معاشرے میں توازن لانا ہو گا

پچھلے چند دنوں سے اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی شدید اذیت میں مبتلا ہوں۔ لاہور کی پانچ سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے واقعے نے ہر ایک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی تفصیل پڑھ کر یا فوٹیج دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میڈیا خصوصاً چینلز پر جس طرح یہ واقعہ بار بار دہرایا جا رہا ہے، اس کی جزئیات بیان کی جا رہی ہیں، وہ سب دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ مجھے ان لوگوں کی قوت برداشت پر رشک آ رہا ہے جو مسلسل یہ دیکھے چلے جا رہے ہیں اور ان کے اعصاب متاثر نہیں ہوئے۔ جنرل ضیا کے دور میں اپوزیشن کے بہت سے سیاستدان ملک سے باہر چلے گئے تھے، ان دنوں ’’خود ساختہ جلاوطنی‘‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی تھی۔ ہم جیسوں نے نیوز چینلز سے خود ساختہ دوری اختیار کی ہے، اخبار پڑھنا البتہ پیشہ ورانہ ضرورت ہے، روزانہ چار پانچ ملکی اور دو تین عالمی اخبارات دیکھنے پڑتے ہیں۔ لاہور کی معصوم بچی کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے کے بعد دوسرے کئی شہروں میں بھی اسی نوعیت کے مختلف واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے سفاکانہ اور مریضانہ واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بہت خوفناک ٹرینڈ ہے، اس حوالے سے بات کرتے ہیں، پہلے ایک بظاہر غیرمتعلق مگر اہم رپورٹ کی مختصر تفصیل پڑھ لیجئے۔ چند ماہ پہلے مجھے یہ ریسرچ رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں ماحول کے حوالے سے دلچسپ اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں۔ مختلف سائنس دانوں کی تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ماحول میں فطرت نے جو قدرتی توازن قائم کر رکھا تھا، وہ اب تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ انسانوں نے اپنی غلطیوں سے وہ توازن آئوٹ کر دیا ہے، درخت کاٹے جا رہے ہیں، جنگل غائب ہو رہے ہیں، ماحولیاتی آلودگی حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے، عالمی گرمائو بھی ایک سبب ہے۔ ان مختلف وجوہ کی بنا پر جانوروں، پرندوں اور حشرات کی بہت سی نسلیں مٹتی جا رہی ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک خوفناک پیش گوئی بھی کی کہ اس کائنات کی تاریخ میں پہلے بھی کئی بار ایسے بحران آئے جب دنیا میں آباد جانوروں اور انسانوں کی نسلیں مٹ گئیں، اگر احتیاط نہ کی گئی تو مستقبل میں پھر وہی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ اس کے لیے ناپیدگی کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اس رپورٹ کو ترجمہ کرنے والے نے اپنا دلچسپ مشاہدہ شامل کرتے ہوئے لکھا کہ دس پندرہ سال پہلے تک شہد کی مکھیاں ہر جگہ عام اڑتی نظر آ جاتی تھیں، مسجد میں وضو کرتے ہوئے، نلکے سے پانی لیتے ہوئے ان مکھیوں سے واسطہ پڑتا تھا لیکن اب یہ مکھیاں خاصی کم ہو گئی ہیں، شہد کے چھتے جو جا بجا درختوں پر لگے نظر آتے تھے، اب وہ بھی نہیں ملتے اور زیادہ تر انحصار فارمی شہد پر ہو گیا ہے۔ زیادتی کے ان واقعات پر مجھے وہ رپورٹ یاد آ گئی۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح ماحول کا توازن زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے، اسی طرح معاشرے خصوصاً کسی اسلامی معاشرے میں اخلاقی توازن برقرار رہنا بھی سماجی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ اگر یہ بیلنس بگڑ جائے، روایات مٹنے لگیں، اللہ کا خوف نہ رہے، حیا کا بیریئر‘ جو اسلامی معاشرے کا لازمی جزو ہے‘ ٹوٹ جائے تو پورا سماج بکھر کر رہ جاتا ہے۔ معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات پر ایک ردعمل تو ان مایوسی پسند لوگوں کا آیا‘ جو ہمیشہ پاکستانی قوم کو کوستے اور شکست خوردگی ہی پھیلاتے ہیں۔ دوسرا ردعمل لبرل سیکولر عناصر کی جانب سے آیا۔ ان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں چونکہ خواتین کا استحصال ہوتا ہے، اس لیے یہ واقعہ اسی مائنڈسیٹ کا نتیجہ ہے۔ ساتھ ساتھ مذہبی قوانین پر طنز کے تیر برسانے کی دیرینہ روایت کو بھی آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ کسی کو یہ یاد آیا کہ چار عینی گواہ ڈھونڈے بغیر کوئی خاتون اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سزا نہیں دلا سکتی، کسی نے چار عینی گواہوں کی پابندی کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی‘ حالانکہ بات بڑی سادہ سی ہے۔ شریعت میں دو طرح کی سزائیں ہیں، حد اور تعزیر۔ حد کے حوالے سے قوانین قرآن پاک میں بیان ہو چکے، اس لیے ظاہر ہے انہیں کوئی نہیں بدل سکتا‘ نہ ہی کسی قرآنی نص کے حوالے سے اجتہاد ہو سکتا ہے؛ تاہم اگر کسی جرم میں حد نافذ نہیں ہو سکتی تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ملزم چھوٹ جائے گا، اسے تعزیر کے تحت سزا دی جا سکتی ہے اور اس حوالے سے سخت ترین سزا یعنی عمر قید یا سزائے موت دینے کا اختیار عدالت کے پاس موجود ہے۔ زیادتی کے حوالے سے حد کی سزا تو سنگسار کرنا ہے، مگر تعزیر کے تحت واقعاتی شہادتوں پر عمر قید یا پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے اور دی جاتی ہے۔ حد کی سزا پر پاکستانی تاریخ میں کبھی عمل نہیں ہوا، ہمیشہ تعزیر کے تحت ہی سزاملتی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ زیادتی میں حد کی سزا کے لیے چار عینی شہادتوں کی پابندی کا مذاق اڑاتے ہیں، اتفاق سے یہی حد کی سزائوں کے سب سے بڑے مخالف بھی ہیں۔ ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزائوں کے خلاف ہمیشہ انہی لوگوں نے پروپیگنڈہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں سب سے اہم بات اس قسم کے واقعات کا تدارک کرنا ہے۔ قوانین کو سخت کرنا، اس طرح کے مقدمات جلد اور تیز رفتار انصاف کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جانے کی تجویز اچھی ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے۔ بات مگر صرف اسی جگہ پر نہیں رکتی۔ قوانین خواہ جتنے سخت ہوں، وہ ایک حد سے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے معاشرے کے اجزائے ترکیبی بکھر رہے ہیں۔ اس میں جو اخلاقی روایات، شرم و حیا اور تہذیبی بیریئر تھے، وہ ایک ایک کر کے توڑے جا رہے ہیں۔ ایک یلغار ہے جو چاروں طرف سے جاری ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم دوبارہ سے فحاشی پر بات شروع کریں اور میڈیا کے حوالے سے اخلاقی ضابطے لاگو کریں۔ اسلامی تہذیب کا بنیادی جزو حیا اور عفت ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ہماری فیشن انڈسٹری جس طرح بے لگام ہوئی اور اس نے جس طرح مشرقی تہذیبی روایات طاق پر رکھ دیا‘ اس سے بہت بگاڑ پیدا ہوا۔ بولڈ اشتہارات، ہیجان انگیز لٹریچر، فلموں، انٹرنیٹ مواد نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں۔ انٹرنیٹ عام اور سستا ہو جانے سے ہر ایک کی اس تک رسائی تو ہو گئی لیکن کوئی سکھانے اور بتانے والا نہیں کہ ان کا استعمال کس طرح کرنا ہے۔ کچی عمر کے لڑکوں کی جس طرح ہیجان انگیز مواد، تصویروں اور فلموں تک رسائی ہو رہی ہے‘ وہ انہیں پاگل بنانے کے لیے کافی ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح روکنا ہو گا۔ نوجوانوں پر گھروں، خاندانوں اور محلوں میں پہلے نظر رکھی جاتی تھی۔ گلی محلے کے بڑے بھی انہیں تنبیہ کر دیا کرتے تھے۔ ان پر ایک ’’چشم نگراں‘‘ موجود رہتی، جس کا ڈر انہیں سیدھا رکھتا تھا۔ وہ سب کچھ اب نہیں رہا۔ محترم اوریا مقبول جان نے اگلے روز اپنے کالم میں کمال جرأت سے لکھ ڈالا کہ ہمارے ہاں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے اعدادوشمار اگر کبھی اکٹھے کئے گئے تو تہلکہ مچ جائے گا۔ ہوٹلوں، ورکشاپوں اور چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے والے آٹھ دس سے لے کر پندرہ سولہ سال کے بچے اور لڑکے جس استحصال سے گزرتے ہیں، اس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ درست ہے کہ آج کے ماحول میں بچیوں کی حفاظت تو اہم ہے ہی، والدین کو اپنے اچھی شکل و صورت کے بچوں کی بھی حفاظت اور نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ لاہور کی ننھی پری اور دوسرے شہروں میں معصوم بچیوں کے ساتھ جو ہوا، اس پر ہم سب کے دل دکھی ہیں۔ معاشرے میں مگر جو اخلاقی بگاڑ آیا ہے اس کے اسباب پر غورکئے اور تدارک کے لیے جامع حکمت عملی بنائے بغیر صرف واویلا مچانے سے کچھ نہ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں