پرانے اخبارکا ایک ٹکڑا

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، ایک میگزین انٹرویو کے لئے میں ایک معروف کاروباری اورسماجی شخصیت کے پاس بیٹھا تھا۔ انٹرویو اس طرح نہ ہوسکا،جیسا ہم چاہتے تھے، وہ صاحب خاصے محتاط رہے اور بعض اہم ایشوز پر گول مول باتیں ہی کرتے رہے۔ ہماری خواہش تھی کہ وہ اپنے سماجی کاموں کے حوالے سے کچھ تفصیل بتائیں،ایسی باتیںجن میں دوسروں کے لئے کچھ ہو،جن سے مزے دار سرخی نکل سکے، وہ کھل کر نہ بولے۔ ایک کرارا انٹرویونہ کرپانے کی مایوسی کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ میزبا ن کو اس کا اندازہ ہوگیا، انہوں نے ماحول خوشگوار بنانے کے لئے ہلکے پھلکے انداز میں گپ شپ شروع کر دی۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق ایک پرانے اخبار کے ٹکڑے سے سیکھا۔ یہ بات سن کر ہم چونکے، تفصیل چاہی تو مسکرا کر بولے ، میں پورا واقعہ بتا دیتا ہوں،مگر وعدہ کریں کہ اس انٹرویو میں اسے شامل نہ کریں، بعد میں اگر کہیں اسے لکھ دیں تو کوئی حرج نہیں،مگر میرے نام کا حوالہ نہ آئے۔ ہامی بھرنے پر انہوں نے وہ واقعہ سنایا۔ وہ صاحب کہنے لگے،’’ عرصہ پہلے کی بات ہے، کاروبار کے ابتدائی ایام تھے،اسے جمانے کے لئے دن رات محنت کر رہا تھا۔ میری شادی ہوچکی تھی، دوچھوٹے بچے تھے۔میں صبح جلدی گھر سے نکلتا اور رات گئے واپس لوٹتا، بعض اوقات تین تین دن بچوں سے ملنے کا موقعہ نہ ملتا ،جاتے وقت وہ سو رہے ہوتے، واپسی پر بھی سوئے ہوتے۔ ایک روز میں ایک کلائنٹ سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ میں کرسی پر بیٹھا ملاقات کا انتظار کر رہا تھا۔میرے قریب ہی ایک پرانا اخبار پڑا تھا۔ وقت گزاری کے لئے میں نے اسے اٹھایا اور ورق گردانی کرنے لگا۔ میری نظر ایک مضمون پر پڑی، سیرت طیبہ کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے واقعات لکھے گئے تھے۔ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ اس میں حضورپاک ﷺکے معمولات کے حوالے سے تفصیل رقم تھی۔ بتایا گیا کہ آپ ﷺنے اپنے چوبیس گھنٹوں کے معمولات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک تہائی(آٹھ گھنٹے)بطور سربراہ مملکت اپنی ذمہ داریاںنبھاتے، اہم ایشوز پر مشاورت کرتے ، فیصلے سناتے، وفود بھیجتے،واپس آنے والوں سے رپورٹ لیتے،شہر کا چکر لگاتے، بازار کا معائنہ کرتے اور دیگر اہم نوعیت کی ذمہ داریاں نبھاتے۔ ایک تہائی انہوں نے اپنے اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوںکے لئے وقف کر رکھا تھا۔امہات المومنین کے ساتھ وقت گزارتے، ان کے مسائل ،پریشانیاں سنتے، تسلی، تشفی،تربیت وغیرہ،اپنی صاحبزادیوں کو گھربلا لیتے یا ان کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔اسی میں سے کچھ وقت قریبی رشتے داروں ،احباب کے مسائل ، ان کی خوشی غمی میں شئیر کرنے کیلئے ہوتا، مسئلے مسائل پوچھنے والی خواتین بھی اسی وقت میں امہات المومنین کے پاس آجاتیں، ان کو بھی نمٹا لیتے۔ ایک تہائی وقت آپ ﷺ نے اپنے لئے رکھا تھا۔اسی میں کچھ وقت آرام کر لیتے، غوروفکر، عبادت، ذکر ، شب بیداری وغیرہ کے لئے۔ ’’ مضمون نگار نے آخر میں ایک دلچسپ جملہ لکھا کہ یہ تقسیم کار ہر ایک کے لئے رول ماڈل ہے۔اس نے ایک معروف مغربی ٹائم مینجمنٹ ایکسپرٹ کا حوالہ دیا،جس کے مطابق ماڈرن مینجمنٹ پر مبنی سیکڑوں کتابوں کانچوڑ نکالا جائے تو یہی نقطہ سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کرو، ایک حصہ پروفیشن اور کیرئر کو دو، ایک حصہ ریلیشن شپ پر صرف کرو، اپنے والدین، بیوی بچے، بھائی ،بہن، دوست احباب کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے، اس میں گہرائی لانے اور اس میں نئے دلکش رنگ شامل کرنے کے لئے۔تیسرا حصہ چھ سات گھنٹوں کی اچھی نیند لینے اور صرف اپنے لئے دن بھر میں کم سے کم ایک گھنٹہ نکالنے کے لئے۔اس ایک گھنٹے میں کچھ بھی کیا جائے ،مگر وہ صرف اپنے لئے ہو، چاہے کچھ دیر کے لئے کسی پارک میں بنچ پر بیٹھ کر فطرت کو دیکھا جائے، کوئی کتاب پڑھی جائے، اپنی پسند کی کوئی موسیقی وغیرہ سن لی جائے، کچھ بھی ایسا کام جو دل کو بھائے ،جس کے لئے آپ کے اندر سے آواز اٹھتی ہو۔ وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کسی دن اپنی زندگی کی معنویت ہی پر غور کر لیا جائے،یہ ہی سوچ لیا جائے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہم جس طرح مشینی انداز سے جی رہے ہیں، اس کی کیا افادیت ہے، کیا یہ موم بتی کو دونوں طرف سے جلانے کے مترادف نہیں ہے۔ قدرت کی دی ہوئی زندگی کو، اتنی بڑی نعمت کو اپنے ہاتھوں وقت سے پہلے ختم تو نہیں کر رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ سوچنا کہ ہم دنیا میں جو زندگی گزارتے ہیں، یہ آخرت کی طویل زندگی کے مقابلے میں چند لمحات، چند گھڑیوں کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ ہم ان چند لمحوں کی دنیاوی زند گی کے لئے اتنی محنت کرتے، اتنی لمبی چوڑی پلاننگ ، آگے بڑھنے، اوپر جانے کے لئے جانے کتنے جوڑ توڑ، چالیں، سازشیں، حکمت عملیاں بناتے ہیں،مگر وہ زندگی جو بے پناہ طوالت کی حامل ہے، جو اصل سچ اور حقیقت ہے، اس کے بارے میں کیا کر رہے ہیں، کس قدر پلان بنایا، کتنا عمل ہوا،آخرت کے بینک اکائونٹ کے لئے کتنا اکٹھا کر لیا۔ یہ سب سوالات اور ان کے جوابات صرف اس لئے رہ جاتے ہیںکہ ہم اپنے چوبیس گھنٹوں کو درست انداز سے تقسیم نہیں کرپاتے، اسے مختلف خانوں میں بانٹ نہیں پاتے، سب کچھ صرف اور صرف کیریر، پروفیشن اور آمدنی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے نہ ہمارے آس پاس والے خوش ہوپاتے ہیں ،ہم والدین کے حقوق ادا کر پاتے نہ بچوں کا دھیان رکھ سکتے ہیں۔اپنی صحت کا خیال رکھا جاتاہے نہ اپنے اندر کی چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیوں کو پورا کر کے روح کی تشنگی پوری ہوسکتی ہے۔سب سے بڑھ کر مرنے کے بعد کی زندگی کے تصور کے ہم رسمی قائل توہوتے ہیں، مگر اس کے لئے کچھ کر نہیں پاتے کہ مشینی انداز کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں اس زندگی کے لئے سوچنے کا ایک گھنٹہ بھی نہیں مل پاتا ، وہ زندگی جوروز حشر سے شروع ہوگی۔ ‘‘ ہم دم بخود سفید بالوں والے اس شخص کی گفتگو سنتے رہے۔وہ شخص ،جو شہر کے کئی اہم کاروباری اداروں کا مالک اور جس کے زیراہتمام ہر ماہ کروڑوں کی چیریٹی ہوتی تھی، جو فلاح عامہ کے کئی ادارے چلاتا تھا۔ نازک فریم والی خوبصورت عینک کے پیچھے اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھی۔ نرم لہجے میں اس نے کہا، اخبار کے اس پرانے ٹکڑے نے میری زندگی بدل ڈالی۔ یہ کوئی ڈرامائی کہانی نہیں، کوئی خود سے گھڑا واقعہ نہیں بتا رہا، حقیقت ہے کہ اس مضمون نے مجھے بدل ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی کے پچھلے تیس برس اسی انداز میں گزارے ہیں۔ ہمارے آقاﷺ کی زندگی سے جو سبق میں نے سیکھا، اس نے میرے جینے کا انداز بدل ڈالا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں اپنی زندگی کامعمول نہ بدلتا تو دس پندرہ سال پہلے میں برین ہیمریج یا دل کے دورے سے مر چکا ہوتا، میری اولاد میری زندگی ہی میں مجھ سے دور ہوچکی ہوتی، بیوی اور رشتے دار کٹ چکے ہوتے۔ میں نے اس دن کے بعد اپنا لائف سٹائل بدل ڈالا۔ میں اتنے کاروبار کرتا ہوں، کبھی دفتر میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں گزارا۔ کبھی دفتر کا کام گھر نہیں لے آیا۔ جتنا وقت دفتر میں رہا، پوری توجہ اور اچھی سمارٹ مینجمنٹ سے کام نمٹایا، اچھے مینجر رکھے، ان کو ذمہ داریاں دیں، ان پر چیک رکھا اور نتائج لئے۔ گھر ہمیشہ پورا وقت دیا، بیوی بچوں کے ساتھ کوالٹی وقت گزارا۔ اچھی نیند لی، اپنے لئے کچھ نہ کچھ وقت نکالا، سب سے بڑھ کر اپنی دولت میں لوگوں کو شئیر کرنے کا طریقہ سیکھا۔ یہ بات مجھے کچھ دیر سے سمجھ آئی ،مگر جب آگئی تو اس نے میری کاروباری زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ ان صاحب نے وہ واقعہ بھی سنایا، کئی سال گزر گئے، آج تک نہیں بھول سکا، یہ اور بات کہ کبھی خود عمل نہیں کرپایا۔ خیر یہ الگ قصہ ہے، کبھی اس پر بھی بات ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں