اللہ رحمان سے ملاقات کی خواہش تھی‘ اسماعیل ہنیہ کی تمنا تھی کہ اللہ انہیں شہادت کی موت عطا فرما دے۔ تہران شہر میں 31 جولائی کا آغاز ہوا‘ رات کے دو بج چکے تھے اور تہجد کا وقت تھا جب اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اب وہ ملاقات کے لیے اپنے اللہ کے سامنے ہیں۔ ساڑھے تین ماہ قبل‘ عید الفطر کے روز ان کے تین بیٹے‘ تین پوتیاں اور ایک پوتا غزہ میں ایک ٹارگٹڈ اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ فی الفور اسماعیل ہنیہ کو دو اعزازات ملے۔ وہ شہیدوں کے باپ بھی بن گئے اور شہیدوں کے دادا بھی۔ اس واقعہ سے قبل بھی ان کے قریب ترین عزیزوں کو شہید کیا گیا‘ جن کی تعداد 60 سے زائد ہے۔ اب وہ خود شہید ہوئے ہیں تو ان کی بہو کے ایمان افروز جملے دنیا بھر میں گونج رہے ہیں۔ اس بہو کا نام ''ایناس ہنیہ‘‘ ہے۔ وہ ایک شہید کی بیوہ اور دو شہید بچیوں کی ماں ہے۔ بولے گئے عربی جملوں کو سنا‘ پھر ریسرچ کرکے ان جملوں کی عربی تحریر کو نکالا۔ اردو میں ترجمہ ملاحظہ ہو: ''ہم مطمئن دلوں کے ساتھ اللہ کی رضا اور تقدیر پر راضی ہیں۔ میں ایسی شخصیت کے لیے تعزیت کا اظہار کر رہی ہوں جس نے اپنے (آزاد فلسطین کے) نظریے کی خوشبو کے ساتھ آسمان وزمین کو بھر دیا تھا۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جنہیں تعریف کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے پیارے چچا کے لیے تعزیت کا اظہار کرتی ہوں‘ جو مجھے بے حد پیارے تھے۔ وہ میرے والد تھے۔ وہ میرے سر کا تاج تھے۔ وہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ اب وہ ایسے شہید مجاہدین سے ملیں گے جو صادقین تھے‘ برکتوں والے تھے۔ وہ اب اپنے شہید بیٹوں سے ملاقات کریں گے۔ اپنے پاکیزہ خونِ شہادت کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ وہ شہادت کے علمبردار لیڈر تھے۔ ایک بڑے اور بہادر رہنما تھے۔ ''ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے‘‘۔ (یہ رسول اکرمﷺکا اپنے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کی وفات پر فرمایا گیا جملہ ہے‘ ہم بھی اسی فرمان کو سامنے رکھ کر کہتے ہیں) آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ اے ابو العبد (اسماعیل ہنیہ) دل تمہاری جدائی سے دکھی ہو گیا ہے۔ ہمارا رب ہم لوگوں کو ہماری مصیبت پر اجر عطا فرمائے۔ بہتر حالات عطا فرمائے۔ درد بہت بڑا ہے مگر اطمینان اس لیے ہے کہ یہ دنیا چند روز کا کھیل ہے لہٰذا جنت میں ان شاء اللہ ملاقات ہو گی۔ وہ جنت کہ جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ ہے۔ ہم فلسطینیوں کے رہنما کو الوداع کہتے ہیں۔ ہم امت کے قائد کو الوداع کہتے ہیں‘‘۔
چند دن قبل اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے جو موت سے محبت کرتے ہیں۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ ساری دنیا نیتن یاہو کا جو جملہ سن رہی ہے چند دن کے بعد اس کا سبب نیتن یاہو کے لوگ ہی بنیں گے۔ دنیا نے تو پہلے بھی احتجاج کیا تھا کہ جس شخص کو عالمی عدالتِ انصاف جنگی جرائم کا مجرم قرار دے چکی ہے وہ شخص گرفتار ہونے کے بجائے امریکی کانگریس سے خطاب کرنے جا رہا ہے۔ خود امریکہ کے بہت سارے اہلِ ضمیر نے اس پر احتجاج کیا۔
تہران میں جس طرح محترم اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا‘ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ اب یہ لگنے لگا ہے کہ یران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی کو بھی ایسے ہی صہیونیوں نے راہ سے ہٹایا کیونکہ سنی اور شیعہ مل کر آزاد القدس کی راہ پر چل رہے تھے۔ ابراہیم رئیسی اور اسماعیل ہنیہ کا راستہ ایک تھا۔ اہلِ اسلام یکجا ہونے کی جانب چل پڑے‘ جو نیتن یاہو کے وارے میں نہ تھا۔ چنانچہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری تھی‘ اسماعیل ہنیہ کو مکمل یقین دہانی کرائی گئی کہ ہم پہلے سے بڑھ کر آزاد القدس کی تحریک میں اکٹھے چلیں گے۔ یہی جرم تھا اسماعیل ہنیہ کا۔ اب ایران کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اہلِ فلسطین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ لوگو! ذرا غور کرو کہ نیتن یاہو نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر بیان جاری کیا کہ ہمارا اس حادثے سے کوئی تعلق نہیں مگر تھوڑی دیر بعد اسرائیل کے وزیر ثقافت ''Amihai Eliyahu‘‘ جو ''Otzma Yehudi‘‘ نامی انتہا پسند پارٹی سے تعلق رکھتا ہے‘ نے بیان جاری کیا کہ دنیا کی تطہیر کے لیے یہی درست طریقہ ہے جو اسماعیل ہنیہ کے بارے میں اپنایا گیا۔
ذرا سوچئے کہ کس قدر سخت بیان ہے۔ کوئی پتھر دل انسان بھی کسی کی موت پر ایسا بیان نہیں دے سکتا کہ اس دنیا سے جانے والے کے غمزدہ خاندان کے دل پر کیا بیتے گی۔ مرنے والی کی ایک بیوہ ہے‘ دکھیاری بیٹیاں ہیں‘ بیٹے اور بہویں ہیں۔ پوتے‘ پوتیاں اور نواسے‘ نواسیاں ہیں۔ بھائی‘ بہنیں اور پھر اسماعیل ہنیہ سے پیار کرنے والے تو کروڑوں ہیں۔ کروڑ ہا لوگوں کے دلوں پر یہ خنجروں کے وار نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں ان کی سخت دلی کے بارے میں ہم اہلِ اسلام کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان کے دل پتھروں جیسے ہیں۔ پھر فرمایا کہ پتھروں سے بھی کہیں زیادہ سخت ہیں کیونکہ بعض پتھر بھی ایسے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے پھٹ پڑتے ہیں۔ ادھر ادھر گر جاتے ہیں‘ ان سے چشمے رواں ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ ندی نالے سخت چٹانوں کے آنسو ہیں جو زمین پر بہہ رہے ہیں۔
قرآنِ مجید کے بعد احادیث کی کتابوں میں صحیح البخاری اور صحیح المسلم کو صحیح ترین مانا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ ریاست مدینہ کے حکمران ہمارے حضورﷺ‘ جو عالمین کے لیے رحمت بن کر آئے‘ ایک بازار میں موجود تھے کہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ آپﷺ کھڑے ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ بھی کھڑے ہو گئے۔ کسی نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا وہ انسانی جان نہیں ہے؟ یعنی انسانی جان کے جو رشتے ہیں‘ ہمارے حضورﷺ ان رشتوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار فرما رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ''موت گھبراہٹ پیدا کرنے والی شے ہے‘‘۔ جی ہاں! پسماندگان کے دل دکھی ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ان کے دکھ اور دلی گھبراہٹ کو کم کرنا انسانیت کا تقاضا ہے۔ اس تقاضے سے آگاہ کیا ہے حضور رحمت دوعالمﷺ نے۔ لوگو! یاد رکھو یہ تقاضے ختم ہو جائیں گے تو دنیا بدامنی کا جنگل بن جائے گی۔ ہمیں اس کو امن کا گہوارا بنانا ہے نہ کہ دہشت گردی اور عدم برداشت کا جنگل‘ جو ظلم اور حیوانیت کی بدبو سے بھر جائے۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ غیر مسلم کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا منسوخ ہو گیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ منسوخ بھی مان لیں تو بھی ہمدردی اور تعزیت منسوخ نہیں ہوئے۔ ان سب کے ساتھ حضورﷺ کے کریمانہ اخلاق کی دائمی خوشبو تو آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔
میں نے اسماعیل ہنیہ کا انٹرویو سنا۔ فرما رہے تھے کہ میرے والد مسجد میں اذان دیتے تھے۔ میں چھ سال کا تھا جب وہ مجھے اپنے ساتھ مسجد میں فجر کے وقت لے جاتے تھے۔ میں تب سے فجر کی نماز باجماعت پڑھ رہا ہوں۔ سترہ سال کی عمر میں کہ جب اسماعیل ہنیہ حافظ قرآن بنے تو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ اسی دوران خطبۂ جمعہ دینا بھی شروع کر دیا۔ بتا رہے تھے کہ بچپن سے ہی شیخ احمد یٰسین شہید کے خطبات سنتا تھا۔ ان کے کپڑے غبار آلود ہوتے تھے مگر نگر نگر دعوتِ دین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کی راہ ہموار کرنے کے مشن پر لگے ہوئے تھے۔
جنگ موتہ میں حضرت زیدؓ بن حارثہ شہید ہوئے تو حضرت جعفر طیارؓ نے لشکر کا عَلم اٹھا لیا۔ وہ شہید ہوئے تو حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے لشکر کا جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ شہید ہوئے تو حضرت خالدؓ بن ولید لشکر کی قیادت کرنے لگے۔ قیادت کا یہ کارواں نہ کبھی تھما تھا نہ آئندہ تھمے گا‘ ان شاء اللہ!