سائنسی دنیا کے معتبر فورمز میں سے ایک اہم نام Quora ہے۔ کچھ دن قبل حقائق کی اِس دنیا میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ معلوم انسانی تاریخ میں جدید ترین اور ایسی واحد ٹیلی سکوپ ہے جسے زمین کے مدار میں بھیجنے کے بجائے سورج کے مدار میں بھیجا گیا‘ اور اس کی دی ہوئی معلومات سے سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے مگر 13.8 بلین نوری سال پیچھے جا کر دیکھنے کی صلاحیت اس میں بھی نہیں ہے۔ یعنی ٹائم کا وہ لمحہ جب ہماری کائنات وجود میں آئی‘ اس لمحے کو دیکھنے کی خواہش ہر فلکیاتی سائنسدان کے دل میں ہے۔ مگر اس کا پورا ہونا ممکن نہیں، مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ جی ہاں! امکان تو کوئی نہیں مگر علم کو حاصل کرنے کا تجسس انسان کی فطرت اور جبلت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی‘ یہ جاننے کا تجسس ہر ذہن میں ہے۔ اس متجسس فطرت کو کچھ تسکین اس وقت پہنچی جب ابتدائی گلیکسیوں کو جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ نے دیکھا۔ اس پر سائنسدانوں نے کہا:
why do we want to see the first stars and galaxies forming? The chemical elements of life were first produced in the frist generation of stars after the Big Bang. We are todoy becaus of them- and we want to better understand how that came to be! We have ideas, we have predictions, but we do not know. One way or another, the first stars must have influenced our own history, beginning with stirring up everything and producing the other chemical elements besides Hydrogen and Helium. So if we really want to know where our atoms came from, and how the little planet earth came to be capable of supporting life, we need to measure what happened at the beginning.
ترجمہ: آخر ہم یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ابتدائی ستاروں اور کہکشائوں کو بنتا ہوا دیکھیں؟ وجہ یہ ہے کہ زندگی کے جو کیمیاوی عناصر ہیں وہ بگ بینگ کے بعد ستاروں کی ابتدائی نسل ہی میں بن گئے تھے۔ ہم اسی وجہ سے آج موجود ہیں کہ ہماری زندگی کے ابتدائی عناصر تب بن گئے تھے۔ وہ کیسے وجود میں آئے‘ ہم اس بارے میں بہتر سمجھ بوجھ کا حصول چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس نظریات ہیں‘ پیشگوئیاں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن محض ایک راستہ یا کوئی دوسرا بھی‘ یہ ہم نہیں جانتے! ابتدائی ستارے ہماری ذاتی تاریخ میں بہت زیادہ اثر انداز ہیں۔ ہر شے کی اٹھان کیساتھ ایک آغاز ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے علاوہ دوسرے بھی کیمیاوی عناصر ہیں جو (ان ستاروں) میں موجود ہیں؛ چنانچہ اگر ہم واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی کے بنیادی ایٹم کہاں سے آئے اور (زمین پر درخت، پودے اور جڑی بوٹیاں کیسے وجود میں آئے) کیسے زمین اس قابل ہو پائی کہ اس نے زندگی کے وجود کو مدد پہنچائی تو پھر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ جب آغاز ہوا تھا تو تب کیا کچھ وقوع پذیر ہوا؟
قارئین کرام! جس خالق نے یہ کائنات پیدا کی‘ اسی نے انسان کو خلق کیا۔ اسی نے اس کی فطرت کو بنایا اور اسی نے انسانی فطرت کو جواب دیا۔ انسانی ذہنوں میں بار بار ابھرنے والے اس سوال کا تسلی بخش جواب مولا کریم نے اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید میں دیا ہے۔
آج جمعۃ المبارک ہے۔ حضور کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جمعہ کے دن فجر کی نماز پڑھاتے تو دوسری رکعت میں سورۃ الانسان تلاوت فرماتے۔ (صحیح بخاری: 891) مولا کریم فرماتے ہیں ''کیا انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت گزر نہیں چکا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے بھی نہیں تھا‘ بلاشبہ ہم نے انسان کو (مرد و عورت کے) ملے جلے قطرے سے پیدا فرمایا۔(پیدا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ) ہم اس کو امتحان میں ڈال کر جانچ کریں؛ چنانچہ ہم نے اسے خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا بنا دیا‘‘(الانسان:1) یاد رہے! اس سورت مبارک کے دو نام ہیں۔ ایک ''الدھر‘‘ ہے جس کا مطلب زمانہ یعنی ٹائم ہے۔ دوسرا نام ''الانسان‘‘ ہے۔ دونوں نام پہلی ہی آیت میں موجود ہیں۔
آج کے جدید سائنسی دور میں انکشاف ہوا ہے کہ جب اولین ستارے اور ان سے گلیکسیاں وجود میں آ رہی تھیں تو انہی ستاروں میں جو گیسیں تھیں‘ ان کے اندر سب بنیادی پارٹیکلز بھی تھے۔ ایٹمز تھے، مالیکولز تھے۔ کیمیاوی عمل سے عناصر اپنی شکل کے ابتدائی مراحل میں تھے۔ یہی عناصر آج ساری کائنات میں موجود ہیں۔ زمین پر اس انداز سے موجود ہیں کہ زمین کو پانی مل گیا۔ پودے مل گئے۔ آکسیجن مل گئی... اور پھر وہ لمحہ آیا جب انسان وجود میں آیا اور اس انسان کے لیے جوڑا بنا اور پھر اس ایک جوڑے سے مزید انسان بننے لگ گئے۔ سائنسی اعتبار سے تخلیقِ کائنات کے دو بنیادی ادوار ہیں۔ ایک وہ دور جب ستارے بن رہے تھے‘ تب انسان کے موجودہ جسم میں جو اجزا ہیں‘ یہ ستاروں میں تھے مگر انسان کا وجود نہیں تھا یا قابلِ ذکر نہ تھا۔ دوسری بار انہی ستاروں میں موجود عناصر سے جب زندگی وجود میں آئی تو پانی کے دو قطرے جب باہم مل کر ایک بنے تو تب بھی انسان کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ لوگو! اگر یہاں ستاروں میں انسانی جسم کے عناصر کی سمجھ نہیں آئی تو قرآنِ مجید کی دوسری سورت ملاحظہ فرمالیں۔
مولا کریم فرماتے ہیں: قسم ہے آسمان کی اور( اس میں سفر کرکے) آنے والے (ستارے) طارق کی۔ (میرے حبیب ﷺ!) آپ کو کیا معلوم کہ وہ طارق کیا ہے۔ وہ اک روشن ستارہ ہے۔ کوئی ایسی جان نہیں جس پر ایک حفاظت کرنے والا( نگران) نہ ہو۔ انسان کو چاہئے کہ وہ دیکھے اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ اسے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پشت اور پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ بلاشبہ وہ (خالق) اسے دوبارہ پہلی حالت میں لانے پر قادر ہے۔ اس روز تمام بھید کھول دیے جائیں گے‘‘(الطارق: 1تا9)۔ اللہ اللہ! سورۃ الطارق میں واضح ہو گیا کہ چمکنے والا جو ستارہ ہے‘ اس کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ اسے غیر معمولی مخلوق قرار دیا جا رہا ہے اور پھر ساتھ ہی انسان کی پیدائش کا ذکر کیا گیاہے۔ اسے اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ وہ غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟ وہ ستاروں کی فارمیشن پر غور کرے اور پھر دیکھے کہ جن عناصر سے اس کا جسم بنایا گیا ہے‘ وہ عناصر تو ستاروں میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس کے جسمانی سفر کا آغاز ستاروں کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔
لوگو! جس رب کریم نے اتنی بڑی حقیقت بتائی ہے‘ وہی سچا خالق اورسچا رب ہے۔ جس کتاب میں یہ حقیقت بتلائی گئی ہے‘ یعنی قرآنِ مجید‘ وہی کتاب سچی والہامی کتاب ہے۔ پھر جس ہستی پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے‘ وہ ہستی حضور کریم ﷺ کی ہستی ہے۔ آپ ﷺ سچے نبی اور آخری رسول ہیں۔ آپﷺ کی لائی ہوئی کتاب یعنی قرآنِ مجید نے آخری زمانے کی آخری سچائیوں میں سے ایک ایسی سچائی کا انکشاف کیا ہے جو جدید ترین سائنسی انکشاف ہے۔
سائنسدان جو حقیقی سچائی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں‘ وہ کئی ٹریلین ڈالرز جس سچائی کی تلاش میں خرچ کر چکے اور کرتے چلے جا رہے ہیں وہ سچائی اپنی کامل ترین صورت و شکل کے ساتھ قرآنِ مجید نے واضح کردی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے واضح کردیا ہے کہ انسان کا وجود دوبارہ عناصر بن جائے گا، ستارے بے نور ہو کر بکھر جائیں گے۔ پھر ایک نئی کائنات وجود میں آئے گی۔ سارے انسان دوبارہ کھڑے کیے جائیں گے۔ وہ زمین سے یوں اُگیں گے جس طرح پورے اُگتے ہیں۔ اس روز سب کو آگاہ کر دیا جائے گا کون کامران اور کامیاب ہو گیا ہے اور کون ہے جو اپنی پیدائش کے بعد زندگی جیسی نعمت کے ساتھ زمین کی سطح پر موجود امتحان گاہ میں بھیجا گیا مگر وہ اس امتحان میں ناکام اور نامراد ہو گیا ہے۔