اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے۔یہاں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی؛ چنانچہ آپﷺ کی یہاں آمد ایک حکمران کی حیثیت سے ہوئی۔ مدینہ منورہ میں یہود بھی آباد تھے۔ ان کے بڑے مؤثر قبیلے تھے‘ جن کی تعداد تین تھی۔ سیاسی، معاشی اور مذہبی اعتبار سے یہودی ایک مؤثر غلبے کے حامل تھے۔ حضور کریمﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے ان کی تمام حیثیتیں کافی نیچے چلی گئی تھیں؛ تاہم اس کے باوجود حضور کریمﷺ نے ان کو بنیادی انسانی حقوق بھی دیے اور مذہبی آزادی بھی عطا فرمائی۔ اس آزادی کا ایک واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اختصار کے ساتھ اورسنن ابودائود میں قدرے تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہودیوں کا ایک وفد حضور کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے حضور پاکﷺ کو اپنے ہاں تشریف لانے( اور ایک فیصلہ کرنے کی) دعوت دی؛ چنانچہ آپﷺ ان کے محلے ''وادی قف‘‘ میں تشریف لے گئے۔ وہاں ان کے ''بیت المدراس‘‘ میں جب پہنچے تو انہوں نے حضور کریمﷺ کی خدمت میں ایک تکیہ پیش کیا جس پر آپﷺ تشریف فرما ہو گئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے تورات منگوائی، جب تورات کا نسخہ لایا گیا تو حضور کریمﷺ نے اپنے نیچے سے تکیہ نکالا اور اس پر کتابِ مقدس کو رکھ دیا اور پھر تورات کو مخاطب کر کے فرمایا''میں تجھ پر بھی ایمان لایا اور اس ذات (اللہ تعالیٰ) پر بھی‘ جس نے تجھے نازل فرمایا‘‘۔ (سنن ابودائود:4449، اسنادہٗ حسن، صحیح بخاری، صحیح مسلم)
قارئین کرام ! میں نے مذکورہ واقعہ کی بنیادی تفصیل سنن ابو دائود شریف سے لی‘ اسی لیے اولین حوالہ اسی کا لکھا ہے۔ وہ مقدمہ کیا تھا، اس پر کیا فیصلہ ہوا‘ یہ ساری تفصیل قصداً حذف کر دی ہے۔ قضیہ کیا تھا اور کیا فیصلہ سنایا گیا‘ اس کی تفصیل صحیحین یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ سے اہلِ وطن کو صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ ہمارے حضور کریمﷺ نے تورات کی اس قدر عزت کی کہ اپنے نیچے سے گدا یا تکیہ یا مسند کو نکالا اور اس پر تورات کو رکھا۔ حالانکہ آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید میں حضور کریمﷺ کو بتایا دیا گیا تھا کہ اس میں تحریف یعنی تبدیلی کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ اس میں ہدایت اور نور( کی باتیں اب بھی ایک حد تک موجود ہیں) جی ہاں! دونوں چیزیں موجود ہیں‘ لہٰذا ہمارے حضور کریمﷺ نے مثبت پہلو کو سامنے رکھا اور منفی کو نظرانداز کر دیا اور تورات کی عزت کرکے اپنی سیرت مبارکہ کا ایسا ترکہ انسانیت کے لیے چھوڑا جسے ''اسوۂ حسنہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
لوگو! اگلی بات بڑی زبردست اور دلچسپ ہے کہ یہودی لوگ اپنے مقدمے کا فیصلہ تورات کے مطابق نہیں چاہتے تھے جبکہ حضور کریمﷺ نے تورات منگوا کر یہود کے مقدمے کا فیصلہ تورات کے مطابق ہی کیا۔ اللہ اللہ! امیر حمزہ ثابت یہ کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے حضور عالیشانﷺ نے تورات کو جو عزت دی‘ وہ یہودیوں نے بھی نہیں دی۔(1) حضور کریمﷺ نے اپنے آرام کے مقابلے میں تورات کی عزت و حرمت کو مقدم رکھا۔(2)تورات کے مطابق حکم سنا کر ان کے مقدمے کا فیصلہ کیا یعنی تورات کو نافذ کرکے تورات کی وہ عزت افزائی کی جو یہودی بھی نہیں کر رہے تھے۔(3) حضور سرکارِ مدینہﷺ نے یہودیوں کو اس قدر عزت دی کہ اپنی سرکار اور اپنے دربارِ عالیہ میں بلانے کے بجائے ان کے علاقے میں تشریف لے گئے، یعنی تورات کو بھی عزت دی اور اہلِ تورات کو بھی تکریم سے نوازا...
میں صدقے‘ قربان اپنے ایسے عظیم اور مہربان رسولﷺ پر، کائناتوں میں جس قدر ذرات اور ذیلی ذرات ہیں‘ ان کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں درود و سلام ایسے ''رحمۃ للعالمین‘‘ پر کہ جن کی حکمرانی کے انداز کو چومنے ساتوں آسمانوں کے فرشتے قطار اندر قطار نازل ہوا کرتے تھے۔ کہاں وہ ذاتِ عالی مقام اور کہاں ہم جیسے محبان اور عاشقان‘ جو عشق کا صرف دعویٰ کرتے ہیں اور جنہوں نے جڑانوالہ میں 20 کے قریب گرجوں کو جلا دیا، سینکڑوں گھروں کو نذرِ آتش کر دیا۔ ان گرجوں اور مسیحی لوگوں کے گھروں میں ان کی ''کتابِ مقدس‘‘ بھی تھی جسے ''بائبل‘‘ کہا جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ بائبل انجیلِ مقدس نہیں ہے۔ یہ دراصل تمام صحائف کا مجموعہ ہے۔ بائبل کا آغاز تورات کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد زبور اور دیگر انبیاء کے صحائف ہیں۔ آخر پر انجیل کے چار نسخوں کے ساتھ بائبل مکمل ہوتی ہے۔ یعنی گرجا گھروں اور مسیحیوں کے گھر جلانے والوں نے نجانے کتنی بڑی تعداد میں تورات، انجیل، زبور اور دیگر آسمانی صحائف کو نذرِ آتش کر دیا۔ ایسے لوگوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ختم المرسلینﷺ کا تورات بارے اسوہ اور آپﷺ کی بابرکت سیرت کو دیکھ لیں اور اس سیاہی کو بھی دیکھ لیں کہ جو اپنے مذموم فعل سے انہوں نے اپنے چہروں پر تھوپ لی ہے۔ اس فعل سے انہوں نے اسلام کو بھی بدنام کیا، وطن عزیز کو بھی اور اہلِ پاکستان کو بھی بدنامی سے دوچار کیا۔
ہجرت کے آٹھویں سال مکہ مکرمہ فتح ہوا، اس فتح کے بعد کے نویں سال کو وفود کی آمد کا سال کہا جاتا ہے۔ سارے جزیرہ نما عرب سے قبائل اور ان کے سربراہان مدینہ منورہ حاضری دینے آ رہے تھے۔ جو ق در جوق لوگ مسلمان ہونے آ رہے تھے، کم ہی عرب قبائل ایسے تھے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ اپنی اطاعت کا دم بھرنے اور جزیہ دینے آ رہے تھے مگر یہاں آکر جب وہ ریاستِ مدینہ کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو مسلمان ہو کر پلٹ رہے ہوتے۔ انہی میں ایک وفد نجران سے بھی آیا تھا۔ اس وفد کی آمد کا نقشہ حضرت محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ نے خوب کھینچا ہے۔
امام محمد بن اسحاق 85ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اللہ کے آخری رسولﷺ کے خادم صحابی حضرت انس بن مالک ؓ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اس لحاظ سے یہ تابعی ہیں۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے غلام حضرت نافع رحمہ اللہ سے دین کا علم حاصل کیا۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ مشہور تابعی ابن شہاب زہری مدنی کے استاذ بھی ہیں۔ امام محمد بن اسحاق کی سیرت کی کتاب کے نثری حصے کو امام ابن ہشام نے ''سیرتِ ابن ہشام‘‘ میں شامل کیا۔
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ امام ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھے محمد بن جعفر بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب حضور کریمﷺ عصر کی نماز ادا فرما چکے تو مدینہ منورہ میں نجران سے ایک وفد آیا۔ اس وفد کے لوگوں (کو جب پتا چلا کہ سرکارِ مدینہ مسجد میں تشریف فرما ہیں) تو یہ لوگ مسجد میں آ گئے۔ ان کی عبادت کا بھی وقت ہو چکا تھا؛ چنانچہ انہوں نے حضورﷺ کی مسجد‘ یعنی مسجدِ نبوی میں ہی عبادت کرنا شروع کر دی( کچھ لوگوں نے اعتراض کیا) تو حضور کریمﷺ نے فرمایا: انہیں کچھ مت کہنا۔ ان لوگوں نے مشرق (القدس ) کی طرف رخ کرکے (اپنے طریقے سے) نماز ادا کی۔ حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے ''احکامِ اہل الذمہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضور کریمﷺ کے حوالے سے(مندرجہ بالا) روایت صحیح ہے۔ حافظ ابن قیم اس واقعہ کو اپنی معروف کتاب ''زاد المعاد‘‘ کی فصل ''قدوم وفد نجران‘‘ میں بھی لائے ہیں۔ حافظ ابن کثیر اسی واقعہ کو اپنی معروفِ زمانہ ''تفسیر ابن کثیر‘‘ میں لائے ہیں(جلد: 2،صفحہ: 42، طبع دارالکتب العلمیہ) اگر کوئی براہ راست سیرت ابن اسحاق میں ملاحظہ کرنا چاہے تو 1/574میں دیکھ لے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ بھی اپنی تفسیر میں اس واقعہ کو لائے ہیں۔(جلد: 2، صفحہ: 171)۔
جڑانوالہ کے سانحہ میں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کچھ لوگوں نے ایک وفد ترتیب دیا‘ اس نے مسیحی برادری کے پادری کے پاس جا کر پیشکش کی کہ آپ کا چرچ جل چکا ہے‘ جب تک وہ اصل حالت میں نہیں آ جاتا‘ وہ درست نہیں ہو جاتا تب تک آپ ہماری مسجد میں آ کر اپنی عبادت کر لیں۔ یہ واقعہ بین الاقوامی سطح پر بھی رپورٹ ہوا ہے۔ اس سے صرف جڑانوالہ ہی نہیں‘ پورے پاکستان اور اہلِ علم کا مثبت اور روشن چہرہ دنیا کے سامنے آیا جو اندھیرے میں مرکری کا بلب بن کر روشن ہوا۔ کیا شک ہے ہمیں روشنی ملے گی تو حضور پاکﷺ کی سیرت سے، ہمارا کردار ہمارے دین اور ہمارے دیس پاکستان کو جگمگائے گا تو حضور کریمﷺ کی پاک اور مبارک سیرت سے‘ اسی سے ہمارا کردار اپنے دین اور دیس کو جگمگاتے ہوئے نور پھیلائے گا۔ جڑانوالہ اور گردو نواح کے جن علاقوں کے لوگوں نے ہماری پاکستانی مسیحی برادری کو تحفظ دیا‘ چرچوں کو بچایا‘ گھروں کو محفوظ کیا‘ ایسے لوگوں کو ایوارڈ ملنا ضروری ہے۔ جن لوگوں نے مسجدوں میں اعلانات کیے‘ جتھوں کو تیار کیا‘ بے قصور افراد کی املاک کو نقصان پہنچایا‘ ان کی املاک کو بیچ کر نقصانات کا ازالہ کیا جائے تاکہ آئندہ کے لیے یہ سزا عبرت کا سامان بنے۔ اس فساد میں لوٹ مار بھی شامل تھی، حکومت کو چاہئے کہ ہر ایک کے نقصان کا بھرپور ازالہ کرے۔ یاد رہے کہ مسیحی لوگوں کے بھی متعدد فرقے ہیں، اریسی (آریوسی) فرقے کا ذکر حضور کریمﷺ نے اپنے ایک خط مبارک میں فرمایا ہے۔ اس فرقے کے لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ اللہ کا بندہ اور رسول مانتے ہیں۔ آج کے دور میں خدا کو ''یہوہ‘‘ کہنے والے مسیحی بھی ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ الغرض! ان کے عقائد باہم جو بھی ہوں‘ ہمارے حضور کریمﷺ نے ان کی تکریم کی ہے لہٰذا ان کی حفاظت اور تکریم اب ہمارے ذمے ہے‘ اس کو توڑنا حضور کریمﷺ کے دیے ہوئے ذمہ کو توڑنے کے مترادف ہے۔