اللہ کے آخری رسولﷺ نے اپنے جس نوجوان صحابی کے لیے قرآن کریم کی تفسیر کے علم کی دعا کی وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگردوں میں جو ممتاز مفسر قرآن بنے وہ حضرت مجاہد بن جبیرؒ ہیں جو 21ھ میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں پیدا ہوئے اور 103ھ میں سجدے کی حالت میں فوت ہوئے۔ حضرت ابوالعالیہ رفیع بن مہرانؒ نے حضور کریمﷺ کا زمانہ پایا مگر ملاقات اور دیدار نہیں ہو پایا۔ وہ عہدِ صدیقی میں اسلام لائے اور اتنے بڑے مفسر بنے کہ صحابہ کرامؓ بھی ان کی تکریم کیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے عظیم محدث صحابی ان کے گھوڑے کی لگام تھام لیتے تھے۔ حضرت امام عکرمہؒ بَربَر نسل کے تھے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے علمی فیض حاصل کیا اور ان سے اور اپنی روحانی ماں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ، حضرت علی حیدر کرارؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سے کسبِ فیض اور روایات بیان کیں۔ وہ بھی عظیم مفسر ہوئے۔ تفسیر کا علم بطورِ خاص انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس طرح حاصل کیا کہ جب حضرت علیؓ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ بصرہ یعنی عراق اور ایران کے گورنر بنے تو حضرت عکرمہؒ ان کے غلام تھے۔ یہ غلامی کیسی عظیم تھی کہ وہ علم تفسیر میں قیامت تک مسلمانوں کے امام بن گئے۔
تابعین کی مندرجہ بالا بڑی ہستیوں کے بعد حضرت امام قتادہؒ کا نام آتا ہے۔ یہ 61ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ صحابی اور خادم رسولﷺ حضرت انس بن مالکؓ سے مستفید ہوئے۔ حضرت محمد بن سیرینؒ اور عطاء ابن ابی رباحؒ جیسے جلیل القدر تابعی علماء سے علم سیکھا۔ یہ تفسیر کے امام تھے۔ تفسیر میں امام ضحاک ؒ کا نام بھی ایک چمکتا ستارہ ہے۔ وہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔122ھ پیدائش کا سال ہے۔ پھر بصرہ آ گئے کہ یہ علم کا مرکز بن گیا تھا۔ 212ء میں فوت ہوئے۔
امام ضحاک کی وفات کے ٹھیک 12 سال بعد یعنی 224ھ میں امام حافظ محمد بن جریر طبریؒ پیدا ہوئے۔ انہوں نے ''جامع البیان‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو ''تفسیر طبری‘‘ کے نام سے معروف ہے اور ہمارے پاس موجود ہے۔ امام ابن جریر طبریؒ اپنی تفسیر کو صحابہ کرامؓ کے اقوال خصوصاً حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری اقوال، ان کے تابعی شاگردوں اور دیگر تابعی مفسرین کے اقوال سے مزین کرتے ہیں۔ وہ خود مجتہد بھی ہیں اور اپنی مجہتدانہ بصیرت سے بھی کام لیتے ہیں۔
قارئین کرام! جڑانوالہ کے سانحہ میں جس طرح درجنوں گرجوں کو جلایا گیا‘ نقصان پہنچایا گیا‘ مسیحی برادری‘ جو اہلِ کتاب ہے‘ اس کی عبادت گاہوں کی توہین کی گئی‘ اس پر قرآن مجید کی سورۃ الحج کی ایک آیت کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں اور پھر امام ابن جریرؒ کی مجتہدانہ بصیرت دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اذہان کے دریچے کیسے کھولتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں دور نہ کرتا رہے تو (تارک الدنیا لوگوں) کی خانقاہیں (مسیحیوں کے) گرجے، (یہود کے) سنیگاگ اور (مسلمانوں) کی مسجدیں کہ جن میں اللہ کا بہت زیادہ نام لیا جاتا ہے‘ ضرور بالضرور گرا دی جاتیں‘‘ (الحج40:)۔
لوگو! وہ زمانہ جو مسلمانوں کی سپر پاوری اور عظمت کا دور تھا‘ زمین پر تمام اقوام پر ان کے غلبے کا زمانہ تھا‘ اس دور میں امام محمد بن جریر طبریؒ مسلمان حکمران کو اپنی حکمرانی کے اندر جھانکنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ایسے ظلم کا سوچیں‘ وہ باز رہیں۔ وقت کا حکمران قرآن کے فرمان کو سامنے رکھ کر اپنی رعایا کو آپس میں ایسے مظالم سے روکے۔ اگر نہ روکا گیا تو وہ ظلم کا ارتکاب کریں گے، منہ زور لوگ دنیا ترک کر دینے والے عبادت گزاروں کی عبادت گاہوں کو ڈھا دیں گے۔ کمزوروں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔ ان کے گرجوں کو مسمار کر ڈالیں گے؛ چنانچہ اللہ ذوالجلال کا ذکر وہاں بند ہو جائے گا‘‘۔
اس کے بعد امام ابن جریر ؒ وقت کے حکمران کو ایک نصیحت کرتے ہیں، میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس نصیحت کو عربی میں لکھ کر اس کا ترجمہ کروں: ''لا یقھرہ قاہر و لا یغلبہ غالب‘‘ کوئی زور آور انسان یا جتھا حکمران پر منہ زور نہ بن جائے اور نہ ہی کوئی غلبہ پانے والا منہ زور انسان یا ہجوم، حکمران پر غالب ہو جائے۔
اللہ کی قسم! میں نے حافظ ابن جریرؒ کا یہ جملہ پڑھا تو دنگ رہ گیا کہ ہم تو اپنے وطن عزیز میں حکمرانی کا یہی انداز دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ہجوم نکلتا ہے اور اپنی بات منوا لیتا ہے۔ ایف آئی آر کٹوا لیتا ہے۔ ہجوم سے ڈر کر تھانیدار ایف آئی آر کاٹ لیتا ہے اور مظلوم کو اندر کر دیتا ہے۔ برا ہو ایسی حکمرانی کا اور بربادی ہو ایسے چلن کی جو میرے پیارے دیس میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی اس کو دیس نکالا کب ملے گا؟
لوگو! امام ضحاکؒ فرماتے ہیں: مذکورہ آیت میں جو اللہ تعالیٰ کے کثرت کے ساتھ نام کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سارے عبادت خانے ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے (یعنی وہ مفسرین جو صرف مساجد کو خاص کرتے ہیں اور باقی عبادت گاہوں کو خارج کر دیتے ہیں یہ درست نہیں ہے)۔ امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ‘ جن کی تفسیر ''ابن کثیر‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ وہ سورۃ الحج کی مذکورہ آیت کی شرح میں تابعی مفسرین کے اقوال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام قتادہؒ نے کہا: ''صوامع‘‘ سے مراد صابی اور مجوسی لوگوں کے عبادت خانے بھی ہیں۔ یعنی ہمارے اسلاف کس قدر قرآن مجید کی جامعیت پر وسیع نظر رکھنے والے تھے کہ انہوں نے صابیوں اور مجوسیوں کے عبادت خانوں کو بھی اس آیت کے حکم میں شامل کر لیا۔ آج ہم اپنے علاقے برصغیر کو دیکھیں تو ہندوئوں کے آشرم اور سکھوں کے گوردوارے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ''الصلوات‘‘ کے بارے میں امام مجاہدؒ کا قول حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں لائے ہیں کہ اس سے مراد اہلِ کتاب اور اہلِ اسلام کی ایسی عبادت گاہیں ہیں جو مسافروں کے لیے راستوں پر بنائی جاتی ہیں؛ البتہ مساجد کا لفظ مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔ یاد رہے! صابی مذہب کے لوگ آج بھی عراق میں موجود ہیں‘ جیسا کہ ہمارے مفسرین نے ان کو ''ستارہ پرست‘‘ کہا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ایک فرقہ ستارہ پرست ہو‘ ان کا ایک فرقہ جو آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہے‘ حضرت نوح علیہ السلام کو مانتا ہے۔ توحید پر ان کے عربی نغمے اور اللہ تعالیٰ کے وہ عربی نام میں نے خود دیکھ اور سن رکھے ہیں کہ جن کو قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے میں اپنے اسلاف‘ تابعی اور تبع تابعی مفسرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں قرآن مجید کا وہ فہم دے کر گئے جو وسیع النظر ہے۔ تنگ نظری ہمارے بعد کے کم فہم لوگوں کا کام ہے جو کم فہم ہی نہیں‘ کم علم بھی ہیں۔ بدقسمتی سے آج یہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہی لوگ ہجوم بناتے ہیں اور پھر اسے اشتعال دلاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک یہ کلچر اور چلن ختم نہ ہوگا‘ ہمارے دین اور دیس کی بدنامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
''سورۃ الحج‘‘ کی آیت 40 کے آخری حصہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا‘‘۔ جی ہاں! یہ جو میں نے ترجمہ کیا ہے یہ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے ''کنز الایمان‘‘ سے لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیت 40 کے پہلے حصے میں کون سا دین بیان ہوا ہے؟ صاف ظاہر ہے وہ تو سب اہلِ مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہے‘ لہٰذا جو ان کا تحفظ کرے گا‘ وہ اللہ کی مدد یعنی اللہ کے دین کی مدد کرے گا۔ اس لحاظ سے یہ عالی شان ترجمہ ہے۔ باقی مترجمین نے بھی اسی طرح ترجمہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کے جو سخت گیر علمبرداران دین ہیں وہ نہ اپنے ابتدائی بزرگان کرام کے راستے پر ہیں‘ نہ ساتویں‘ آٹھویں صدی ہجری کے بزرگان کرام کے راستے اور منہج پر ہیں اور نہ ہی ہمارے موجودہ بزرگان کرام کے منہج و راستے پر ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسالک کے وہ راہبر و رہنما‘ جو منبر و محراب کے وارث ہیں‘ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے محراب کا پیکر نہ ہجوم اکٹھا کرے اور نہ بربادی پھیلائے۔ کیسا ظلم ہے کہ ہماری مساجد‘ جو امن کا گہوارہ ہیں‘ وہاں سے بلند ہوتی آوازیں آج تک کتنے بے گناہوں کی جان لے چکی ہیں۔ ذمیوں کے گھروں، املاک اور عبادت گاہوں کو خاکستر کر چکی ہیں۔
آیت نمبر 41 کا ترجمہ یوں ہے ''وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں، تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لیے (ہے) سب کاموں کا انجام‘‘۔ اس کے حاشیہ میں نعیم الدین مراد آبادیؒ لکھتے ہیں: اس میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں تصرف عطا فرمانے کے بعد ان کی سیرتیں ایسی پاکیز رہیں گی... اس میں خلفائے راشدین کے عدل کی دلیل ہے۔ الغرض سید مودودیؒ ہوں یا مفتی محمد شفیعؒ، وہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ترجمہ ہو یا حافظ عبدالسلام بن محمدؒ کا‘ سب کا ترجمہ اور شرح یہی ہے۔ پھر اے وارثان محراب و منبر! ہم سوال کریں اپنے آپ سے کہ ہمارے ہجوم مساجد میں کیے گئے ہمارے اعلانات سے آئے روز بے گناہوں پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ باقی آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ!