تیسرا رائونڈ

خدشات کے عین مطابق حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین مذاکرات بحران کا شکار ہو گئے۔ اس وقت دونوں فریق آل آئوٹ وار سے تھوڑا سا پہلے کی پوزیشن میں چلے گئے ہیں یعنی مذاکرات سے انکار نہیں اور کارروائیاں بھی چل رہی ہیں۔ دراصل کوئی بھی خود پر یہ الزام لینا نہیں چاہ رہا کہ مذاکرات اس کی وجہ سے ناکام ہوئے؛ تاہم یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں رہ سکتی، واقعات کا بہائو زیادہ دیر تک گومگو کی پوزیشن نہیں رہنے دے گا۔ اگلے چند دنوںمیں فیصلہ ہو جائے گا کہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا جائے یا پھر کھل کر آپریشن۔ 
طالبان کا معاملہ ہمارے ہاں زبردست قسم کی پولرائزیشن پیدا کر چکا ہے۔ تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس ایشو پر بیشتر لوگ انتہائی پوزیشن لے لیتے ہیں۔ طالبان کے مخالفین اس بات پر حیران ہیں کہ ریاست اپنی قوت کا بے رحمانہ استعمال کرتے ہوئے مسلح گروہوں کا خاتمہ کیوں نہیں کرتی۔ طالبان کی حامی قوتیں پاکستانی طالبان کی حمایت میں اس قدر آگے جا چکی ہیں کہ ان کے لیے شاید واپس لوٹنا ممکن نہیں رہا۔ یہ اپنی گفتگو میں وہی جملے استعمال کرتے ہیں جو ٹی ٹی پی کے ترجمان برتا کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں طالبان کے تمام مطالبات درست ہیں اور اگر کوئی غلطی ہے تو وہ پاکستانی ریاستی ادارے خاص طور پر فوج اور حکومت کی جانب سے ہے۔ ان کے خیال میں مذاکرات ہر حال میں جاری رہنے چاہئیں، خواہ ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں کی جانب سے فورسز کو نشانہ بنانے کی کتنی ہی کارروائیاں ہوتی رہیں۔ پاکستانی طالبان کی حمایت روایتی طور پر دیوبندی سکول آف تھاٹ اور اس کی نمائندہ سیاسی جماعتیں یعنی جے یوآئی فضل الرحمٰن گروپ اور سمیع الحق گروپ کیا کرتی تھیں۔ اس بار ایک عجب بات ہوئی کہ جماعت اسلامی ٹی ٹی پی کی حمایت میں جے یو آئی کے گروپوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ جماعت کی قیادت نے متواتر وہ موقف اپنایا جس سے ماضی میں گریز کیا جاتا رہا۔ پہلے سید منور حسن نے فوجی جوانوں کو شہید کہنے سے گریز کرتے ہوئے ایک ٹاک شو میں چند ایسے فقرے کہہ دیے جن سے ان پر تنقید کی ایسی بوچھاڑ ہوئی کہ اب وہ بقول شخصے کسی بھی ٹاک شو میں جانے یا گفتگو سے پہلے یہ یقین دہانی لیتے ہیں کہ کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ رہی سہی کسر پروفیسر ابراہیم نے پوری کر دی۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر صاحب بھلے آدمی ہیں، ان کی ساکھ اچھی ہے مگر جذبات کی شدت میں وہ بھی اپنے قائد ہی کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
چند ماہ پہلے اسلامک کونسل آف نارتھ امریکہ (ایکنا)کے ڈاکٹر زاہد بخاری پاکستان آئے، ان کا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے۔ پچھلے تین چار عشروں سے وہ امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں ایکنا کے پلیٹ فارم سے امریکی مسلمانوں کے حقوق کے لیے بہت متحرک ہیں۔ ان سے بڑی معلومات افزا اور دلچسپ ملاقات روزنامہ دنیا کے دفتر میں بھی ہوئی، اس ملاقات کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ ڈاکٹر زاہد بخاری نے لاہور میں میڈیا کے بعض لوگوں کو گپ شپ کے لیے مدعو کیا۔ فطری طور پر دوسری باتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کا ذکر بھی آیا۔ یاد رہے کہ آج کل کسی بھی سنجیدہ حلقے میں جماعت اسلامی کا ذکر ہو تو وہ اس کے تیزرفتاری سے ہوتے زوال کے حوالے سے ہوتا ہے، ورنہ الا ماشاء اللہ، جماعت عرصے سے ایسی کوئی سرگرمی کر ہی نہیں پائی جس کا ذکر ہو یا اس کا تجزیہ کیا جا سکے۔ انہی دنوں سید منور حسن کے ''ارشادات عالیہ‘‘ کی گرد اڑ رہی تھی۔ ڈاکٹر زاہد بخاری نے جماعت اسلامی کا تذکرہ کیا تو ہمارے ایک بہت سینئر صحافی، ایڈیٹر، کالم نگار اور اینکر نے مزے کا تبصرہ کیا۔ کہنے لگے: ''جماعت کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں جو سلیقے سے گفتگو کر سکے، نقطہ نظر جو بھی ہو، کم از کم بات تو مدلل طریقے اور مدبرانہ انداز سے کرے‘‘۔ بدقسمتی سے پروفیسر ابراہیم کی گفتگو سن کر بار بار یہی خیال آتا ہے۔ خیر جماعت اسلامی جانے اور اس کے اراکین و ہمدرد۔ ان سب کا یہی دعویٰ ہے کہ امیر جماعت اپنی مرضی سے کوئی بھی پالیسی نہیں بنا سکتا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جماعت اسلامی اپنی تمام تر ''اجتماعی دانش‘‘ کے ساتھ خودکشی کرنے جا رہی ہے۔ 
طالبان مخالف حلقوں کی شدت بھی اہم ایشو ہے۔ ان میں سے کچھ اہل مذہب کے خلاف شدید قسم کے تعصبات کے اسیر ہیں، بعض کو طالبان گروپوں کا ابھی تک ادراک ہی نہیں، اکثر یہ سمجھتے ہیںکہ شمالی وزیرستان پر آپریشن سے مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ وہ نہیںجانتے کہ شمالی وزیرستان پر حملے کے بعد تو اصل آپریشن شروع ہوگا جسے سویلین اداروں کو انجام دینا ہوگا۔ ٹی ٹی پی والا معاملہ اس قدر الجھ چکا ہے کہ اسے سمجھانا آسان نہیں۔ اس میں بہت سے اگرمگر اور چونکہ چنانچہ موجود ہیں۔اسے بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے ایک سے زائد آراء موجود ہیں، یہ مگر حقیقت ہے‘ جسے طالبان کے حامی تجزیہ کاروں اور سیاسی رہنمائوں کو بھی ماننا چاہیے کہ مذاکرات میں تعطل لانے کی مکمل ذمہ داری ٹی ٹی پی ہی پر عائد ہوتی ہے۔ چار سال پہلے اغوا کیے گئے ایف سی کے اہلکاروں کا قتل کوئی اشتعال میں کی جانے والی عاجلانہ کارروائی نہیں بلکہ یہ بڑے سوچ سمجھ کر کیا جانے والا ایسا نپا تلا اقدام تھا جس کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے۔ فوجی جوان لمبے عرصے سے اغوا ہیں، اس دوران فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان بہت سی کارروائیاں ہوئیں، دونوں طرف سے خاصا نقصان ہوا مگر عمر خالد خراسانی گروپ نے ایف سی کے جوانوں کو نشانہ نہ بنایا۔ اس بار تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا، ٹی ٹی پی کے خلاف کہیں کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی، زیر حراست قیدیوںکی ہلاکت کا کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہوا، اس کے باوجود اتنی جارحانہ کارروائی کا کوئی جواز نہ تھا، یہ صرف مذاکرات ناکام بنانے کے لیے کیا گیا۔ مہمند گروپ کوئی چھوٹا موٹا گروپ بھی نہیں، وہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قوت کا حصہ ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ ٹی ٹی پی نے جو نو رکنی سیاسی شوریٰ بنائی ہے اس کا سربراہ قاری شکیل دراصل عمر خالد خراسانی کے مہمند گروپ کا نائب ہے، خود عمر خالد کو بھی اس شوریٰ میں شامل کیا گیا تھا۔ اتنی بڑی کارروائی کرنے سے پہلے انہیں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ پھر صرف جوانوںکو قتل کرنے پر اکتفا نہیں کی گئی، فورسز اور عوام میں اشتعال پھیلانے کے لیے اس کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ مقصد یہی تھا کہ مذاکرات کے حامی حلقوں کے لیے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو سکے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کو مہمند گروپ کی اس جارحانہ کارروائی کا نوٹس لینا، ان سے خود کو الگ کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے مہمند گروپ کے موقف ہی کو اپنایا جو تباہ کن غلطی تھی۔ ایسی غلطی جس کا تمام تر نقصان امن پسند حلقوں اور دینی حلقوں کو پہنچا۔ اس وقت کوئی معجزہ ہی دوبارہ مذاکرات بحال کرا سکتا ہے، ورنہ ہم براہ راست ٹکرائو کے چوتھے رائونڈ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں