اپنا اپنا سچ

تین چار سال پہلے ایک دوست نے کھانے پر مدعو کیا، ان کا کہنا تھا کہ باہرسے آئے چند مہمانوں سے ملوانا ہے۔ وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ میڈیا کے چند اور بھی دوست شریک محفل تھے۔ جب تمام مہمان آگئے تو اندازہ ہوا کہ ایک غیر محسوس انداز میں چار پانچ رائیٹ اورچار پانچ ہی لیفٹ یا لبرل حلقوں کے تجزیہ کاروں کوبلایا گیا۔علاقائی تنازعات پر بات شروع ہوئی جوپھیلتی چلی گئی، بیچ میں کہیں کہیں پر گرماگرما مقامات آئے ،جہاں تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا، ایسا بھی ہوا کہ شرکا محفل میں سے ایک دو صاحبان سرخ تمتماتے چہرے کے ساتھ واک آئوٹ کرنے لگے، جنہیں دوسروں نے مشکل سے رام کیا۔میرا خیال ہے مجھے بھی میزبان نے رائٹ ونگ کے لکھنے والوں کے کھاتے میں ڈال کر بلایا تھا، یہ اور بات کہ ہماری معروضات سے لبرل خوش ہوتے ہیں نہ رائیٹ والے۔ انہی دنوں میں ایک بہت سینئراور قابل احترام صحافتی شخصیت سے ملاقات ہوئی ، رسمی سلام دعا کے بعد پہلا جملہ انہوں نے یہی کہا،'' آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رائیٹ والوں سے خاصے بیزار ہیں ؟‘‘بہتر تو یہی ہوتا کہ احتراماً خاموشی اختیار کی جاتی ، مگر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، میری بیزاری رائیٹ لیفٹ سے نہیں بلکہ اس خود ساختہ فکس قسم کی پوزیشن سے ہے،جو انہوں نے ہر ایشو میں اختیار کی ہوتی ہے۔‘‘تفصیل کا محل نہیں تھا، مگر واقعتاً شروع ہی سے اس بات سے خاصی چڑ ہوتی تھی کہ رائیٹ ونگ والے روایتی مذہبی حلقے کا اپنا'' سچ‘‘ ہے تولبرل سیکولر حلقے بھی اپنے انداز کے وضع کردہ ''سچ ‘‘میںمقید ہیں۔ 
خیر بات اس محفل کی ہو رہی تھی،وہاں بھی ویسی ہی دھواں دھار قسم کی گفتگو ہوئی، مجھے ایک بار پھر بڑی شدت سے محسوس ہوا کہ 
درمیان کی بات کرنے والے بہت کم ہیں، زیادہ تر نے انتہائی دائیں یا بائیں بازو کی پوزیشن لے رکھی ہے ، اپنے مخالف کو رعایت دینے کو کوئی تیار نہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حق اور سچ صرف اس کے ساتھ ہے، اس کا مخالف غلط ہے، اس کی سوچ میں درستی کا کوئی امکان باقی نہیں۔ ایک زمانے میں رائیٹ والوں پر لبرل حلقوں کا سب سے بڑا اعتراض یہی ہوتا تھا کہ یہ لوگ خودساختہ نظریات کے اسیر ہیں اور اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔ان کے نظریاتی مخالفین جس قدر ریاستی جبر کا نشانہ بنیں، ان پر خواہ جتنے ظلم توڑے جائیں، رائیٹ والے ان سے ہمدردی نہیں کرتے۔ یہ صرف اس وقت فعال ہوتے اور تحریکیں چلاتے ہیں ،جب ان کے نظریاتی حامی نشانہ بنیں۔ ستم رسیدہ ان کے حلقے سے تعلق رکھتا ہو، تب ہی وہ مظلوم ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو مظلوم بننے کا کوئی ''حق‘‘ نہیں۔اس بات سے قطع نظر یہ اعتراض غلط تھا یا درست ... دلچسپ بات یہ ہے کہ رائیٹ پر اعتراض کرنے اور نقطہ چینی کرنے والے پاکستانی لیفٹسٹ اور لبرل حلقے آج کل خود اسی انتہا پسندی کا شکار ہیں۔انہوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ روایتی مذہبی حلقوںیا دینی سیاسی جماعتوں پر جس قدر ظلم ہوجائے، ریاستی جبر وتشدد کے پہاڑ ہی کیوں نہ توڑے جائیں، انہوں نے مکمل طور پر خاموش رہنا ہے۔ ہمارے لبرل سیکولر دوستوں کی استقامت کی داد دینی پڑتی ہے کہ جن واقعات نے مذہبی سیاست اور اسلامی تحریکوں
کی مخالفت کرنے والے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے،وہ لہورنگ واقعات ہمارے لبرلز کے دل موم نہیںکر سکے۔ ان کے دلوں میںپوشیدہ تہہ در تہہ نفرت اور بیزاری تحلیل نہیں ہوسکی۔ مصر میں اخوان المسلمون کے ساتھ جو ظلم ہوا،منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کو جس طرح فوجی مداخلت کر کے ہٹایا گیا، پھر کریک ڈائون کر کے سینکڑوں لوگوں کو شہید اور ہزاروں کو پابند سلاسل کر دیا، اس نے درد دل رکھنے والے ہر انسان کی چشم نم کر دی۔ اخوان کی اعلیٰ سطح کی قیادت کے اپنے بچوں بچیوں نے جو قربانیان دیں، وہ ایک اچھوتی مثال ہے۔ لیفٹ کے اکثر لکھنے والے مذہبی حلقوں پر طعن زنی کرتے تھے کہ جہاد یا اسلامی تحریکوں کے دوران ان کی قیادت اور ان کی اولاد نشانہ کیوں نہیں بنتی، اخوان المسلمون کی قربانیوں نے ان سب کے منہ بند کر دئیے ۔اس کے باوجود شاید ہی کسی نے اخوان کے حق میں قلم اٹھایا ہو۔ کم از کم میری نظر سے کسی معروف پاکستانی لبرل سیکولر لکھاری کا کوئی کالم یا تجزیہ ایسا نہیں گزرا ،جس میں اخوان کی قربانیوں کو سراہا گیا ہو، ان کے ساتھ ہونے والے صریح ظلم کی مذمت کی گئی ہو اور دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی تحریک کے ساتھ اخلاقی حمایت کا اعلان کیا گیا ہو۔ 
بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے جنون نے وہاں کے مذہبی حلقوں پر جو قیامت ڈھائی ہے، اس کی داستان بھی لہو رنگ ہونے کے ساتھ نہایت تکلیف دہ ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک اہم رہنما عبدالقادر ملا کو تو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے، کئی اور بھی جلد نشانہ بننے والے ہیں۔ یہ ایسا ظلم ہے، جس کی مذمت مغربی حلقے بھی کر رہے ہیں۔ مشہور عالمی جرائد اور اخبارات اس کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مقدمات نہایت غیر منصفانہ اور غیر شفاف انداز میں چلائے گئے ہیں، صاف نظر آ رہا ہے کہ عوامی لیگ اور وہاں کی سپریم کورٹ کی یہ کوشش ہے کہ جلد از جلد ان لوگوں کو نشانہ بنا دیا جائے ۔ کم سے کم وقت میں اپنے نظریاتی مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہش میں عوامی لیگ ہر حد پار کر گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام لوگوں کو پرو پاکستان امیج رکھنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو پاکستان سے محبت کرتے رہے اور آج بھی وہاں پاکستان کے حق میں بات کرتے ہیں۔یہ کوئی غلط بات نہیں، ان سے کہیں زیادہ بڑی لابی پروانڈیا ہے ، جو ہر ایشوپر آئوٹ آف دی وے جا کر بھارت کی وکالت اور حمایت کرتی ہے۔بنگلہ دیش میں مذہبی حلقوں کے ساتھ جو ظلم ہوا، ہمارے لبرل حلقوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کی مذمت کر سکیں۔ میری نظر سے برادرم رئوف کلاسرا کے سوا کسی اور لبرل لکھنے والے کی تحریر نہیں گزری۔ رئوف نے اپنے مخصوص بے باکانہ انداز میں یہ نقطہ اٹھایا اور خالدہ ضیا کی پارٹی کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ کا مقدمہ بڑی مہارت سے لڑا۔ ہمارے بیشتر لبرل لکھنے والے نہ صرف اس کی مذمت نہیں کرسکے بلکہ انہوں نے عجیب وغریب تاویلات کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ کسی کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ کہیںمذمت کرنے سے بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب نہ ہوجائیں۔ کسی کو یہ خطرہ ہے کہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کی توہین نہ ہوجائے ، اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے پاکستانی سپریم کورٹ کا بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ آج تک نہیں مانا۔ ویسے تو یہ خاکسار بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو جوڈیشل مرڈر ہی سمجھتا ہے ۔ اگلے روز ایک صاحب نے امریکہ سے ای میل کی، ان کا کہنا تھا کہ وہ نوجوانی میں لیفٹ کی طلبہ سیاست سے منسلک رہے ،مگر لیفٹ کے حلقوں کی منافقت کے باعث دور ہوتے گئے ۔ انہوں نے یہ دلچسپ نقطہ اٹھایا کہ اگر اسی بنگلہ دیش میں توہین رسالت کا قانون نافذ ہو اور اس کے تحت کسی کو پھانسی کی سزا سنائی جائے تو پاکستان میں طوفان کھڑا ہوجائے ۔ یہ سب لبرل اور سیکولر جو آج بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات خراب ہوجانے سے پریشان ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی عدالت کا احترام دامن گیر ہے، یہ سب چلا چلا کر توہین رسالت کے قانون کی مذمت کریں گے اور میڈیا پر آرٹیکلز کے انبار لگا دیں گے۔ بات پھر وہی ہے کہ ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے۔ کسی کو یہ اخلاقی جرات نہیں کہ اپنے اپنے تعصبات سے اٹھ کر دیانت داری کے ساتھ رائے دے سکیں۔ افسوس کہ پاکستانی لبرل سیکولر حلقوں نے ایک بار پھر بہت سوں کو مایوس کیا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں