حضرت علیؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی حدیث شریف ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ حضور کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ فرمایا: ''منصوبوں کو ظاہر نہ کرنے کے عمل سے مدد حاصل کر کے منزلِ مراد پر پہنچاؤ کیونکہ ہر وہ شخص جسے کوئی نعمت (اللہ کی طرف سے) ملتی ہے‘ اس کے ساتھ حسد بھی کیا جاتا ہے‘‘ (سلسلہ احادیث صحیحہ للالبانی:1453)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو پیغمبری کے ساتھ ساتھ خوبصورتی اور حسن بھی عطا فرمایا اور ذہانت بھی عطا فرمائی۔ چھوٹا ہونا بھی ایک سبب تھا کہ سب بھائی‘ سوائے بنیا مین کے‘ بڑے تھے۔ ماں کا الگ ہونا بھی ایک وجہ تھی؛ چنانچہ ننھے منھے یوسف اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل میں بستے تھے۔ باپ کو فطری محبت سب سے بڑھ کر اپنے یوسف بیٹے سے تھی۔ یہ سب نعمتیں تھیں جو بھائیوں کے حسد کا باعث بن گئیں۔ حسد اس قدر بڑھ گیا کہ بھائیوں نے اپنے معصوم سے‘ چھوٹے بھائی کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام بنا لیا۔ جنگل میں جب وہ انہیں قتل کرنے لگے تو ایک بھائی کو رحم آ گیا۔ مگر یہ رحم بس اسی قدر تھا کہ ہاتھوں سے قتل کرنے کے بجائے کنویں میں پھینک دیا کہ بھوک پیاس کی شدت سے خود ہی اگلے جہان پہنچ جائے۔ حاسدین کا ایک پروگرام تھا مگر اللہ تعالیٰ کا اپنا منصوبہ تھا۔ ایک قافلہ قریب سے گزر رہا تھا۔ انہوں نے پانی کے لیے ایک بندہ بھیجا تو وہاں یوسف علیہ السلام کو دیکھا۔ اہلِ قافلہ نے انہیں کنویں سے نکال لیا اور مصر میں جا کر غلاموں کی منڈی میں فروخت کر دیا۔ مصر کا وزیراعظم ان کا خریدار تھا۔ یوں جناب یوسف علیہ السلام‘ جو لڑکپن کی شعوری عمر میں تھے‘ اقتدار کے محل میں پرورش پانے لگے۔ دن کچھ اس طرح پلٹا کھا گئے کہ پہلے حضرت یوسف علیہ السلام جیل گئے اور پھر خود مصر کے وزیر خزانہ بن گئے۔ اس وقت پورے خطے میں قحط پڑا ہوا تھا، صرف مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کی کامیاب حکمتِ عملی کے سبب غلہ موجود تھا۔ ایک دن ان کے حاسد بھائی غلّے کے حصول کے لیے مصر میں ان کے سامنے کھڑے تھے۔ بڑے لوگوں کی باتیں ہی نہیں‘ کردار بھی بڑا ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ انہیں کنعان (موجودہ فلسطین و اردن) کے قحط زدہ علاقے سے بلوا کر مصر میں آباد کر دیا۔
تین چار سو سال بعدحضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ایک قوم بن چکی تھی۔ ان کی تعداد تیس لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا لقب اسرائیل (اللہ کا بندہ) تھا۔ اس لحاظ سے ان کی اولاد‘ جو اب ایک قوم بن چکی تھی‘ کا نام ''بنو اسرائیل‘‘ معروف ہوا۔ بدلے حالات میں یہ قوم مصر میں غلام بن چکی تھی۔ مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا۔ فرعون جادوگروں کے مشورے سے حکمرانی کرتا تھا۔ ملک بھر میں جادوگروں کی شہرت کا راج تھا۔ بنو اسرائیل کی قوم‘ جو ایک مسلم اور توحید پرست قوم تھی‘ دین کی دعوت کی اپنی ذمہ داری کو بھول کر بے دینی اور جادوگری کی لعنت کا شکار ہو گئی تھی۔ وہ صرف نام کی مسلم رہ گئی تھی۔ جو اپنے دین یعنی دینِ ابراہیمی پر قائم تھے‘ وہ تھوڑے لوگ تھے۔ جیسے بھی تھے‘ بہرحال وہ مسلمان تھے اور مظلوم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں راہِ راست پر لانے کے لیے اورمظلومیت کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس قوم میں پیدا فرمایا اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ان کی مدد کے لیے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبی بنا دیا۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزات کا مطالبہ کیا تو آپ نے اپنی لاٹھی پھینکی اور وہ ایک بڑا سانپ بن گئی۔ اپنا ہاتھ سامنے کیا تو ہتھیلی چاند کی طرح روشن ہو گئی۔ دونوں معجزات اس بات کی علامت تھی کہ یہ جادو نہیں معجزے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شیطان سانپ کی شکل اختیار کرتا ہے‘ خواب میں شیطان سانپ ہی کی شکل میں اولادِ آدم کو ڈراتا اور خوفزدہ کرتاہے۔ جادو کے پیچھے بھی شیطان ہی ہوتا ہے اور سارے مصر میں اسی شیطنت کا راج تھا مگر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سے بننے والا سانپ تھا‘ وہ حقیقی سانپ تھا‘ معجزاتی سانپ تھا۔ یہ علامت تھا کہ یہ حقیقی سانپ شیطانی سانپوں کی شیطنت کو ختم کر دے گا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے تورات کا نور دنیا بھر پہ چھا جائے گا۔ اندھیرا ختم ہو گا اور روشنی کا راج ہوگا۔ اب دو تہذیبوں کا ٹکراؤ تھا۔ ایک جانب موسوی تہذیب تھی جس کا تعلق کائنات کے رب کریم سے تھا۔ دوسری جانب فرعونی تہذیب تھی جس کا تعلق ابلیس کے ساتھ تھا۔ بدقسمت انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ جس شیطانی تہذیب میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں‘ اسے برا بھی سمجھتے ہیں اور حق کی راہ تلا ش بھی نہیں کرتے۔ فرعون جو جادو کی تہذیب کا سرغنہ تھا‘ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ کر انہیں جادوگری قرار دینے لگ گیا۔ دونوں بھائیوں‘ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو جادوگر قرار دیا گیا اور ساتھ ہی یہ الزام لگایا کہ یہ جادو کی مدد سے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم جادو ہی کی مدد سے ان کا مقابلہ کریں گے۔
جادوگروں اور دونوں پیغمبر بھائیوں کے درمیان ایک کھلے میدان میں مقابلہ ہوا۔ فرعون اور حکومتی زعما موجود تھے۔ لاکھوں لوگ موجود تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کی پھینکی ہوئی رسیوں کو‘ جو لوگوں کی نظروں میں سانپ کی شکل اختیار کر گئی تھیں‘ نگل لیا۔ جادوگر سمجھ گئے کہ یہ دونوں بھائی جادوگر نہیں‘ واقعتاً اللہ کے سچے پیغمبر ہیں‘ لہٰذا وہ اسی وقت مسلمان ہو گئے، مگر فرعون نے اس موقع پر بھی حقیقت کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ دونوں بھائی ان جادوگروں کے بھی استاد ہیں اور یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
فرعون کی سرکشی بڑھتی جا رہی تھی‘ آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنو اسرائیل کو لے کر جادوگر فرعونی قوم اور ان کے ملک سے نکل گئے۔ 30لاکھ لوگ بحرِ احمر کو عبور کر کے اب وادیٔ سینا میں تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے‘ بنو اسرائیل کے بھی بارہ ہی قبیلے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات یہ دیکھ چکے تھے۔ سمندر میں بنتا ہوا راستہ بھی دیکھ چکے تھے۔ لاٹھی پتھر پر لگی تو بارہ چشموں کو پھوٹتا اور روزانہ وہاں سے پانی بھرتا بھی دیکھ چکے تھے۔ مَن اور سلویٰ کی خوراک آسمان سے نازل ہو رہی تھی‘ وہ بھی کھا رہے تھے۔ اس سب کے باوجود ان کے دلوں سے گائے کی محبت نہ جا سکی۔ فرعون کی جادوئی تہذیب میں گائے اور بچھڑے کی پوجا ہوتی تھی۔ جادو اور بچھڑے کی پوجا لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر کوہِ طور پر جا رہے تھے۔ لاکھوں لوگوں کے چلنے کی رفتار آہستہ تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون کو ان کا نگران بنایا کہ تم چلتے ہوئے میرے پاس آ جانا اور خود پہلے ہی کوہِ طور پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا کہ پیچھے تمہاری قوم کو سامری نے گمراہ کر دیا ہے۔
سامری دراصل ایک جادوگر تھا‘ اس نے اپنی قوم کا زیور اکٹھا کیا اور اسے پگھلا کر ایک بچھڑا بنا لیا۔ اس کے منہ سے ایک آواز بھی نکلتی تھی۔ یہ آواز سنا کر سامری کہنے لگا: اے بنی اسرائیل! یہ ہے تمہارا خدا۔ موسیٰ تو بھولا پھرتا ہے (معاذ اللہ)۔ حضرت ہارون علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود قوم کی اکثریت جادوگر سامری کی بات مان کر بچھڑے کی پوجا کرنے لگ گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس دوڑے اور بھائی کو داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا کہ تمہاری موجودگی میں قوم شیطانی جادو کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئی۔ انہوں نے عرض کی: بھائی جان! میں انہیں روکتا رہ گیا مگر انہوں نے میری ایک نہیں سُنی۔
قارئین کرام! حضرت موسیٰ کے چالیس سالہ دور کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی نبوت اور حکمرانی کا دور آیا۔ اسی دوران القدس فتح ہوا اور پھر ایک وقت کے بعد یہ قوم دوبارہ جادو کی شیطنت کا شکار ہوگئی اور پھر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا زریں زمانہ آیا۔ ان کے بعد یہ پھر جادو اور شرک کا شکار ہوئے اور بخت نصر نامی بادشاہ نے ان کو تباہ و برباد کر دیا‘ یروشلم اور القدس سے نکال کر عراق میں جلاوطن کر دیا۔ یہ وہاں بھی جادو کی شیطنت کا شکار ہو گئے۔
یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کے جو خاندان‘ جو قبائل مدینہ منورہ میں آ کر بسے‘ وہ بھی جادو کا کام کرتے رہے۔ حضور کریمﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو تب بھی یہ جادو کے شیطانی عمل سے باز نہیں آئے حتیٰ کہ حضور کریمﷺ کو آخری نبی پہچان کر بھی دشمنی میں حضورﷺ پر جادو کرنے لگ گئے۔ ان کی یہ حرکتیں آج تک جاری ہیں۔ جون 2022ء میں برطانیہ میں برمنگھم کامن ویلتھ گیمز ہوئیں تو سٹیڈیم میں افتتاح کے موقع پر بادشاہ چارلس اور عمائدین موجود تھے۔ افتتاحی تقریب میں ایک روبوٹک بچھڑا میدان میں چلتا ہوا آیا جس کے منہ سے دھواں اور مختلف آوازیں نکل رہی تھیں۔ اردگرد نیم برہنہ لڑکیوں کے تین گھیرے بنائے ہوئے تھے۔ انہوں نے مشعلیں روشن کر کے بچھڑے کی سرخ آنکھوں یعنی غضب کو ٹھنڈا کرنے کے جادوئی عمل کیے۔ آخر میں آخری حلقے کی لڑکیاں رکوع کے سے انداز میں اس بچھڑے کے آگے جھک گئیں۔ الیگزینڈر سٹیڈیم میں ہوئے اس عمل کو Baal Worship کا نام دیا گیا؛ یعنی فرعونی تہذیب کو زندہ کر کے موسوی تہذیب کامقابلہ کیا گیا۔
امتِ مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں ''سورۃ البقرہ‘‘ اسی لیے دی گئی کہ مسلمانو! گائے اور بچھڑے کی فرعونی تہذیب‘ جوجادو پر مبنی تھی‘ اس سے بچ کر رہنا، لیکن ہائے افسوس! میرے وطن عزیز کے بعض لوگ بھی اسی فرعونی تہذیب کا شکار ہو کر جادو کی شیطانی دنیا کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں‘ نجومیوں کے چکر کاٹتے ہیں‘ زائچے بنواتے ہیں۔ آہ! یہ لوگ سورۃ البقرہ کو بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے‘ آمین!