سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآنِ مجید میں لیا گیا ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں: ''رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ (البقرہ:185)یہ بھی ارشاد فرمایا ''ہم نے اس کتاب کو عربی زبان میں (قرآن بنا کر) نازل فرمایا تاکہ تم (عقل کو استعمال کرتے ہوئے) اسے سمجھو‘‘ (یوسف:2)۔ یاد رہے! دنیا میں آج لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ محض امریکہ میں دو ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی چونکہ موجودہ دور میں انسانیت کے درمیان رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے لہٰذا اس حوالے سے دنیا بھر کی اہم ترین زبان ہے۔ انٹرنیٹ میں استعمال ہونے والی زبانوں میں سرفہرست انگریزی ہی ہے۔ یاد رہے! جس طرح انسان مرتے رہتے ہیں اور نئے انسان وجود میں آتے رہتے ہیں‘ اسی طرح زبانوں کا وجود بھی ختم ہوتا رہتا ہے اور نئی زبانیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اگر زبانوں کی تاریخ میں دیکھیں تو انگریزی کو قدرے نئی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اس میں عربی کے بھی ہزاروں الفاظ موجود ہیں یعنی عربی ایک ایسی زبان ہے جو قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ عربی زبان میں ''سُکّر‘‘ ہے تو انگریزی میں ''شوگر‘‘ (چینی) ہے۔ عربی میں غار کو ''کہف‘‘ کہا جاتا ہے تو انگریزی میں Cave۔ اسی طرح عربی کے الفاظ چینی، ہسپانوی، جاپانی، جرمن، ہندی اور فارسی وغیرہ میں بھی ملتے ہیں۔اردو کی تو بنیاد ہی عربی اور فارسی ہے۔ تمام زبانیں آپس میں مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ مشابہت بھی رکھتی ہیں۔ زبانوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ تمام زبانوں میں گرامر موجود ہے، تمام زبانیں زمانے اور وقت کے حساب سے فطری طور پر بدلتی رہتی ہیں، تمام زبانوں میں ماضی، حال اور مستقبل کا زمانہ پایا جاتا ہے، تمام زبانیں نظریات کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کچھ کمی بیشی کے باوجود مندرجہ بالا صلاحیت سب میں موجود ہے۔
زبانوں کے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم ''Busuu‘‘ نے تسلیم کیا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں عربی ایک ایسی زبان ہے جوسب سے خوبصورت (Most Beautiful) زبان ہے ۔ زبانیں سیکھنے میں سب زبانوں میں سے جو آسان ترین انتخاب ہے‘ وہ عربی زبان ہے۔ قارئین کرام! یہ انتخاب (Choice) اس لیے ہے کہ انسان کے دل کی بات جب زبان پر آتی ہے تو عربی کے الفاظ دل اور دماغ کے خیالات کی ترجمانی کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔ عربی اور عرب کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس زبان کے الفاظ دل کے مطلب کو کمال انداز سے ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو قرآنِ مجید نے اس طرح بیان کیا ہے: ''یہ آیات ایسی کتاب کی ہیں جو مبین (دل کی بات کو واضح کرنے والی) ہے‘‘ (یوسف: 1) وہ لوگ جو زبان کے تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں پھر اس بنیاد پر فخر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید نے اس تعصب کے فخر و غرور کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ فرمایا ''آسمانوں اور زمین کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (اے انسانو!) تمہاری زبانوں اور رنگوں میں جو اختلاف ہے ان میں بھی اہلِ علم کے لیے نشانات ہیں‘‘ (الروم: 22)
زبانوں کے ماہرین مانتے ہیں کہ جب انسانیت کا آغاز ہوا تو یقینا ان کی زبان بھی ایک تھی۔ پھر صدیوں کے سفر میں ایک زبان سے کئی زبانیں بنتی چلی گئیں۔ مصر کے معروف ڈاکٹر مصطفی محمود‘ جو میڈیکل ڈاکٹر اور سپیشلسٹ تھے‘ اسلامی سکالر اور ریسرچر بھی تھے‘ انہوں نے دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ انسانیت کی سب سے پہلی زبان عربی تھی۔ جی ہاں! یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ عربی کے مقابلے میں باقی سارے جہان کو عجمی (گونگا) کہتے تھے؛ یعنی عربی کی فصاحت و بلاغت کے مقابلے میں سارے جہان کی زبانیں گونگی ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ سارے جہان کے انسانوں کی پدری (یعنی جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کی) زبان عربی تھی۔ تمام انسانوں کی مادری زبان یعنی سب کی ماں بولی (حضرت حوّاؑ کی زبان) بھی عربی تھی۔ دنیا پہ آنے والے پہلے پیغمبر کی زبان عربی تھی اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آخری رسول کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تو انہیں عرب میں مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کو جو آخری کتاب عطا فرمائی‘ اسے بھی عربی میں نازل فرمایا۔ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو تمام انسانیت کے اوّلین ماں باپ کی زبان میں نازل ہوئی
ہے۔ یہ آخری اور مکمل ضابطۂ حیات قیامت تک کیلئے عربی میں رہے گا۔ حضور کریمﷺ نے فرما دیا: جو شخص مرتے وقت ''لا الہ الا اللہ‘‘ کہہ دے گا‘ وہ جنت میں داخل ہو گیا، یعنی اپنے خالق کی توحید کا اقرار کرے گا تو عربی میں کرے گا۔ جب قبر میں اس سے سوال و جواب ہوگا تو فرشتہ بھی عربی بولے گا اور جواب دینے والا جواب عربی ہی میں دے گا۔ دنیا میں چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو مگر اس کی فطرت میں جو وراثتی زبان ہے‘ وہ عربی ہے۔ اس کے خلیے کے اندر جو ڈی این اے ہے اور پھر وہاں جو ''جینز‘‘ بنتے ہیں ان میں جو تحریر ہے وہ عربی زبان میں ہے۔ یہ زبان قبر میں حساب کتاب کے وقت زندہ ہو جائے گی۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق: حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی تخلیق کے بعد جو پہلی گفتگو کی وہ فرشتوں سے کی۔ اللہ کے حکم سے ان کو ''السلام علیکم‘‘ کہا۔ یہ عربی میں تھا۔ فرشتوں نے جواب دیا تو وہ بھی عربی میں تھا؛ یعنی ابتدائی مکالمہ بھی انسان اور فرشتوں کے درمیان عربی میں تھا۔ جب فرشتے مومن کو لینے آتے ہیں تو تب بھی‘ قرآن بتاتا ہے کہ‘ آتے ہی ''السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں۔ جنت میں اہلِ جنت کی زبان بھی عربی ہی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ چونکہ انسان کی یہ فطری زبان ہے لہٰذا پانچ سال کا بچہ بھی قرآنِ مجید کو حفظ کر لیتا ہے اور ساٹھ‘ ستر سال کے بوڑھے بھی حافظ بن جاتے ہیں۔ دماغی نیورون کی جو سائنس ہے‘ اس کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ چار‘ پانچ سال کے بچے کا دماغ نشوونما پانے کی ابتدائی سٹیج پر ہوتا ہے لہٰذا حفظ کرنا مشکل ہے۔ اسی طرح ساٹھ‘ پینسٹھ سال کے معمر لوگوں کا قرآنِ مجید حفظ کرنا بھی انتہائی مشکل کام ہے مگر اسلام کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں ایسی مثالیں عام ہیں اور ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
جی ہاں! ایسا اس لیے ممکن ہے کہ عربی زبان انسان کی فطری زبان ہے۔ لوگو! دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کے حفاظ موجود ہوں۔ صرف قرآن مجید ہی ایسی ضخیم کتاب ہے جس کے لاکھوں حفاظ ہر خطے میں موجود ہیں۔ رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس مہینے میں ہزاروں حفاظ پورا قرآنِ مجید سنائیں گے اور اہلِ ایمان سننے کی سعادت حاصل کریں گے۔ یہ قرآنِ مجید کا ابدی‘ زندہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟ معلوم انسانی تاریخ کی یہ واحد کتاب ہے جو انسانوں کے سینوں میں اپنے نزول سے لے کر آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ جو اس کتاب کی عربی ہے وہ نہ نظم ہے اور نہ نثر ہے بلکہ وہ اپنی طرز میں منفرد یعنی ''قرآنی طرز‘‘ ہے۔ اس کا اعجاز اس قدر عظیم ہے کہ جو اس کتاب کے حفاظ بن جاتے ہیں ان میں چند ایسے ہیرے اور جواہر بھی موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ ان میں سے کوئی بخاری شریف کا حافظ بن جاتا ہے اور کوئی مسلم شریف حفظ کر لیتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو حدیث کی چھ کتابوں (صحاح ستہ) کے حافظ بن گئے۔ اللہ‘ اللہ! قرآنِ مجید کا اعجاز اور پھر احادیث رسولﷺ کا اعجاز۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ! ''مرحبا یا رمضان‘‘۔