بڑھیا کا جھاڑو

پچھلے چند دن پریشانی اور الجھن میںگزرے۔اہل خانہ کی علالت اور پھر اپنی طبیعت بھی ناساز رہی لہٰذا بعض اہم ایشوز پر چاہتے ہوئے بھی نہ لکھ سکا۔ پاکستانی آئین کے حوالے سے جو نئی بحث شروع ہوئی،اس نے مجھے حقیقی معنوں میں ہلا کے رکھ دیا ہے۔لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز کے ''ارشادات عالیہ ‘‘ کے بعد ہمارے بعض رائٹسٹ کالمسٹوں نے بھی وہی سوالات اٹھانے شروع کر دئیے، ان کی تحریروں اور گفتگو کو دیکھ کر افسوس اور دکھ ہوا۔ انہیں اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ برسوں بلکہ عشروں کی محنت سے حاصل کردہ ثمرات اتنی آسانی سے لٹانے کے درپے ہیں۔ پاکستان میں دینی قوتوں نے بڑی جدوجہد اور محنت کے بعد دستور پاکستان میں وہ سب شامل کرایا ،جو اسے ایک اسلامی آئین بناتا ہے۔ یہ وقت ایسا نہیں کہ آئین کے حوالے سے کوئی چھیڑ چھاڑ کی جائے۔
سردست ایک اور اہم ایشو پر بات کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک دوست نے ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ ویلنٹائن ڈے پر کیوں نہیں لکھا؟ یہ دن تو گزر گیا ،مگر بات صرف کسی خاص دن کی نہیں۔یہ تو ایک کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک ایسے سلسلے کی،جو لہر درلہر پاکستان سماج پر وارد ہو رہا ہے۔ اس کے پورے تناظر کو سمجھے بغیر،کسی ایک جز کا تجزیہ کرنا درست نہیں۔ مختلف اطراف سے ایک یلغار ہے، کئی طوفان ہیں جو یکے بعد دیگرے امنڈتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کا نشانہ ہمارا اخلاقی نظام ،روایات، دینی تصورات اور طرز زندگی ہیں۔اس حوالے سے بعض سازشی تھیوریز بھی ہیں، ان میں سے کچھ ٹھیک بھی ہوں گی۔ یہ بھی ہے کہ ہر فاتح تہذیب اپنے ساتھ کلچر کا غلبہ بھی لاتی ہے، ایک زمانے میںمسلم عرب کلچرنے بھی دنیا کے کئی خطوں میں غلبہ حاصل کیا۔ خاص کر اندلس اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں۔ آج کی غالب تہذیب مغربی تہذیب ہے، جس کا اپنا ایک خاص کلچر، روایات، مزاج اور طرز زندگی ہے۔ہمارے ہاں ٹیکنالوجی سے لیس تمام جدید آلات مغرب سے آئے ہیں، بہت سے نظریات بھی وہاںسے وارد ہوئے۔مغربی طرز فکر اور طرز زندگی کو ہمارے ہاں بھی مسلط کرنے کی ایک سوچی سمجھی ، منظم کوشش ہو رہی ہے۔ 
تہذیبوں کے اختلاط سے کچھ نہ کچھ چیزیںیہاں سے وہاں منتقل ہوتی رہتی ہیں، مگر یہ سب ایک فطری انداز سے ہو تو بھلا لگتا ہے۔ہمارے ہاں سب کچھ عجلت میں اور مصنوعی انداز میں ہو رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے ہی کو دیکھ لیجئے، اس کا ہمارے سماج، مقامی رسم ورواج اور روایات سے کیا تعلق ؟ اس کی حمایت کرنے والوں کے دلائل دلچسپ ہیں، ''یہ محبت کا دن ہے جس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں، اتنی تلخی اور فرسٹریشن میں اگر محبت اور خوشیوں کی بات کی جائے تو کرنے دی جائے، اگر کوئی اسے منانا چاہیے تو کسی کو کیا اعتراض... وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘بھائی ،محبت کے جذبے سے کون انکاری ہے، انسان کے اندر سے یہ خوبصورت احساس اگر تحلیل ہوجائے تو پھر گوشت پوست کا ایک وجود ہی باقی رہ جائے گا۔چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش جو ہر ایک دل میں موجود ہے، اس سے کون انکاری ہوسکتا ہے۔ یہ کام مگر سلیقے اور قرینے سے اچھا لگتا ہے۔ ان کے اعتراضات بڑے سادہ ہیں۔ ایک تو یہ ہمارے ہاں کا بوٹا نہیں، یہ ہمارے ماحول ، حالات اور سماج کی زمین میں لگ نہیں سکتا، پھل پھول نہیں سکتا۔اسے رائج کرنے کی تمام تر کوششیں مصنوعی ہیں، ان پر زیادہ زور دینے سے معاشرے میں توڑ پھوڑہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔دوسرا اس کے پیچھے کاروباری مقاصد، کنزیومر ازم کارفرما ہے۔ چاکلیٹ، پھول، گفٹس دینا ایک طرف کاروباری سرگرمی ہے ۔
صرف ویلنٹائن ہی نہیں، اس طرز کے بہت سے تصورات ہمارے اوپر یکے بعد دیگر ے وار د ہور ہے ہیں،جو ہمارے معاشرے کے فیبرکس سے متصادم ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان کے خلاف کیا اور کیسے ردعمل دیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے سامنے کوئی اچھا،جامع متبادل نقطہ نظر یا کائونٹر نیریٹو بھی موجود نہیں۔عام طور پر ردعمل میں روایتی ، ٹھیٹ مذہبی نقطہ نظر سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے اس کا اسلوب، ڈکشن اور طرز استدلال مخصوص ہے، جس کی پذیرائی ایک محدود حلقے ہی میں ممکن ہے، بلکہ صرف اسی حلقے میں جو پہلے سے اسی سوچ اور فکر کا حامل ہو۔ ایک نقطہ نظر لبرل سیکولر سوچ رکھنے والوں کا ہے، ان میں سے بعض اس قسم کے تصورات کے ناقد بھی ہیں، مگر ان کا اصل مسئلہ 
اہل مذہب اور روایتی دینی حلقے ہیں۔ وہ اس خوف سے بھی آواز نہیں اٹھاتے کہ اس سے دائیں بازو کے لوگوں کو تقویت نہ مل جائے یا ان پر مذہبی ہونے کا لیبل چسپاں ہو جائے گا۔ مذہبی جماعتوں کا متحرک ہونا بھی بعض حلقوں کو خوامخواہ ردعمل میں دھکیل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کسی بھی ایشو کو ٹیک اپ کرے، اس کے خلاف تحریک شروع کرے یا آواز اٹھائے تو سماج اور اہل سیاست میں موجود اینٹی جماعت اسلامی لابی ،جو خاصی طاقتور اور پھیلی ہوئی ہے، فوراً چوکنا ہو جاتی ہے۔ وہ معاملے کو مکمل طور پر سمجھے بغیر ہی جماعت اور اس کے تصورات کی مخالفت شروع کر دیتی ہے ۔ہمارے اعتدال پسند دینی سوچ رکھنے والے اپنا نقطہ نظر سامنے نہیںلا پاتے، ویسے بھی ہمارے ہاں فکری تقسیم اس قدر بڑھ رہی ہے کہ درمیان میں رہنے والے کم ہو رہے ہیں۔ ہر ایک پر دبائو ہے کہ وہ کسی ایک انتہا پر جا کر پوزیشن سنبھال لے۔
ایک بڑا حلقہ وہ بھی ہے جوٹھیٹ مذہبی نہ سہی، مگر مشرقی روایات کا علمبردار ہے ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسے مغربی نظریات پاکستانی سماج، اس کے ہیئت ترکیبی، مقامی روایات اور رسم ورواج سے متصادم ہیں۔ یہ لوگ بھی اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ کہیں ان پر مذہبی یا بنیاد پرست ہونے کا لیبل نہ لگ جائے۔ ہمارے پنجابی دانشور اور لکھاریوں کو بھی آواز اٹھانی چاہیے کہ ان سے زیادہ پنجابی کلچر اور رسم ورواج کو کون جانتا ہے؟ پشتون تو خیر 
طالبان کے ہاتھوں ہائی جیک ہوچکے، پشتون قوم پرستوں کا حلقہ پسپا ہوتا ہوا دیوار سے جا لگا ہے، سندھی ، سرائیکی اور بلوچ قوم پرست کیوں خاموش رہتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے یا اس طرز کے نئے شگوفے... سرائیکی، سندھی اور بلوچ سماج میں ان کی جگہ کہاں ہے؟انہیں تو اپنے کلچر کے تحفظ ، اسے بچانے اور یہ ورثہ اگلی نسلوں کو سونپنے کے لئے کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستانی سماج کو درآمدی طوفانوں سے بچانا صرف مذہبی حلقوں کی ذمہ داری نہیں۔ قوم پرست دانشوروں اور ادیبوں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
پچھلے دنوں اختر حمید خان مرحوم کی ایک تحریر پڑھی۔ وہی اختر حمید خان جنہوں نے پہلے کومیلا، مشرقی پاکستان اور پھر کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ بنا کر اپنی مدد آپ کا شاندار ماڈل پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں،''جب میں کالج میں پڑھتا تھا، میرے یورپی تاریخ کے پروفیسر نے یہ حکایت سنائی، ''ایک بوڑھی عورت بحر اوقیانوس کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہتی تھی، روزانہ طغیانی کے باعث سمندر کا پانی جھونپڑی میں گھس آتااور وہ جھاڑو سے اسے نکالنے کی بے سود کوشش کرتی۔ہمارے پروفیسر اس حکایت کو انیسویں صدی میں یورپ کے شاہوں کی جمہوری قوتوں کے خلاف سعی ناکام کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کرتے۔ ‘‘اس حکایت کو کئی حوالوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے ،مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی مشرقی تہذیب کے تحفظ اور اپنی اخلاقی قدروں کو محفوظ رکھنے کے لئے سب نے مل کر کوشش نہ کی تو ہمارا حال جھاڑو سے سمندر کا پانی نکالنے والی اس بڑھیا کا سا ہوگا۔ علیحدہ علیحدہ کوشش کرنے سے سب ناکام ہوں گے اور پھر شائد نقصان کی تلافی بھی نہ ہو سکے۔ 
...............
(والدہ محترمہ کی علالت کی وجہ سے فکری انتشار ہے‘ اس کی معذرت۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اُن کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کریں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں