اللہ تعالیٰ کے اس بندے کا نام صالح الحصینی ہے۔ ان کے ٹی وی چینل کا نام 'شکبۃ المجد‘ ہے؛ یعنی ایسا چینل جس میں انسانی شرف اور عزت و آبرو کو بلندیوں سے ہمکنار کرنا مقصود ہے۔ جناب صالح الحصینی سعودی شہری ہیں۔ وہ مذکورہ چینل میں جس پروگرام کے میزبان ہیں‘ اس کا نام 'الاجاوید‘ رکھا گیا ہے۔ اس کا معنی جودوکرم ہے۔ معاشرے میں صرف مالی نہیں بلکہ اخلاقی سخاوت کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ ان کے سیٹ کو انتہائی خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ ایسا جاذبِ نظر کہ جس میں سعودی عرب کے معاشرے کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ موضوع اصلاحِ معاشرہ ہوتا ہے اور عنوان کے مطابق خواتین، علماء کرام اور نفسیاتی ماہرین کو بھی پروگرام کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جہاں تک مالی سخاوت کی بات ہے تو سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ حالیہ سیلاب میں پاکستان کا نقصان 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اسلام آبادمیں سعودی سفیر جناب نواف المالکی نے مکمل رپورٹ اپنی حکومت کو ارسال کی تو ''کنگ سلیمان ہیومنیٹیرین اینڈ ریلیف سنٹر‘‘ متحرک ہوگیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خصوصی حکم جاری کیا اور جو مدد کی جانی تھی اسے ''جسر الجوی‘‘ کا نام دیا گیا یعنی سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فضائی پل قائم کردیا گیا۔
جناب صالح الحصینی کا چینل آگاہ کر رہا تھا کہ سعودی طیاروں کے ذریعے موسم کے مطابق کپڑے، مچھر دانیاں، کمبل، خیمے، غذائی ضروریات‘ جیسے کھجوریں، خوردنی تیل اور اناج وغیرہ‘ پاکستان بھیجا گیا ہے مگر متاثرین کے اعتبار سے یہ سامان بہت کم ہے۔ یہ پل کب تک جاری رہتا ہے‘ اس کا انحصار ہمارے اپنے کردار پر ہے۔ جب 2005ء کا زلزلہ آیا تھا تب بھی پاکستان کی مدد سعودی عرب نے بھر پور انداز سے کی تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد میری ملاقات ایک سعودی سفارتکار سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنی ایک تقریب میں مدعو کیا تھا۔ اس تقریب میں محترم جنرل (ر) حمید گل مرحوم کے ہمراہ میں شریک ہوا تھا۔ سعودی سفارتکار سے بات ہوئی تو دورانِ گفتگو انہوں نے انتہائی رکھ رکھائو کے ساتھ مجھے باور کرایا کہ اگر متاثرین تک شفاف انداز سے مدد پہنچ جائے تو ہم اس امداد کو زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ جی ہاں! مسئلہ ہمارے دیانتدارانہ کردار کا ہے۔ سعودی عرب کے چینل اور اس کے پروگرام کا شکریہ کہ جود و کرم کے اظہار کا مطالبہ سعودی ملت سے ہو رہا تھا کہ وہ اپنے پاکستانی متاثرین بھائی بہنوں کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔ سعودی عوام نے اس اپیل پر خوب چندہ دیا ہے۔
قارئین کرام! سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی قوم کو ایک دس سالہ منصوبہ دیا ہے جس کے تحت سعودی معیشت کو ایسی صنعتی معیشت میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے دنیا کا یہ امیر ترین ملک مزید امیر بن جائے گا۔ اس کے لیے خواتین کے لیے نہ صرف مختلف شعبوں میں ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے ہیں بلکہ ان کو کافی آزادیاں بھی دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ چینل نے انسانی شرف اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے آگاہی پروگرام بھی شروع کیا تاکہ نوخیز نسل ان لوگوں کے واقعات سے عبرت پکڑے جو بے راہ روی کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔پیغام یہ تھا کہ معاشی ترقی اپنی جگہ مگر روایات کا انہدام معاشرتی تباہی کا پیام ہے۔
قارئین کرام! ایک پروگرام میں نے دیکھا جو سعودی عرب کے معروف سکالر عبداللہ المھیدب کے ہمراہ تھا۔ صالح الحصینی ایک ایسی خاتون کا واقعہ بتا رہے تھے کہ جس کی عمر کوئی 35 سال تھی۔ وہ چار بچوں کی ماں تھی۔ خاوند محبت کرنے والا اور مالی لحاظ سے مضبوط تھا۔ گھر جنت کا ایک نمونہ تھا۔ خاتون نے ملازمت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو شوہر نے کہا: ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ خاتون کا اصرار بڑھا تو شوہر نے اجازت دے دی۔ خاتون ایک ادارے میں ملازمت کرنے لگ گئی۔ اسی ادارے میں ایک دھوکے باز عورت بھی کام کرتی تھی جو دوستیاں کر کے فراڈ کرتی اور زندگیاں تباہ کرتی تھی۔ دھوکے باز لڑکی نے ایک دن اس خاتون سے کہا کہ ہمیں زندگی سے کچھ لطف اٹھانا چاہیے اور گھومنا پھرنا بھی چاہیے۔ اس خاتون نے اپنے خاوند اور بچوں کی مجبوری کا ذکرکیا مگر اُس دھوکے باز لڑکی نے آخر کار خاتون کو ایک روز اس کام کے لیے راضی کر لیا۔ وہ خاتون کو ایک محفل میں لے گئی۔ پھر یہ ایک معمول بنتا چلا گیا اور اس خاتون کو آہستہ آہستہ اس کی عادت سی پڑ گئی۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند سے اس کی ناچاقی شروع ہو گئی۔ اب گھریلو ناچاقی کا تذکرہ دھوکے باز لڑکی سے ہونا شروع ہوا تو اس دھوکے باز لڑکی نے کہا: میں تمہاری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے کراتی ہوں جو بزنس مین ہے‘ پیسے والا ہے، آزادی پسند ہے‘ خوب صورت بھی ہے۔
پھر جب دونوں کی دوچار ملاقاتیں ہوئیں تو شادی کا عہد ہوگیا۔ اب خاتون نے قصد کرکے ہر روز اپنے خاوند سے لڑائی شروع کردی تاکہ اس سے جان چھوٹ جائے۔ روزانہ کی لڑائی سے خاوند تنگ آگیا اور آخر کار بیوی کے مطالبے پر اس نے ایک روز اسے طلاق دے دی۔ خاتون کو نہ شوہر کی پروا تھی نہ بچوں کی۔ اس نے طلاق کے بعد اپنے بچوں کو بھی چھوڑ دیا اور حسبِ پروگرام اپنے نئے دوست سے شادی کرلی۔ دونوں گھومنے پھرنے کے لیے ترکی چلے گئے او رپھر یورپ کے ملکوں میں اور سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں چھٹیاں منانے لگے۔ چند ماہ اسی طرح گزر گئے۔پھر ایک دن نئے خاوند نے دفتر سے اس خاتون کو فون کیا اور کہا کہ ایک فلاں بزنس میں 50 ہزار ریال لگا دیے جائیں تو چند ہی دنوں میں اچھا منافع مل سکتا ہے۔ بیوی نے مطلوبہ رقم خاوند کو دے دی۔ چند ہفتوں کے بعد خاوند نے اپنی بیوی کو ایک لاکھ دیتے ہوئے 50 ہزار پر 50 ہزار ریال کے نفع کی خوشخبری دی۔ وہ خاتون بہت خوش ہوئی۔ کچھ وقت اور گزرا تو اس نے ایک لاکھ ریال مانگے۔ او رپھر چند ہفتوں کے بعد اپنی بیوی کو دو لاکھ ریال دے دیے یعنی ڈبل منافع۔ تیسری بار بھی ایسا ہی کیا۔ یوں بیوی کا اعتماد پختہ سے پختہ تر اور پختہ ترسے پختہ ترین ہوگیا۔ دھوکے باز خاوند اب آخری چوٹ لگانے کے لیے تیار ہوچکا تھا۔ اب جو آخری رقم وہ مانگنے چلا تھا‘ یہ بھی فون پر طلب کی گئی مگر جو رقم مانگی گئی‘ وہ تھی دس لاکھ ریال۔ بیوی نے کہا: پانچ لاکھ ریال تو میرے پاس موجود ہیں‘ باقی پانچ لاکھ ریال کہاں سے لوں؟ وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے، ساتھ ہی اسے یہ بھی یقین تھا کہ یہ دس لاکھ ریال‘ چند ہی ہفتوں میں اٹھارہ‘ بیس لاکھ ریالوں کی صورت واپس میری جھولی میں ہوں گے۔ اس خاتون کو مگر کیا خبر کہ ہرجانب سے جھولی خالی ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس نے اپنی بہنوں سے پانچ لاکھ ریال اکٹھے کیے اور اپنے پانچ لاکھ ریال اس میں شامل کر کے دس لاکھ ریال اپنے خاوند کے حوالے کر دیے۔ اب ادلے کے بدلے کا ٹائم آچکا تھا۔ ' جیسا کروگے ویسا بھرو گے‘ کا وقت آچکا تھا۔ جس طرح اس خاتون نے اپنے پہلے خاوند سے جان چھڑانے کے لیے بدمزگی اور ناچاقی کا آغاز کیا تھا۔ اب وہی کام دوسرا شوہر اس کے ساتھ کرنے لگ گیا تھا۔ نئے خاوند کا مقصد ہی اس خاتون کی دولت تھی۔ خاتون تو آگے چلنا چاہتی تھی مگر خاوند اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔ اب وہ آگے نہیں جانا چاہتا تھا۔ لامحالہ وہ نئے شکار کی تلاش میں نکلنا چاہتا تھا۔ ناچاقی بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ بالآخر نئے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔ قانونی طور پر اب وہ عورت کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔ نکاح اور طلاق‘ دونوں قانون کے مطابق ہوئے تھے مگر دس لاکھ ریال قانون کی نظروں سے غائب تھے۔ عورت لٹ چکی تھی۔ پہلا گھر بھی گیا۔ خاوند بھی گیا۔ چاروں بچے بھی گئے۔ معاشرے میں عزت بھی گئی۔ نیا فراڈیا خاوند بھی گیا اور مقروض بھی ہوگئی ۔اب وہ پوری طرح بے بس تھی۔ واپس پلٹی۔ پہلے خاوند سے فون پر رابطہ کیا اور رو رو کر اس سے معافیاں مانگیں۔ وہ واپسی کا راستہ مانگ رہی تھی مگر خاوند نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں نئی شادی کر چکا ہوں۔ میری بیوی نے تمہارے چھوڑے ہوئے بچوں کو مامتا کا پیار دیا ہے۔ اب میں اس کے ساتھ ظلم نہیں کر سکتا۔ اب تو بچے بھی تمہیں اپنانے سے انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ہمیں چھوڑ گئی‘ اب وہ ہماری ماں نہیں‘ ہم اس کے ساتھ زندگی بھر نہیں رہیں گے لہٰذا اب تمہارے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تمہاری چھوڑی ہوئی خالی جگہ پُر ہوچکی ہے۔ نہ تو میرے دل میں کوئی ایسا خانہ ہے کہ جہاں تمہارے لیے معمولی سے بھی گنجائش ہو‘ نہ ہی میرے بچوں کے دلوں میں تمہارے لیے کوئی گنجائش باقی ہے۔ فون بند ہوچکا تھا۔ خاتون کی سسکیاں مگر جاری تھیں۔
قارئین کرام! صالح الحصینی یہ واقعہ اپنے پروگرام میں بیان کر رہے تھے۔ جی ہاں! لوگو! سیلابوں میں ٹوٹے پل تو بن جاتے ہیں مگر دلوں کے اعتماد کے جو پل ٹوٹ جائیں‘ وہ دوبارہ تعمیر نہیں ہوتے۔ اے مولا کریم! کسی میاں بیوی کے درمیان کوئی شیطان پل توڑ نہ سکے۔ اور میرے دیس کو حکمران ایسا عطا فرما جس کی دیانت وامانت کا پل بھی ٹوٹ نہ سکے، آمین!