپ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ یو این، ترکیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ، چین اور دنیا بھر سے امداد آنا شروع ہوگئی ہے۔ ساری دنیا حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے۔ اولادِ آدم کی باہمی خیر خواہی سے ہی دنیا باقی رہے گی۔ ان شاء اللہ۔ قوم کا وہ حصہ جو اس سیلاب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہا ہے‘ خدمت میں مصروف ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کردار ہمیں ایک مضبوط اور سیسہ پلائی دیوار جیسی پاکستانی قوم بنادے۔
حضرت ہاشم اپنے آخری تجارتی سفر میں شام گئے تو وہاں بیمار ہوکر فوت ہوگئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سلمیٰ ہمراہ تھیں۔ حضرت ہاشم کی قبر فلسطین کے شہر غزہ میں بنی۔ یہ قبر آج بھی موجود ہے۔ اس قبر کے ساتھ مسجد بنی ہاشم ہے۔ حضرت سلمیٰ یثرب کے خزرجی سردار عمرو بن زید کی بیٹی تھیں۔ یہ واپس یثرب آکر رہنے لگ گئیں۔ عبدالمطلب یہیں یثرب میں پیدا ہوئے اور سات سال تک یہیں رہے۔ چنانچہ مطلب‘ جو حضرت ہاشم کے بھائی تھے‘ وہ مکہ سے یثرب آئے اور اپنے بھتیجے عبدالمطلب کو لے کر مکہ چلے گئے یعنی ہمارے حضورﷺ کے دادا جان عبدالمطلب بھی یتیم تھے۔ حضورکریمﷺ خود بھی درِیتیم تھے۔ جی ہاں! جو لوگ انسانیت کی خدمت کرتے رہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے یتیم بچوں کو بھی سرداریاں اور عزتیں عطا فرماتے ہیں۔ آیئے ! ہم بھی سیلاب میں یتیم اور بے آسرا بچوں کی کفالت کا کردار ادا کریں۔