انرجی کرائسس کو سمجھنے کی ضرورت ہے!

نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ملین ڈالر سوال یہی گردش کر رہا ہے کہ کیا نومنتخب حکومت لوڈ شیڈنگ کے بحران کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ کیا انرجی کرائسس پر قابو پایا جا سکے گا؟ یہ سوالات بنیادی طور پر ماہرین کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس بحران کے بنیادی اسباب سمجھے جائیں اور کچھ عوام میں زیربحث ان تھیوریز پر بات کی جائے جو ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے گردش کرتی ہیں۔ ٭پچھلے کچھ عرصے میں مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بارہا ملا جس میں بعض دلچسپ دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ استدعا کی گئی کہ اس میسج کو اتنا پھیلائیں کہ یہ چیف جسٹس صاحب تک پہنچ جائے اور وہ نوٹس لے لیں۔ دعوے دلچسپ ہیں۔ یہ کہا گیا: ’’چین نے پاکستان کو پیش کش کی ہے کہ وہ اتنی زیادہ بجلی سستے داموں دینے کو تیار ہے کہ ہر گھریلو صارف کا کل ماہانہ بل صرف تین سو روپے آئے گا۔ ہماری بدعنوان حکومتیں اور انتظامیہ اس سنہری پیش کش کو قبول نہیں کر رہیں کہ پرائیویٹ پاور پلانٹس لگانے اور دیگر معاملا ت میں ان کے لیے کرپشن اور کک بیکس وغیرہ لینے کے امکانات ہیں‘‘۔ معلوم نہیں چین کی یہ پیش کش حکومت پاکستان، سرکاری حکام اور عالمی میڈیا تک پہنچے بغیر ان صاحب تک کس طرح براہ راست پہنچ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے میسجز صریحاً جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ چین کہاں سے بجلی دے گا؟ بجلی سوٹ کیسوں میں یا آئل ٹینکروں میں بھر کر تو نہیں بھیجی جاتی۔ پھر چین کی اپنی انرجی کی بے پناہ ضرورتیں ہیں، وہ اس سے پوری ہو نہیں رہیں، ہمیں کہاں سے دے گا؟۔ اتنی سستی بجلی تو دنیا میں کہیں بھی نہیں کہ ڈھائی تین سو روپے ماہانہ بل آئے۔ ایسی بے بنیاد باتوں سے معلوم نہیں ہم کس کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں؟ ٭ دوسرا دعویٰ ایران کے بارے میں ہے کہ وہ ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی دینے کو تیار ہے مگر پاکستان اس کے لئے تیار نہیں، اگر ہم چاہیں تو فی الفور ایران سے بجلی لے کر لوڈ شیڈنگ ختم کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہیں۔ یہ تو ٹھیک بات ہے کہ ایران بجلی دینا چاہتا ہے مگر اپنی شرائط پر۔ ہم بھولے لوگ ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح انفرادی معاملات میں دوست ایک دوسرے کو ریلیف دے دیتے ہیں، ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں، ممالک کی سطح پر بھی ایسا ہوتا ہو گا۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔ دوستی اپنی جگہ مگر ہر ملک کاروبار کو کاروبارکے انداز میں دیکھتا ہے۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی سہی، مگر چینی بھی کاروبار کے پکے ہیں۔ ہمارے ایرانی بھائی بھی اپنی تمام تر محبت کے باوجود پورے پروفیشنل انداز سے ڈیل کرتے ہیں۔ ایران شدید بحران میں ہے، اقتصادی پابندیاں ہیں، اس کی گیس کا خریدار کوئی نہیں، پھر بھی جو گیس وہ ہمیں دے رہا ہے وہ کوئی زیادہ سستی نہیں، پٹرول کا 78 فیصد بنتی ہے جبکہ اگر ترکمانستان گیس پائپ لائن (تاپی پروجیکٹ) پر عمل ہو تو وہاں سے گیس ہمیں قدرے سستی ملے گی۔ یہ ان کا حق ہے، اس پر ہمیں گلہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ایران کے ساتھ گیارہ سو میگاواٹ بجلی کی بات چلتی رہی، پاکستان میں ایرانی سفیر یہ دعوے کرتے رہے کہ ہم بائیس سو میگاواٹ بجلی دے سکتے ہیں۔ بات پھر وہی کہ اس کی قیمت اتنی کم نہیں ہو گی کہ عام صارف اور انڈسٹری کو سستی بجلی مل سکے۔ پھر ایرانی بجلی ہمارے نیشنل گرڈ تک پہنچانے میں سینکڑوں میل تک ٹرانسمشن لائن بچھانی ہوں گی، ان پر کروڑوں ڈالر کاسٹ آنے کے ساتھ ساتھ ڈھائی تین سال کا عرصہ درکار ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں جو شورش ہے اس کے پیش نظر یہ خدشہ بھی رہے گا کہ کسی شدت پسند نے راکٹ مار کر کوئی ٹاور اڑا دیا تو بجلی گھنٹوں، دنوں تک منقطع ہو جائے گی۔ اس آپشن پر غور ہونا چاہیے مگر صورتحال اتنی آسان نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے۔ ٭ ہمارے مسئلہ بڑا واضح ہے۔ دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے تین چار بڑے سورس ہیں۔ سب سے سستا ہائیڈل یعنی پانی سے بجلی تیار کرنا ہے۔ دوسرا تھرمل پلانٹس کے ذریعے بجلی پیدا کرنا ہے، یہ پلانٹس فرنس آئل، گیس یا پھر کوئلے سے چلتے ہیں۔ تیسرا طریقہ نیوکلیئر پلانٹس کے ذریعے بجلی بنانا ہے۔ اس وقت ہماری بجلی کا زیادہ حصہ تھرمل سے بنتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں تمام آئی پی پیز پروجیکٹس تھرمل تھے۔ جس ملک کا تیل اپنا ہو، وہاں تو تھرمل اچھی آپشن تھی مگر ہمارے جیسے ملک کے لئے یہ رسک ہی تھا۔ وہی ہوا۔ پہلے تو حالات نارمل تھے، نائن الیون کے بعد سے آئل مہنگا ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں بجلی کی کاسٹ بڑھتی گئی۔ ان معاہدوں کے تحت آئل فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، ہر سال سینکڑوں ارب روپے اس کے لئے درکار ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ بجلی کی کاسٹ اتنی زیادہ ہے کہ اسے ان نرخوں پر عام آدمی یا انڈسٹری کو بیچا نہیں جا سکتا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اٹھارہ بیس روپے میں ایک چیز بنا کر اسے دس میں بیچی جائے۔ کاسٹ کم کرنے کے لئے ہم نے بعض پلانٹ گیس پر شفٹ کئے مگر ملک میں گیس بھی کم ہو چکی ہے اس لئے بات نہیں بن رہی۔ کوئلہ ایک آپشن تھی، ہمارے پاس تھر میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر ہیں مگر بدقسمتی سے وہ گھٹیا کوالٹی کا کوئلہ ہے، بجلی پیدا کی جائے تو اس کوئلے کی راکھ کے پہاڑ بن جائیں گے، یوں کئی ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کوئلے کو زیر زمین جلا کر گیس بنا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر قابل احترام شخص ہیں مگر ان کے اس دعوے پر کئی ممتاز ماہرین کے اعتراضات ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر ثمر تجرباتی طور پر سو میگاواٹ بجلی کے پلانٹ پر کام کر رہے ہیں، اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہو گا مگر مقامی اور عالمی ماہرین اس بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ ٭ ہمارے ہاں شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے (ونڈ مل) بجلی کے بارے میں بڑا رومانٹک تصور موجود ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سولر انرجی کے ذریعے انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کبھی ایسا ہو مگر سردست صورتحال مختلف ہے۔ شمسی توانائی انفرادی طور پر، کسی ایک آدھ مکان یا عمارت کے لئے تو ٹھیک ہے مگر اس سے نیشنل گرد میں بجلی نہیں آ سکتی۔ سولر انرجی کو پھیلانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینی چاہئیں مگر سولر کا رواج ہوتے کچھ وقت لگ جائے گا۔ سولر مہنگی پڑتی ہے اور شروع کی سرمایہ کاری خاصی زیادہ ہے۔ دو تین پنکھوں اور چار پانچ بلب والے کسی مکان کا اچھی کوالٹی کا سولر پیکیج تین چار لاکھ سے کم میں نہیں آتا۔ ظاہر ہے یہ مڈل کلاس کی رسائی سے بھی باہر ہے۔ اے سی والے پیکیج اس سے دگنے تگنے قیمت کے ہیں۔ جب تک اس کی کاسٹ کم نہیں ہوتی، لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس اس سے باہر رہنے پر مجبور ہے۔ پنجاب حکومت نے سولر لیمپ اور سولر ٹیوب ویل سبسڈی پر دینے کا کہا ہے؛ تاہم بڑے پیمانے پر اسے پھیلانے کے لئے کئی ہزار ارب درکا ر ہیں۔ ونڈ مل کے ذریعے بجلی ہمارے ہاں پیدا ہو سکتی ہے، اس حوالے سے کچھ ہو بھی رہا ہے مگر ادھر بھی کاسٹ زیادہ ہے، پھر اس کی مین ٹیننس بھی سستی نہیں۔ ایک آپشن بائیو گیس کی بھی ہے، دیہات میں جس گھر میں دو چار مویشی ہیں، وہاں گوبر کے لئے تھوڑی سی بجلی پیدا ہو سکتی ہے، جس سے ایک آدھ پنکھا اور بلب جل سکے۔ اس پر کچھ کام ہوا، عالمی ادارے بھی کچھ مالی مدد فراہم کر رہے ہیں کہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ گھروں میں بائیو گیس پلانٹ لگائے جائیں۔ ملک گیر سطح پر توانائی کے مسائل کا حل ان متبادل ذرائع میں نہیں۔ کچھ تھوڑی بہت کمی لائی سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے راستے موجود ہیں مگر اس کے لئے ہمیں بطور قوم اپنے زاویہ نظر کو بدلنا ہو گا۔ ان ممکنہ راستوں پر اگلی نشست میں بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں