آگ بھڑکانے کی نہیں بجھانے کی ضرورت ہے!

جب معاملات الجھنے لگیں، کنفیوژن بڑھنے لگے تو پریشان ہوجانا مسائل بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ درست لائحہ عمل یہ ہے کہ جو معاملہ درپیش ہو، اس کے تمام پہلوئوں کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیا جائے، جو بات درست لگے وہ بلاکم وکاست کہی جائے۔ ارادہ تھا کہ سیاست کی گرما گرمی اور کرنٹ افئیرز کی افراتفری سے ہٹ کر لکھا جائے ،مگر سید منور حسن کے بیان سے جنم لینے والی چنگاری بھڑکتی آگ میں بدلتی جا رہی ہے۔ اس معاملے کے کئی پہلو ہیں، ان سب کو نظر میں رکھ کر کوئی بات کہی جائے تو درست ہوگی، کسی ایک ٹکڑے کو لینے سے ذاتی رائے کا اظہار تو ہوجائے گا، انصاف مگر نہیں ہوپائے گا۔ انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا کہ سید منور حسن کی جانب سے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینے کے بیان کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کوئی مفتی یا عالم دین نہیں، یہ فتویٰ دینا ان کا کام ہی نہیں تھا۔ اس سوال کا مقصد امریکی ڈرون حملے کی جانب سے توجہ ہٹانا تھا۔ سید منور حسن ٹریپ ہوئے اور حکیم اللہ محسود کو شہید کہہ کر ایک غیر ضروری تنازع میں الجھ گئے۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک ٹاک شو میں نہ صرف اپنے اس بیان پر سٹینڈ لیا بلکہ ایسا تاثر دیاجیسے وہ عسکریت پسندوں کے مقابلے میں اپنے وطن کی سالمیت کی خاطر جانیں دینے والے جوانوں کو شہید کہنے سے گریز کر رہے ہوں۔ ٭ سید منور حسن کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ اس معاملے میں قرآن کو رہنما بناتے ۔ قرآن دیگر تمام معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی بہترین اور جامع رہنمائی کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ سید صاحب کی نظر سے سورہ طٰہٰ کی آیات 51,52چُوک گئیں۔ جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے پاس گئے اور دعوت دیتے ہوئے اسے رب واحد کی طرف بلایا، فرعون نے نہایت مکاری سے سوال کیا کہ ایسی صورت میں ہمارے اجداد کا کیا بنے گا، یعنی وہ کافر تصور ہوں گے یا کچھ اور… ترجمہ : ’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں، ان کی پھر کیا حالت تھی‘‘ طٰہٰ 51۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ بیان فرعون نے بر بنائے جہالت دیا ہو یا بربنائے شرارت، مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے اپنے درباریوں اور ان کے توسط سے پورے اہل مصر میں حضرت موسیٰؑ کے خلاف تعصب بھڑکا دے۔سیدنا موسیٰؑ نے اس کا نہایت حکیمانہ جواب دیا،ترجمہ :’’ اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘ طٰہٰ52۔ یہ بلاشبہ ایسا جواب تھا ،جس سے فرعون کی چال ناکام ہوگئی۔ حکیم اللہ محسود کی موت کے حوالے سے کئے گئے سوال پر بھی یہی جواب مناسب تھا۔ میرے خیال میں اس نازک مرحلے پر جماعت اسلامی کو بطور جماعت آگے بڑھ کر اپنے امیر کو سیف ایگزٹ دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بہتر ہوتا کہ شروع ہی میں جماعت کی جانب سے بیان آ جاتا کہ یہ سید منور حسن کی ذاتی رائے ہے۔ اس سے جماعت اسلامی پر دبائو کم ہوجاتا اور معاملہ کی سنگینی کم ہوجاتی۔ تحریک انصاف دو تین بار ایسا کر چکی ہے کہ کسی خاص معاملے میں عمران خان کی متنازع رائے آنے کے بعد پارٹی ترجمان کی جانب سے وضاحت آ جاتی کہ یہ خان صاحب کی ذاتی رائے ہے، پارٹی کی آفیشل پالیسی نہیں۔ اس طرح خود بخود معاملہ ڈی فیوز ہوجاتا۔ جماعت نے پہلے تو ایسا نہیں کیا ، پھر آئی ایس ایس پی آر کے بیان کے بعد جو جوابی بیان دیا ،اس میں غیر ضروری طور پر جارحانہ انداز اپنایا۔ یہ درست ہے کہ بعض حلقوں کے خیال میں افواج پاکستان کے ترجمان ادارے کی جانب سے اس طرح کا بیان دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔بہتر تھا کہ اس کھلے اظہار کے بغیر ہی کام چل جاتا۔ ابلاغ کے بہت سے طریقے ہیں، یہ بات آئی ایس ایس پی آر کے بجائے کہیں اور سے کہلوائی جا سکتی تھی۔ ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ اصل روئے سخن جماعت کے بجائے حکومت کی جانب تھا، جس کی جانب سے افسوسناک خاموشی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ فوجی اور سویلین شہیدوں پر حرف زنی کا جواب دینا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیغام اچھی طرح سمجھ لیا گیا اور وزیراعظم پاکستان نے زوردار بیان دے کر اپنی خاموشی کی تلافی کر دی۔ وزیراعظم کے بیان کو بہرحال سراہنا چاہیے۔ پاک فوج نے جو قربانیاں دیں، ان کا اعتراف پوری قوم کرتی ہے۔ فوج ریاستی پالیسیوں کی پیروی کرتی ہے، یہی اس کا ڈسپلن اور طریقہ ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے تین چار دنوں کے دوران سامنے آنے والے سیاسی و عوامی ردعمل سے جماعت اسلامی کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس وقت بالکل اکیلی ہوچکی ہے۔ ایسی تنہائی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کی اتحادی جماعت تحریک انصاف بھی زیادہ سے زیادہ اسے یہ سپورٹ فراہم کر سکی کہ انہوں نے جماعت کے خلاف بیان نہیں دیا اور غیر جانبدار رہے۔ اس بار میڈیا میں جماعت اسلامی سے ہمدردی اور اس کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے تجزیہ کار بھی خاموش ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب سید صاحب کے بیان سے بھونچکا رہ گئے،ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔ امیر جماعت اسلامی کے بیان کی تائید اور داد صرف تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے آئی ہے(معذرت کہ عزت ماب، اعلیٰ حضرت ،فاتح مظفر گڑھ جمشید دستی کو بھول گیا، ع گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں)۔ ویسے پارہ صفت طالبان کو خوش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ کل کو جماعت اسلامی کے معمولی سے اختلاف رائے پرطالبان کی جانب سے خوفناک قسم کا فتویٰ جاری ہوجائے گا۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور علماء کرام کی جانب سے دلچسپ ردعمل ظاہر کیا گیا۔طالبان کے ہم مسلک ’’جید‘‘علماء کرام اور وفاق المدارس کی قیادت کی جانب سے ہمیشہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ طالبان سے مختلف مسلک رکھنے والے علما ء البتہ کمر ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ان علما اور ان کی تنظیموں کے مفادات کے حوالے سے کوئی ایشو اٹھایا جائے تو یہ سب خاموش ہوجائیں گے اور پھر دوسرے مسلک کے علما کرام اپنی زبانیں کھولیں گے۔ ہمارے ہاں ہر کوئی اپنے مفادات کو دیکھ کر ’’حق‘‘ کا تعین کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ یہ کہتا ہے کہ تم انصاف کی بات کرو، اگرچہ اس سے تمہارے اہل خانہ اور دوستوں کو بھی زک پہنچے۔ سیاستدانوں کا بھی کم وبیش یہی رویہ رہا۔ جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے والے تو اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کی جانب سے شدت کا رویہ کوئی انہونی بات نہیں۔ جماعت اسلامی سے نفرت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ پیپلزپارٹی البتہ وفاقی جماعت ہے، اسے زیادہ میچور رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ بلاول بھٹو کی جانب سے جماعت اسلامی پر پابندی جیسے بچگانہ بیانات کا آنا افسوسناک ہے۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان چئیر مین کو سمجھنا چاہیے کہ اہم قومی امور پر ٹوئیٹ کر کے ردعمل نہیں دیا جاتا۔ آکسفورڈ کے کسی کھلندڑے طالب علم اورایک بڑی قومی جماعت کے سربراہ میں فرق ہوتا ہے۔جماعت اسلامی پر پابندی کا مطالبہ سراسر بلاجواز اور مضحکہ خیز ہے۔ یہ تو طالبان سے بھی زیادہ شدت اور جنونیت کا مظاہرہ ہے۔جماعت اسلامی ایک اہم قومی جماعت ہے، اس کی بعض پالیسیوں سے میرے سمیت بہت سے لوگوں کو اختلاف ہے، مگر بہرحال اس کا اہم کنٹری بیوشن رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے ایک نیشنلسٹ سٹینڈ رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے حوالے سے جماعت ہمارے اہم اداروں کے ساتھ ایک ہی صفحے پر کھڑی ہے۔ ہر دور میں نظریہ پاکستان پر ہونے والی یلغار، الٹرا سیکولر لابی کی جانب سے فکری بنیادوں پر کئے جانے والے حملوں کو اس نے کائونٹر کیا۔ فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا نیٹ ورک الخدمت فائونڈیشن جماعت اسلامی کے کارکنوں کی مساعی ہے۔جماعت اسلامی کا اس تنازعے میں الجھنا دراصل محب وطن قوتوں کا نقصان ہے۔ پچھلے چند دنوں میں جو کچھ ہوا، وہ یہ سب ایک گرینڈ ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔ آخری ہدف ہمارے نیوکلیئر اثاثے ہی ہوں گے، فیصلہ کن لڑائی اس وقت لڑی جائے گی۔ لکیر بھی تب کھینچی جائے گی۔ تب یقیناً جماعت اسلامی سمیت تمام محب وطن قوتیں قومی اداروں کے ساتھ ہی کھڑی ہوں گی۔ ہمارے میڈیا اورانٹیلی جنشیا کو چاہیے کہ اس بھڑکتی آگ کومزید بھڑکانے کے بجائے بجھانے کی کوئی ترکیب کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں