اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات اور اس کے پیدا کردہ آخری انسان کے خاتمے یعنی قیامت میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے‘ انسان اپنی متجسس فطرت کے مطابق کھوج اور تحقیق میں لگا رہتا ہے۔ حضور کریمﷺ نے انسان کے اس فطری تقاضے کو علمی تسکین پہنچانے کے لیے قربِ قیامت کی بعض علامات بیان فرمائی ہیں۔ قیامت کی ایک جو سب سے بڑی علامت ہے وہ خود حضور کریمﷺ کی ذاتِ گرامی؛ یعنی آپﷺ کی بعثت ہے۔ ہم سب سے پہلے حضور کریمﷺ کی ایک حدیث شریف بیان کریں گے اور اس کے بعد آج کے سائنسی انکشافات ملاحظہ کریں گے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''میں ایسے وقت میں رسول بن کر آیا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جس قدر میری ان دو انگلیوں کا درمیانی فاصلہ ہے‘‘۔ حضرت انسؓ اور حضرت سہلؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر حضورﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک کی درمیانی انگلی اور شہادت والی انگلی کو باہم ملایا۔ (بخاری: 4936، مسلم: 2951) قارئین کرام! یہاں ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو تشریف لائے ہوئے اب تک لگ بھگ ساڑھے چودہ سو سال ہو گئے ہیں‘ مزید کتنا وقت باقی ہے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں؛ تاہم حضورﷺ کی بتائی ہوئی دیگر بہت ساری علامات سامنے آ چکی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وقت کی اکائی کچھ اور ہے، یعنی قدرت کا وقت لمبا ہوتا ہے۔ حضور کریمﷺ نے اپنے رب کریم کی جانب سے آنے والی وحی کے پیغام سے جو وقت بتایا ہے‘ وہ ویسے تو صدیوں پر محیط ہے؛ تاہم یہ واضح بات ہے کہ حضور کریمﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ آپﷺ کا زمانہ آخری زمانہ ہے‘ اس لحاظ سے آپﷺ کا وجود مبارک قیامت کے آنے کی سب سے بڑی اور آخری زمانے کی پہلی نشانی ہے۔ آپﷺ کے اور قیامت کے درمیان انتہائی تھوڑا وقت باقی ہے؛ لہٰذا ہر انسان کو تیاری کر لینی چاہئے۔یاد رکھئے! اللہ کے رسولﷺ نے وقت کو اپنی دو مبارک انگلیوں کے درمیان انتہائی مختصر کیا ہے۔ انگریزی میں اسے Compress کرنا کہتے ہیں۔
آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ سائنسدان وقت کو Compressکرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد وہ اس کام پر لگ گئے تھے۔ انہوں نے کائنات کے پھیلاؤ اور ابتدائی کہکشاؤں کی دوریوں کو ماپتے ہوئے اندازہ لگایا کہ ہماری کائنات کی عمر لگ بھگ13.7 ارب سال ہو چکی ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس ٹائم کو مختصر کیسے کیا جائے؟ اسی طرح ہماری کہکشاں (مِلکی وے) میں ہمارا نظامِ شمسی کوئی پانچ ارب سال قبل وجود میں آیا تھا۔ سورج سے ہماری زمین وجود میں آئی تھی۔ خلا سے دہکتے ہوئے چٹانی ٹکڑے اس کے ساتھ ملے۔ یہ اپنے مدار میں اور سورج کے گرد گھومنے لگ گئی۔ اسی زمین سے ایک ٹکڑا الگ ہوا اور وہ چاند بن کر زمین کے گرد گردش کرنے لگ گیا۔ زمین پر خلا سے ایسے ایسے چٹانی ٹکڑے ٹکرانے لگ گئے جو میلوں لمبے اور میلوں چوڑے تھے۔ وہ پانی سے بھرے ہوئے تھے یوں زمین پر پانی وجود میں آیا، انہی سے سمندر بن گئے۔ زمین کے گرد آکسیجن کی تہہ بن گئی۔ دریا، ندی نالے، آبشاریں وغیرہ بن گئیں۔ اس کے بعد مٹی اور پانی سے زندگی کا آغاز ہوا۔ جاندار وجود میں آئے۔ سمندروں کی مچھلیاں، زمینی جاندار اور پرندے ہوا میں اڑنے لگے۔ سب سے آخر پر انسان وجود میں آیا۔ سائنسی نظریہ کہتا ہے کہ موجود انسان کے آبائو اجداد کو زمین پر آئے ہوئے کوئی تین لاکھ سال کا وقت ہو چلا ہے۔ سائنسدان انسانوں کے ان آبائو اجداد کو Homosapiens کہتے ہیں۔ لاطینی زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے‘ چالاک، ہوشیار انسان۔ یعنی اگر پہلے کوئی انسانی آبادی تھی بھی تو وہ لائقِ اعتنا نہیں تھی۔باشعور، عقل و فراست والا انسان سب سے آخر پر زمین پر ظاہر ہوا۔
سائنسدانوں نے مندرجہ بالا زمینی تاریخ کے زمانے کو لگ بھگ چار ارب سال پر محیط قرار دیا ہے۔ اب انہوں نے اس چار یا ساڑھے چار ارب سالوں کو مختصر کیا یعنی Compressکرنے کا پروگرام بنایا تو رات اور دن کو سامنے رکھ کر اس وقت کو 24گھنٹوں میں تقسیم کیا، یعنی چار؍ ساڑھے چار ارب سالوں کی زمینی تاریخ کو 24گھنٹوں میں بیان کرنے کا پروگرام بنایا۔ اب انہوں نے ایکCompressed Watch بنا ئی۔ زمین کی تاریخ کا آغاز رات بارہ بجے کیا۔ یہ واضح کر دوں کہ سائنسدانوں کی بنائی گئی اس گھڑی کو ''کمپریسڈ واچ‘‘ کا نام میں نے دیا ہے۔ اسے ''مختصر کائناتی گھڑی‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام! ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سائنسدانوں نے اس کمپریسڈ واچ کا آغاز رات کے بارہ بجے کیوں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شمسی دن کا آغاز بھی رات بارہ بجے ہوتا ہے۔ دن کا آغاز رات کے گھپ اندھیرے سے کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو خالقِ کائنات ہے‘ اس نے ہر شئے کی تخلیق کا آغاز اندھیرے میں ہی کیا۔ حضرت محمد کریمﷺ پر جو آخری الہامی کتاب نازل ہوئی‘ اس میں ارشاد گرامی ہے۔ فرمایا ''سب حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کائنات) کو پیدا کیا۔ اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر بھی یہ کافر لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں‘‘ (الانعام:1)۔اللہ تعالیٰ نے روشنی سے پہلے اندھیروں کا ذکر فرمایا۔ تمام مخلوقات جو جاندار ہیں ان کی تخلیق بھی اندھیروں میں ہوتی ہے۔ اسی طرح درخت ا ور خوراک وغیرہ کے بیج بھی زمین کے اندھیروں میں ہی پیدا ہو کر روشنی میں آتے ہیں۔ انسان کے بارے میں فرمایا کہ اسے ماں کے رحم کے تین اندھیرے پردوں میں پیدا فرمایا۔ اب سائنسدانوں نے کائناتی گھڑی میں زمین کے وقت پیدائش کو درج کرنے کا آغاز کیا تو آدھی رات سے آغاز کیا۔ یہ مولا کریم کی بنائی ہوئی فطرت ہے‘ اس سے انحراف ناممکن ہے۔ اس گھڑی کے مطابق دنیا پر جانداروں کا آغاز صبح چار بجے کے بعد ہوا تھا۔ یعنی کروڑوں‘ اربوں سال تک یہ دنیا محض ایک دھاتی گولہ تھی۔ اس کے بعد اس پر زندگی کے آثار ہویدا ہوئے۔ سائنسدانوں نے ڈائنوسار کی پیدائش، افزائش اور ان کے خاتمے کی کروڑوں سالہ مدت کو کائناتی گھڑی میں محض 30منٹ کا عرصہ قرار دیا ہے۔ زمین پر موجودہ انسان کی تاریخ کا آغاز اس کائناتی گھڑی کے خاتمے یعنی رات بارہ بجے سے لگ بھگ ڈیڑھ منٹ پہلے ہوتا ہے۔ آج یعنی لمحۂ موجود تک یہ وقت صرف ایک سیکنڈ ہے۔ ایک سیکنڈ سے کچھ زیادہ ہے تو وہ صرف Milliseconds میں ہے۔ ویسے تو ٹائم کو کمپریسڈ کرنے کا کام 1960ء سے ہی شروع ہو گیا تھا‘ تب سے ہی سائنسدان ایٹمی گھڑیاں استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اکیسویں صدی میں اس طرح کی گھڑیوں کے مختلف نقشے بننا شروع ہو گئے۔ پچھلے سال یعنی اگست 2022ء میں Amelia Zolinger نے Compressed Time میں انسان کی اب تک کی جو عمر اپنے آرٹیکل لکھی‘ وہ یہی بنتی ہے۔ مزید برآں Time and date کے حوالے سے 29جون 2022ء کو جو عمر سائنسدانوں نے نکالی‘ وہ بھی تقریباً اتنی ہی بنتی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ آج کے جدید ترین ترقی یافتہ سائنسی دور میں سائنسدانوں نے ایٹمی ٹائم کو استعمال کر کے مختصر وقت یعنی Compressed Time کا فارمولہ نکالا۔ ہمارے حضور کریمﷺ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ٹائم کو Compressed کیا‘ اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا اور فرمایا کہ یہ جو درمیان میں معمولی سا وقفہ ہے‘ بس وہی ٹائم ہے‘ اس کا اختتام ہوگا یعنی قیامت سر پر کھڑی ہے۔ انسانوں کے آخری ریلے گزر رہے ہیں‘ اسی ٹائم کے اندر سے گزر رہے ہیں۔ صدقے‘ قربان جاؤں اپنے حضور کریمﷺ کے بتائے ہوئے اس ٹائم پر جو ساڑھے چودہ سو سال قبل Compressکر کے بتایا گیا۔ صحابہ کرامؓ نے جہاں حضور کریمﷺ کا فرمان بتایا‘ ساتھ ہی حضور کریمﷺ کے دائیں ہاتھ مبارک کی دو انگلیوں کا منظر بھی بتایا کہ یہ حدیث بیان کرتے ہوئے دونوں انگلیاں ملی ہوئی تھیں۔
مجھے تو کچھ یوں بھی سمجھ آئی کہ درمیان والی انگلی مبارک سب انگلیوں سے لمبی ہے یعنی سارے زمانے بیت گئے بس اب کچھ ٹائم ہی باقی ہے۔ ساتھ والی انگشتِ شہادت پیغام دے رہی ہے‘ حضورﷺ کے الہام کی شرح کر رہی ہے کہ لوگو! ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے‘ ایک سیکنڈ مزید باقی ہے یا اس کے کچھ حصّے باقی ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ تمام انسانوں کے لاکھوں سال جو چلے آ رہے ہیں‘ وہ ایک سیکنڈ جتنی حیثیت رکھتے ہیں تو ایک انسان کی ساٹھ‘ ستر سال کی عمر اس Compressed Timeمیں کیا ویلیو رکھتی ہے؟ اسی لیے یہاں پر حضورﷺ نے انسان کی انفرادی عمر کا ذکر ہی نہیں فرمایا کہ یہ قابلِ ذ کر ہی نہیں ہے۔ آہ! ہم اس ناقابلِ ذکر ٹائم میں خواہشات کے محل بناتے بناتے بعض ناجائز خواہشات کے ناجائز محل بھی بنا لیتے ہیں مگر یہ محلات اور یہ دولتیں‘ اللہ کی قسم! Compressed Time میں صفر جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔ جنت کی تیاری کر اے انسان! تاکہ تجھے حضور کریمﷺ کے کریمانہ دستِ مبارک سے جامِ کوثر مل سکے۔