اللہ ذوالجلال والاکرام کا آخری الہام ''قرآن ذی شان‘‘ ہے۔ ارشادِ گرامی ہے ''اس شخص سے بڑھ کر گفتگو کے اعتبار سے بہترین کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور اپنا کردار کمال کی بلندیوں تک پہنچائے‘‘ (حم السجدہ: 33)۔ اس کے بعد آیت نمبر 37 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کریمﷺ کے ذریعے ساری انسانیت کو توحید کی دعوت یوں دی‘ فرمایا ''نہ ہی سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کے سامنے سجدہ ریزی کرو۔ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا فرمایا‘‘ (حم السجدہ: 37)
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے؛ 1۔ شمس، 2۔ قمر۔ یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ دو چیزوں کو تثنیہ کہا جاتا ہے اور دو سے زیادہ یعنی تین یا تین سے زائد چیزیں ہوں تو تب ان کے لیے جمع کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر کیا یعنی سورج اور چاند کا مگر ان دو کے لیے ضمیر جمع کا استعمال فرمایا۔ میں یہاں قرآنِ مجید کا لفظ لکھ رہا ہوں تاکہ بات خوب واضح ہو جائے۔ ''خَلَقَھُنَّ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام سورجوں اور چاندوں کو پیدا فرمایا۔ سبحان اللہ! عربی زبان کے ایک قرآنی لفظ کی ترجمانی کے لیے ہمیں ایک لمبا جملہ لکھنا پڑا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر واحد بول کر جمع مراد لی گئی ہے۔ عربی زبان کا یہ ایک قانون ہے جو قرآنِ مجید میں نظر آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے انسانی رہنمائی کی حامل آخری آسمانی کتاب میں آگاہ فرما دیا کہ چاند بھی بے شمار ہیں اور سورج بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سیارہ زُحل کے دو چاند ہیں جن میں سے ایک کا نام ''ٹیٹان‘‘ ہے۔ جیو پیٹر (مشتری) سیارے کے چھ سو چاند ہیں۔ مرکری اور وینس کا چاند ہے ہی نہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں 2023ء تک 297 چاند دریافت ہو چکے ہیں۔ ہماری گلیکسی کا نام ملکی وے ہے‘ اس میں ''ناسا‘‘ کے اندازے کے مطابق کم از کم دس ارب سیارے ہیں۔ہر ایک کا اگر اوسطاً ایک چاند ہو تو یہ دس ارب چاند بنتے ہیں۔ اسی طرح ملکی وے میں 300ارب سورجوں کا اندازہ ہے۔ ان میں UY Scuti نامی سورج ہمارے سورج سے لگ بھگ 170 گنا بڑا سورج ہے۔ جی ہاں! لاتعداد گلیکسیوں کے سورجوں اور چاندوں کا اندازہ لگائیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ سورج بھی لاتعداد ہیں اور چاند بھی اَن گنت اور بے شمار ہیں۔صدقے اور قربان حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے عظیم قرآن پر کہ وہاں پہلے ہی یعنی ساڑھے چودہ سو سال قبل آگاہ کردیا گیا کہ سورج بھی لاتعداد ہیں اور چاند بھی بے شمار ہیں لہٰذا اے انسانو! ان کی عبادت مت کرنا‘ عبادت اور سجدہ ریز اس ذات کے سامنے ہونا جس نے ان تمام کو پیدا فرمایا۔ اس حوالے سے سورت کا نام بھی ''حم السجدہ‘‘ ہے۔
ہماری کائنات میں ''ڈارک میٹر‘‘ کا وجود بھی سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے۔ سوئٹزر لینڈ اور فرانس کی سرحد پر ''سرن‘‘ (CERN) نامی مقام پر جولیبارٹری قائم کی گئی اسے لارج ہیڈرون کو لیڈر (Large Hadron Collider) کہا جاتا ہے۔ یہاں تجربہ ہوا ہے، ''جیمز ویب سپیس دوربین ‘‘ نے ڈارک میٹر پر مبنی ایک سٹار دریافت کر لیا ہے۔ ناسا نے اس کی تصویر بھی جاری کردی ہے۔ یاد رہے کہ یہ جو کائنات ہمیں نظر آتی ہے یہ ہم سب انسانوں کے اجتماعی تصور سے بھی کہیں بڑی ہونے کے باوجود ڈارک میٹر کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد ہے۔ ستر فیصد ڈارک انرجی ہے جبکہ 25فیصد ڈارک میٹر ہے۔ ڈارک کا مطلب سیاہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس لیے ہماری آنکھوں کے لیے یہ ڈارک ہے۔ جو ڈارک میٹر کا سٹار اب دریافت ہوا ہے‘ اس کی روشنی ہمارے سورج سے کھربوں گنا زیادہ ہے۔ ذرا تصور کیجئے! کل کو ڈارک میٹر کے اگر چاند سامنے آ گئے تو ان کی روشنی کیسی ہوگی اور کس قدر ہو گی یہ آنے والا سائنسی دریافتوں کا دور ہی بتائے گا...اللہ اللہ! جو بھی دریافت ہوتا جائے گا‘ ہمارے حضور کریم ﷺ پر نازل ہونے والے عظیم قرآن کا پیغام یہ ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے لہٰذا کسی کی چمک دمک جس قدر بھی ہو‘ اس سے استفادہ جس قدر بھی ہو‘ سجدہ صرف اور صرف اسی ایک ذات کے لیے ہے جو ان سب کی خالق و مالک ہے۔
ہندوستان آزاد ہوا تو پاکستان اور بھارت کے نام سے دو ملک معرضِ وجود میں آئے۔ پاکستان نے اپنا خلائی ادارہ ''سپارکو‘‘ کے نام سے قائم کیا، ایک خلائی راکٹ بھی لانچ کردیا۔ چند سال بعد انڈیا نے بھی اپنا خلائی ادارہ''اصْرُو‘‘ (Indian Space Research Organisation (ISRO)) کے نام سے قائم کردیا۔ سائنسی اور معاشی میدان میں ہم خرگوش تھے تو انڈیا کچھوا تھا مگر ہم چھلانگیں مارنے کے بجائے سو گئے جبکہ کچھوا رینگتے رینگتے ہم سے آگے بڑھ گیا۔ اس نے 1979ء میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکا کیا‘ اس دھماکے سے ہمیں جگا دیا اور پھر ہم نے بھی دھماکے کرکے تعداد میں ہی اپنے آپ کو بھارت سے آگے نہ کیا بلکہ بہتر ایٹمی ٹیکنالوجی کا اظہار کرکے بھارت کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ سو گئے۔ ہماری آنکھ تب کھلی جب ''اصرو‘‘ کا ''چندریان‘‘ چاند کے سائوتھ پول پر لینڈ کر گیا۔ امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا چوتھا ملک ہے جس کا مشن چاند پر پہنچا ہے۔ ہمیں اب خلائی سائنس کے میدان میں پھر رفتار پکڑنی ہے مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی رفتار کچھوے کی نہیں رہی، یوں سمجھنا چاہئے کہ جو ہماری رفتار تھی یعنی خرگوش کی طرح چوکڑیاں بھرنے کی تھی‘ وہ اب بھارت کی ہو چکی ہے، لہٰذا ہمیں اپنی رفتار کو بڑھاتے ہوئے اب ہرن اور چیتے کی رفتار سے چاند پر جانا ہو گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا نظام کر پشن زدہ ہے‘ سیاسی اور سماجی ڈھانچہ زوال پذیر ہے۔ اقربا پروری کا چلن ہے۔ نظام عدل و انصاف ظلم و زیادتی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ الزامات اور بدتمیزی کا تمدن رواج پا چکا ہے۔ اجتماعی مفاد کو قربان اور ذبح کرکے ذاتی مفاد اولین ترجیح بن چکا ہے۔ چیتے کی رفتار کیسے ممکن ہے؟ میں کہتا ہوں کہ قومیں احساسِ زیاں سے بھی اٹھتی ہیں۔ زیاں کا احساس ہوچکا ہے۔ عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ ہم ان شاء اللہ آگے بڑھیں گے۔ تقریریں کریں گے‘ تحریریں لکھیں گے‘ زیاں کا احساس دلائیں گے۔ عمل درآمد کے ذمہ داران قرآنِ مجید پڑھتے جائیں۔ اخلاقی مٹھاس سے کام لے کر ٹیڑھوں کو سیدھی راہ پر چلاتے جائیں۔ نہ چلیں تو ڈنڈے کا ڈر اور خوف دلاتے جائیں۔ ہماری رفتار ہرن اور چیتے کے برابر ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
میری تجویز ہے‘ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ پاکستان کو ''سائنس لَور منصوبہ‘‘ دیا جائے۔ اس منصوبے یا ڈاکٹرائن کے تحت ''سپارکو‘‘ کو بھی متحرک کیا جائے۔ انتظامی اور عدالتی ڈھانچے کو بھی سائنسی بنیاد فراہم کی جائے۔ تعلیم کو پیش نظر رکھ کر تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے۔ دفاعی نظام ہمارا عالیشان ہے مگر مذکورہ منصوبے میں اسے مزید چار چاند لگائے جائیں۔ ہمارا زمینی چاند‘ جو ہمارے زمینی سیارے کے گرد گردش کرتا ہے‘ اس پر ایسے سٹیشن بنانے کے پروگرام ہیں کہ وہاں سے مریخ اور باقی جہاں میں جایا جا سکے۔
''چندرا‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ ہندومت میں اسے چاند دیوتا بھی کہا جاتا ہے۔ اسے ''سوما‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چندراما اور چاند بھی کہا جاتا ہے۔ انڈیا میں چاند کی پوجا کے الگ سے مندر ہیں۔ چاند سے مدد مانگنے کا بھی ایک منتر ہے۔
اس وقت آرمی چیف محترم جنرل عاصم منیر ملکی معاشی بہتری کے لیے سرگرداں اور کوشاں ہیں۔ ان کی کوشش سے اعلان ہونا چاہئے کہ ہمارا قرآن تسخیرِ کائنات کی بات کرتا ہے۔ چاند بے شمار ہیں ہم کئی چاندوں پر جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کا پرچم سبز ہلالی ہے۔ اس پرچم کے سائے میں تقریب ہو۔ قرآنِ مجید کی تلاوت ہو۔ اجرامِ فلکی کو مسخرکرنے کا پلان ہو۔ دعا ہے کہ سبز ہلالی پرچم سدا لہراتا رہے‘ پاکستان زندہ باد!