اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید میں واضح کرتے ہیں ''یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش کراتے رہتے ہیں‘‘ (آلِ عمران: 140)۔ زمین اور سورج متواتر گردش میں ہیں۔ اس گردش کے نتیجے میں 2023ء کا سال طلوع ہوا۔ اس کا پہلا مہینہ گزر بھی گیا۔ اس کا ایک دن 23جنوری تھا۔ یہ بھی بیت گیا! اس بیتے ہوئے دن میں Big Think نامی سائنسی ادارے کی ایک بڑی بے بسی کا اظہار ہوا۔ اس ادارے کی سائنسی ٹیم کا اعلان جو کچھ اس طرح تھا‘ ملاحظہ ہو!
"Why the origin of life and the universe Itself might be forever unknowable"
ایسا آخر کیوں ہے کہ زندگی اور خود کائنات کے بارے میں یہی نظر آتا ہے کہ یہ کبھی بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئے گی۔
مذکورہ عنوان کے بعد جوسرخیاں لگائی گئی ہیں‘ ان میں نمایاں ترین اس طرح ہے:
We can only see back in time to 300,000 years after the Big Bang. We don't exactly know what happened before that.
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم وقت میں پیچھا جانا چاہیں تو جب بگ بینک ہوا‘ اس سے صرف تین لاکھ (نوری) سال کے بعد کا ہی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ (اس سے پہلے کیا ہوا‘ یہ ہم کبھی بھی نہیں جان سکتے) اس کی وجہ یہ ہے کہ
Unfortunately, there are physical limitations that make research difficult.
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تحقیقات جو چیز مشکل بناتی ہیں‘ وہ (ہماری) جسمانی حدود ہیں (جن کو ہم کراس نہیں کر سکتے) ۔
لوگو! مزید آگے بڑھیں تو یہ سائنسدان اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق پر ریسرچ کرتے ہوئے آگے بڑھیں یا اس کائنات میں زندگی کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ آخر پر جا کر ہم رُک جاتے ہیں ہم ٹھہر جاتے ہیں۔ سکتے میں آ جاتے ہیں۔
But we don't know what came before it.
ہم نہیں جانتے کہ اس (بے بسی) کے بعد کیا چیز آئی (کہ بگ بینگ کے بعد یہ کائنات وجود میں آ گئی اور پھر زندگی نمایاں ہوئی)
جی ہاں! انسانی علم کی خلافت چلتی رہی۔ انسان ایک دوسرے کے نائب بنتے رہے۔ مندرجہ بالا دو سوالوں کی کھوج میں لگے رہے۔ ہزاروں سالوں کی کھوج یونانیوں کے ہاتھ لگی۔ رومی لگے رہے۔ ایرانی بھی سر پیر مارتے رہے۔ مصری بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ پھر مسلمان آ گئے وہ قرآن مجید اور حدیث شریف کو مانتے ہوئے آگے بڑھے۔ ہارون رشید اور مامون الرشید پہلی کتابوں کے ترجمے کراتے رہے۔ اندلس میں سائنس کے جھنڈے مسلمان گاڑتے رہے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ قرآن و سنت کو مان کر آگے بڑھتے رہے۔ الحاد سے محفوظ رہے۔ پھر ان کا علم یورپ والوں کے ہاتھ آ گیا۔ ان کو مذہبی لوگوں کی رکاوٹوں کا سامنا ہوا تو آخر کار انہوں نے رکاوٹوں کو توڑ ڈالا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے رفتہ رفتہ اپنا مذہب ہی چھوڑ دیا۔ الحاد کے ڈنکے بجنے لگے۔ اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی شروع ہو چکی ہے۔ اس کا تیسرا سال نمودار ہو چکا ہے۔ الحاد اب منہ چھپانا شروع ہو گیا ہے۔ ہر جانب کائنات کے خالق کو ماننے کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ سائنس کی بے بسی کا اظہار متواتر ہو رہا ہے۔ ایسے موقع پر اگر کوئی آج کے پڑھے لکھے انسان کی انگلی تھام کر اس کی خالقِ کائنات سے ملاقات کراتا ہے، دل کو امن اور سکون سے ہمکنار کرتا ہے، جسم کے ٹوٹنے پر اس میں سے روح کو نمودار ہوتا دکھلاتا ہے تو وہ حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ مجید ہے۔ وہی راہ دکھلاتا ہے۔ وہی آگاہ کرتا ہے کہ جہاں تم بے بس ہو گئے‘ اس بے بسی کے بعد کائنات کا خالق تمہارا ہاتھ تھامنے کو تیار نظر آتا ہے۔
قرآنِ مجید آگاہ فرماتا ہے: ''انہوں (اہلِ کتاب) نے دعویٰ کر ڈالا کہ اللہ نے (حضرت عزیز اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام) کو اولاد بنا رکھا ہے۔ وہ تو اس سے پاک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہے‘ سب اسی کی خاطر باقی ہے۔ سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔ وہی کائنات کا اوّلین موجد ہے۔ جب وہ کسی منصوبے (کو وجود میں لانے کا) فیصلہ کرتا ہے تو اس منصوبے اور پروگرام کے بارے ''کُن‘‘ کہتا ہے اور وہ وجود میں آ جاتا ہے‘‘ ۔(البقرہ:116 تا 117)
دوسری جگہ حضرتِ مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا منظر اس طرح واضح کیا کہ ''مریم کہنے لگیں: مجھے بچہ کیسے ہوگا‘ جب کوئی مرد میرے قریب تک نہیں آیا۔ اسے آگاہ کیا گیا کہ جس طرح پہلے ہوتا آیا ہے‘ اسی طرح ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔ جب وہ کوئی پروگرام بنا لیتا ہے تو بس اس کے بارے میں صرف ''کُن‘‘ ہی کہتا ہے اور وہ پروگرام نمایاں اور ظاہر ہو جاتا ہے‘‘ (آلِ عمران:47)۔
مزید فرمایا: ''اللہ کے ہاں عیسیٰ کا معاملہ آدم جیسا ہی ہے۔ آدم کو مٹی سے بنا دیا پھر اسے ''کُن‘‘ کا کہا گیا تو وہ (زندہ انسان بن کر) کھڑا ہو گیا‘‘ (آل عمران:59)
''جب ہم کسی کو وجود میں لانے کا ارادہ کر لیں تو اس کے لیے صرف اور صرف ہماری بات ہی ہوتی ہے۔ ہم اسے ''کُن‘‘ کہتے ہیں اور وہ شے وجود میں آ جاتی ہے‘‘ (النحل:40)۔
''وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اس جیسی اور کائناتیں پیدا کر دے۔ کیوں نہیں؟ (وہ قادر ہے) وہ سب کچھ پیدا کرنے والا ہے۔ (وہ پیدا کر کے بے خبر نہیں ہو جاتا) سب کچھ جاننے والا ہے۔ کسی شئے کو وجود میں لانے کے لیے بس اس کا اک حکم ہوتا ہے۔ (اس کی شان یہ ہے کہ ) وہ ''کُن‘‘ کہتا ہے اور پروگرام وجود میں آ جاتا ہے۔ (تمہاری سوچوں سے وہ بہت) پاک اور بلند ہے۔ اسی کے ہاتھ میں ہر شئے (ہر مخلوق) کی کامل بادشاہی ہے۔ (مت بھولنا) تم سب کو اسی کی طرف واپس پلٹ کر جانا ہے‘‘ (یٰسین:81تا83)
''وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا ہے۔ پھر پانی کی ایک بوند سے پیدا کرنے کا سلسلہ بنا دیا۔ اس پانی کے قطرے کو خون کے لوتھڑے (جونک) میں بدل دیا پھر تمہیں (خوبصورت) بچہ بنا کر شکمِ مادر سے باہر لے آتا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ تم جوانی کی عمر کو پہنچ جاؤ۔ پھر بوڑھے ہو جاؤ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی (جوانی سے) قبل ہی فوت ہوجاتا ہے۔ بہرحال! اپنے طے شدہ وقت تک تم نے بہرحال باقی رہنا ہے۔ یہ نظام اس لیے ہے کہ عقل سے کام لو (یہ بے مقصد نہیں ہے)۔ وہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ زندگی اور موت کے لیے بس ''کُنْ‘‘ ہی کہتا ہے اور عمل ہو جاتا ہے (بندہ زندہ بھی ہوتا ہے اور مر بھی جاتا ہے اور دوبارہ کُنْ ہی سے زندہ بھی ہو جائے گا)۔ ''المومن: 67 تا 68)
قارئین کرام! ''کُنْ فیکُوْن‘‘ کے چند مقامات ہم نے آپ کے سامنے رکھے۔ بے بسی ختم ہو جاتی ہے۔حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والے الہام کو ماننے سے مایوسی ختم ہو جاتی ہے۔ ناامیدی کا شیطانی دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ حیرانی اور پریشانی کا ابلیسی باب ٹوٹ کر پرزے پرزے ہو جاتا ہے۔ ایمان اور یقین کی رحمانی اور الوہی دولت میسر آتی ہے۔ اگلے جہان کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس دروازے پر خوبصورت ترین نورانی فرشتہ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جسم سے روح کو نکالتا ہے۔ سفید ریشمی لباس زیب تن کراتا ہے۔ فردوس کی کستوری میں لپیٹے ہوئے ‘ بندۂ مومن کو وہ رب کریم کے سامنے لے جاتا ہے۔ مولا کریم اور خالق اور مالک کی رحمت کا وہ نظارہ کرتا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے سے ملاقات کرتا ہے۔ یہ دروازہ اور اس کے اندر کے حالات جو بتائے ہیں ہمارے حضورﷺ نے‘ ان پر ایمان لانے کے بغیر چارہ نہیں۔ اس سے دنیا بھی آباد اور آخرت تو شاد ہی شاد۔ سبحان اللہ! الحمد للہ!