اللہ تعالیٰ پوری کائنات‘ تمام مخلوقات کے خالق و مالک ہیں‘ سب کو ذہانت کا تمغہ عطا فرمانے والے بھی اللہ کریم و رحیم ہی ہیں۔ آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل (1904ء میں) اس وقت کے ایک معروف سائیکالوجسٹ مسٹر الفریڈ بینٹ (Alfred Binet) نے ذہانت کو جانچنے کا ایک میزان بنایا اور اس کا نام Intelligence Quotient (IQ) رکھا۔ آج بھی کسی کی ذہانت کو میزان یا ترازو میں جانچنا ہو‘ اس کا لیول دیکھنا ہو تو اسے مختصراًIQ لیول پر ہی پرکھا جاتا ہے یعنی ذہانت کی سطح۔ ذہانت کا میزان یا ذہانت کی سطح کو جانچنے کے لیے 2023ء تک کئی علمی فارمولے بن چکے ہیں؛ تاہم ایک سادہ سا فارمولا جو مسٹر بینٹ نے بنایا تھا‘ آج بھی وہ سب پر بھاری ہے اور وہ فارمولا یہ ہے کہ پانچویں پاس بچہ اگر دسویں کلاس کے سلیبس کو سمجھنا شروع کر دے تو کہا جائے گا کہ اس بچے کی جسمانی عمر اگرچہ گیارہ سال ہے مگر اس کی ذہنی عمر 16سال ہے۔
قارئین کرام! میں نے مذکورہ فطری اور سائنسی فارمولے کی روشنی میں دیکھنا شروع کیا تو اپنے رب کریم کی ایک قدرت کا نظارہ سامنے آیا‘ اس نظارے کا منظر ہمارے دیس پاکستان کی ایک بچی میں سارا جہان دیکھ چکا ہے۔ اس بچی کا نام ارفع کریم رندھاوا تھا۔ اس نے 2004ء میں محض 9 سال کی عمر میں آئی ٹی کی دنیا میں مائیکرو سافٹ کا سرٹیفائڈ پروفیشنل امتحان پاس کر لیا تھا۔ دنیا بھر میں یہ پہلی کم عمر بچی تھی جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ ارفع بیٹی کی ذہانت اور آئی کیو لیول نے امریکہ، یورپ اور دنیا بھر میں آئی ٹی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ مائیکرو سافٹ کے بانی اور اس وقت کے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے ارفع کریم کو مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کوارٹر میں تشریف آوری کی دعوت دی اور اس سے ملاقات کی۔ اگلے ہی سال یعنی دس سال کی عمر میں ارفع کریم نے دبئی کے فلائنگ کلب سے جہاز کو اڑایا اور پائلٹ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا۔ 2005ء میں وہ اس وقت کے صدرِ پاکستان‘ پرویز مشرف مرحوم سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ لے چکی تھی۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے درخواست کی کہ ارفع سرگودھا یونیورسٹی کے اساتذہ کو کمپیوٹر پڑھائے، یوں محض تیرہ سال کی عمر میں وہ یونیورسٹی کی پروفیسر یعنی استاد بن گئی۔ 16سال کی عمر میں وہ اچانک بیمار ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے اللہ کے پاس چلی گئی۔ ارفع کے والد محترم کرنل امجد عبدالکریم رندھاوا صاحب سے تعزیت کرنے گیا تو وہ مجھے کہنے لگے: حمزہ صاحب! ارفع کا آئی کیو لیول اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار تھا، یعنی اللہ تعالیٰ نے 16سال کی عمر میں ارفع کا آئی کیو لیول اس قدر بڑھا دیا کہ آئی ٹی کے میدان میں ارفع کی دماغی عمر 35‘ 40سال تک جا پہنچی۔
قارئین کرام! میں نے یہ دلیل اس لیے دی ہے کہ ہماری دنیا میں یہ ہو رہا ہے۔ ہر انسان کو ذہانت کے لیول پر پر کھا جاتا ہے‘ ایسے میں اکثر ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ مقدس و متبرک ہستیوں کی ذہانت کا عالم کیا ہو گا۔ میں نے آج کے کالم کا عنوان ''آئی کیو میزان اور سیدنا حسینؓ ‘‘ کا انتخاب اسی لیے کیا ہے کہ بعض کج فہم لوگ حضرات حسنین کریمینؓ کے بلند و بالا مرتبے سے یہ کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں کہ جب اس دنیا سے حضورﷺ تشریف لے گئے تو اس وقت یہ دونوں حضرات کم سن تھے۔ عظمتِ حسینؓ کو سمجھنے کے لیے ویسے تو سید العرب و العجم محمد رسول اللہﷺ کی احادیث ہی کافی ہیں مگر دنیاوی اعتبار سے بھی آپ اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو اس سے قبل آپ کو عرب قوم اور ان کے آئی کیو کا لیول کو سمجھنا ہو گا۔
یاد رہے کہ آئی کیو لیول کا اظہار زبان سے ہوتا ہے۔ عربوں کی زبان دنیا بھر کی زبانوں سے اعلیٰ ترین ہے۔ دورِ حاضر کے معروف عربی تاریخ دان، عالم اور سیرت نگار ڈاکٹر علی محمد الصلابی ''سیرت النبیﷺ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عربوں کی لغت کا وسیع ہونا ان کی ذہانت اور قوتِ حافظہ کی دلیل ہے۔ عربی میں شہد کے لیے 80الفاظ، لومڑی کے لیے 200 الفاظ، شیر کے لیے 500 الفاظ اور اونٹ کے لیے ہزار الفاظ ہیں۔ ہزار الفاظ ہی تلوار کے لیے ہیں۔ حوادث و آفات کے لیے تقریباً چار ہزار الفاظ ہیں۔ ساری عربی زبان اسی طرح وسعت کی حامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناموں کی کثرت اور پھر ان کی وسعت و ہمہ گیری کے احاطہ کے لیے ایک روشن، بیدار اور مضبوط حافظے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہلِ عرب کی ذہانت و فطانت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ کلام تو رہا ایک طرف‘ وہ محض اشارے سے بات سمجھ جاتے تھے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
قارئین کریم! ان مثالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ایک عرب کے سامنے ایک اونٹ کا تذکرہ ہوتا ہے یا اونٹ اس کے سامنے آتا ہے تو وہ ایک ہزار اقسام کے اونٹوں کو ذہن میں پروسیس کرتا ہے‘ ان کا جائزہ لیتا ہے اور پھر منہ کھولتے ہوئے بولتا ہے تو موجود اونٹ کو سامنے رکھ کر اس کی قیمت لگاتا ہے۔ اس کی خصوصیات کو بیان کرتا ہے۔ قارئین کرام! اسی عرب قوم کے ایک فرد ہیں حضرت امام حسینؓ... مگر سیدنا امام حسینؓ کی ذہانت و فطانت کا ترازو اور میزان ابھی بہت دور ہے۔ آپ کو میرے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا‘ پھر جا کر حضرت امام حسینؓ کے مقام و مرتبے سے کچھ جان پہچان ہو گی۔ ابھی تو صرف اس قدر پتا چلا ہے کہ عربوں کا آئی کیو لیول بہت بلند ہے اور حضرت امام حسینؓ بھی عربی ہیں۔ عربوں کے بہت سارے قبائل ہیں‘ ان قبیلوں میں سب سے ممتاز قبیلہ بنو ہاشم ہے۔ حضرت امام حسینؓ ہاشمی ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ قبیلے کو منتخب کیا۔ کنانہ (کے متعدد قبائل بن گئے تو ان) میں سے قریش کو منتخب کیا۔( ان کے بہت سارے قبائل میں) پھر بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا‘‘۔ (مسلم: 2276)
قارئین کرام! عرب اقوام کی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے‘ سب سے اونچا آئی کیو لیول قریش کا تھا اور قریش میں سے بنو ہاشم کا آئی کیو لیول سب سے اعلیٰ و ارفع تھا۔ اب نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی ذہانت و فطانت کے حوالے سے تین چیزیں سامنے آ چکی ہیں۔ 1: دنیا بھر کے مقابلے میں عرب ذہانت۔ 2: قریش کی ذہانت۔ 3: بنو ہاشم کی ذہانت۔ جی ہاں! حضرت امام حسینؓ ہاشمی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث ہے‘ فرمایا ''مجھے زمانہ در زمانہ حضرت آدم علیہ السلام کی بہترین نسلوں میں منتقل کیا جاتا رہا حتیٰ کہ میں اس نسل (بنو ہاشم کے گھرانے عبدالمطلب) میں پیدا ہوا جس میں مجھے (پیدا) ہونا تھا‘‘ (بخاری: 3557) یعنی اللہ تعالیٰ بہترین نسلوں میں سے گزار کر اپنے حبیبﷺ کو عبدالمطلب کے گھرانے میں لایا۔ اب حضرت امام حسینؓ کے میزان میں دو چیزیں اور رکھ دی گئیں۔ 1: آل عبد المطلب۔ 2: آل ابوطالب۔ اب چیزیں پانچ ہو گئیں۔ اللہ اللہ... اور پھر جب حضرت امام حسینؓ حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت فاطمہ الزہرا بتولؓ کے گھر میں پیدا ہوئے تو حضرت حسینؓ کے آئی کیو میزان میں جو مزید دو چیزیں رکھ دی گئیں وہ دونوں انتہائی خوبصورت اور انتہائی وزنی ہیں‘ اب یہ تعداد سات ہو گئی ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کو جب نبوت ملی تو حضرت علی المرتضیٰؓ جو حضورﷺ کی تربیت میں تھے‘ کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی۔ یعنی انہوں نے کم عمری میں ہی اسلام قبول کیا تھا۔ بعض لوگ انہیں بچوں میں شمار کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہاں جسمانی عمر نہیں ذہنی عمر کا شمار ہونا چاہیے۔
میرے دیس کی ایک بچی جس کا نام ارفع کریم تھا‘ وہ رفعت میں یہاں تک پہنچی کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی استاد بن گئی اور ہوائی جہاز کی پائلٹ بن گئی۔ تو جن کی تربیت حضور کریمﷺ نے فرمائی‘ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ایسی ہستی کی عمر دس سال بتاتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جن کا نام ہی ''علی‘‘ ہے جس کا ترجمہ انتہائی بلندی ہے‘ ان کی ذہنی عمر تو سات آسمانوں سے بھی بلند ہے۔ اس اونچائی کو پھر کسی وقت قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت کروں گا۔ فی الحال صرف اس قدر عرض ہے کہ حضرت علیؓ جیسی عظیم ہستی کا صاحبزادہ جو نوجوانانِ جنت کا سردار ہے اور جو حضرت امام حسینؓ کہلایا‘ باب العلم سیدنا علیؓ کی ذہنی و فکری معراج ان کی ذہانت و فطانت کے میزان میں ایک ایسا روشن ستارہ ہے جس کی چمک کو ان کے نانا ہی جانتے ہیں۔
اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسین) دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔ (بخاری: 3753) لوگو! اللہ کی پناہ اقتدار کے لیے لالچ سے کہ پہلے جو پھول مسلا گیا وہ حسن نام کا پھول تھا۔ (تاریخی روایات یہ بتاتی ہیں کہ سیدنا حسنؓ کو زہر دے کر شہید کیا گیا) دوسرا پھول جس کا نام حسین تھا‘ وہ کربلا میں مسل دیا گیا۔ پہلے پھول کا قصور یہ تھا کہ مسلمانوں کے اتحاد اور یگانگت کی خاطر انہوں نے اپنی خلافت کو چھوڑ دیا تھا۔ یہ پانچویں خلیفۂ راشد تھے جنہیں حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اس وقت کے اصحابِ شوریٰ نے امیر المومنین بنایا تھا۔ اللہ کی قسم! اتنی ذہانت و فطانت ہے کہ سات آسمانوں اور زمینوں سے بھاری ہے‘ اسی لیے تو انہیں جنت کے جوانوں کی سرداری ملی ہے۔ چھوٹے بھائی حضرت امام حسینؓ کو بھی یہی سرداری ملی ہے۔ وہ امت کے اتحاد کی خاطر خاموش رہے مگر جب خلافت میں ولی عہدی کا سلسلہ چل نکلا تو وہ بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور وہاں سے کوفہ کی طرف چل پڑے کہ خلافت راشدہ کی گاڑی پٹڑی سے بالکل ہی اتر گئی ہے۔ اسے ٹریک پر چڑھانے کے لیے جنت کے جوانوں کا سردار اہلِ خانہ اور مٹھی بھر جانثاران کے ساتھ نکلا مگر زمینی اقتدار کے طلبگاروں نے فردوس کے سردار کو شہید کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ کی ذہانت و فطانت کا میزان اس قدر بھاری ہے کہ چودہ صدیاں ہونے کو ہیں‘ امت اس نعمت سے محروم ہے جو سیدنا حسینؓ کے نانا جان دے کر گئے تھے۔ وہ محض سات سال کے تھے جب ان کے نانا حضرت محمدﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تھے۔ اکیلے حضرت حسینؓ کی ذہانت و فطانت تب بھی اس قدر بلند تھی کہ چودہ صدیوں سے بالا تھی۔ گلشنِ نبوی کا یہ پھول تو کربلا میں مسل دیا گیا مگر امت آج تک تکلیف میں ہے۔