دہشت گردوں کو کیسے روکا جائے؟

دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی آپشن کامیاب ہوپائے گی یا ایک بار پھر ناکامی ہوگی... اس بحث سے قطع نظر سب سے اہم بات ہمیں اپنے کائونٹر ٹیرراز م سسٹم کو مضبوط اور فول پروف بنانا ہے۔ یاد رہے کہ ہم صرف پاکستانی طالبان یا فاٹا کے علاقوں سے پھوٹنے والی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی دو اور سطحیں بھی موجود ہیں، بلوچ انتہا پسند گروپوں کی دہشت گردی اور کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ، لیاری گینگسٹرزکے ساتھ مختلف مافیاز کی جانب سے کی جانے والی ٹارگٹ کلنگ۔دہشت گردی کی ان دو اقسام کے لئے قدرے مختلف حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ہم طالبان ٹائپ دہشت گردی کے خطرے کی بات کر رہے تھے۔اس کے لئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم دونوں طرح کی حکمت عملی بیک وقت بنانی ہوگی۔ پہلے شارٹ ٹرم کی بات کہ خطرہ سر پر ہے اور پہلے مرحلے پر عوام کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ 
دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کوناکام بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی ناکام بنایا جائے۔ طالبان ٹائپ گروپوں کے لڑکے جب حرکت میں آجائیں تو پھر انہیں روکنا آسان نہیں رہتا۔ خودکش جیکٹ پہنے کسی لڑکے کو جہاں بھی روکا جائے ، اس نے خود کو اُڑا لینا ہے، دھماکہ تو بہرطور ہوجائے گا۔جب وہ گن سے مسلح ، دستی بموں سے لیس ہو کر باہر نکلے گا تو پھر اسے قابو کرنے کے لئے خاصی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس لئے ہمیں اپنا وہ سسٹم مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے، جس کی مدد سے ہم ان لڑکوں کو جیکٹ پہننے سے پہلے ہی دبوچ لیں۔احتیاطی تدابیر کے تین حصے ہیں۔ 
1)دشمنوں کے اندرونی حلقے میں سرایت کر جانا۔ سب سے اہم حربہ یہی ہے کہ عسکریت پسند گروپوں کے نیٹ ورک میں اپنے بندے داخل کر دینا یا پھر وہاں سے کچھ لوگوں کو ساتھ ملا لینا۔ ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی ہمارے ادارے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی سے قبل از وقت باخبر ہوجائیں گے۔ انٹیلی جنس کی اصطلاح میں دشمن علاقے یا ان کے نیٹ ورک میں موجود ایجنٹوں کو اثاثہ (Assets) کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے اثاثے فاٹا کے علاقوں میں موجود تو ہیں،مگر یا تو ان کی اعلیٰ سطحی رینک تک رسائی نہیں یاپھر وہ بروقت اطلاع پہنچا نہیں سکتے۔ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آئے روز کہیں نہ کہیں پر دہشت گردوں کے حملوں اور خود کش بمبار یا جنگجوئوں کے بڑے شہروں کی جانب روانہ ہوجانے کی وارننگ ایشو ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مفروضہ خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور ہر چند دن کے بعد کسی نہ کسی شہر میں بعض حساس ٹارگٹس کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ اگر اتفاق سے اسی جگہ پر حملہ ہو جائے تو فوراً پرانا سرکلر نکال کر میڈیا میں لیک کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ قبل از وقت خبردار کردیا گیا تھا۔ یہ درست رویہ نہیں، مسئلہ خود کو محفوظ کرنے اور اپنی نوکری بچانے کا نہیں ،بلکہ اپنے ملک اور اپنے عوام کی حفاظت کا ہے۔اس حوالے سے موبائل فون ٹیپ اور سائبر چیکنگ کا بھی اہتمام کیا جائے۔ وائبر اور سکائپ استعمال کرنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں، جنہیں عام آلات سے ریکارڈ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے عالمی اداروں کی خدمات لی جائیں‘ جدید ترین آلات خریدے جائیں، چاہے ان پر کروڑوں روپے لاگت آئے۔ فیس بک اور بعض جہادی ویب سائیٹس کو بھی بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا جارہاہے، کیا ہمارے ادارے اس حوالے سے بھی باخبر ہیں؟
2)ا طلاعات کا تجزیہ: دنیا بھر میں انٹیلی جنس ایجنسیاں حاصل ہونے والی اطلاعات اور مواد کے تجزیے کا اہتمام کرتی ہیں، تجربہ کار انٹیلی جنس افسر اسی کام پر مامور ہوتے ہیں، وہ ان اطلاعات کا سائنٹفک انداز میں تجزیہ کرتے اور جس میں وزن پاتے ہیں، اس خبر کو سامنے رکھ کر کائونٹر پلان بناتے اور متعلقہ اداروں کو ریفر کر دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں جب ہر روز کوئی نہ کوئی وارننگ جاری ہوگی تو اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر روز ریڈ الرٹ رہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی ایڈوائزری سسٹم کے مطابق انتہائی خطرے میں ریڈ الرٹ، ہائی رسک میں اورنج الرٹ، قابل ذکر یا نمایاں خطرے میں یلیو الرٹ،عام خطرے میںبلیو الرٹ جبکہ گرین الرٹ سے مراد لو رسک لیا جا تا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ہاں کیا سسٹم ہے، مگر اسی سائنٹفک طرز کا سسٹم یہاں بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ جلد از جلد بنایا جائے،تاکہ وہ مختلف ایجنسیوں سے حاصل کردہ اطلاعات کو یکجا کر کے تجزیہ کرسکے۔ اس بارے میں معمول کی دفتری تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔ ایک یا دو ہفتوں کا ہدف رکھا جائے اور اسی میں یہ سیٹ اپ بن جائے، اس کے رولز اینڈ ریگولیشن بھی پہلی ہی دفتری میٹنگ میں طے ہوجائیں۔ ہم حالت جنگ میں ہیں، جس میں کسی تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ 
(3کائونٹر ٹیررازم فورس: ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک کا ایک حصہ پولیسنگ کے ذریعے نگرانی کرنا ہے۔ عسکریت پسندگروپوں کی اصل قوت شہری علاقوں میں موجود ان کا نیٹ ورک ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ جنہیں ہم دہشت گرد سمجھتے ہیں ، کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا درجہ کچھ اور ہے۔ یہی لوگ ہیں جو لاہور، کراچی، پنڈی اور دیگر شہروں میں دہشت گردوں کو پناہ دیتے، انہیں قیام وطعام کی سہولت بہم پہنچاتے، ریکی کرتے اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان دہشت گردوں سے بڑے مجرم ہیں۔ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ان پر نظر رکھنے کے لئے پولیس کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پولیس، سی آئی ڈی، سپیشل برانچ وغیرہ کے عملے میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ روٹین کی افرادی قوت اور وسائل کے ساتھ ہم عسکریت پسندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک تلخ مگر واضح حقیقت ہے۔ جس طرح حکومت نے جیسے تیسے پانچ سو ارب روپے اکٹھے کر کے گردشی قرضہ ختم کیا تھا، اسی طرح سو دو سو ارب روپے لگا کر پولیسنگ کے نظام کو اوورہال کرنا ہوگا۔ ریپڈ ایکشن فورس اب فوری طور پر بنا لینی چاہیے، مگر اس کے ساتھ یہ یاد رکھا جائے کہ سب سے اہم پولیس کا روایتی نظام ہے کہ اس کی جڑیں گہری ہیں۔ پولیس کے مخبری نظام کو البتہ مضبوط اورمستحکم کرنا ہوگا۔ 
یہ کچھ مشکل نہیں ، ایس ایچ اوز پر سیاسی دبائو ہٹا دیا جائے، انہیں ٹاسک دئیے جائیں،کچھ فنڈز مختص کئے جائیں اور چند ہی ہفتوں میں نتائج سامنے آجائیں گے۔گلی محلے میں مخبری کا نیٹ ورک بہتر بنایا جائے ، اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ شہریوں کی حمایت حاصل کی جائے۔ اگر عام شہری کے دل سے خوف نکل جائے اور وہ ریاست کی مدد کے لئے رضامند ہوجائے تو انقلاب برپا ہوجائے گا۔ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک اگر ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوگیا تو نوے فیصد دہشت گرد اپنے ہدف تک نکلنے سے پہلے ہی پکڑے جائیں گے۔ باقی ماندہ دس فیصد کے لئے اپنے سکیورٹی نظام کو جدید انداز میں ڈھالنا ہوگا۔ رحمن ملک کے دور میں اربوں روپے سکینرز پر ضائع ہوگئے، اگر دنیا میں کہیں پر ایسے سکینر موجود ہیں جو بارود سے لدی گاڑی یا گاڑی میں اسلحے کی نشاندہی کر سکتے ہیں تو انہیں ہر قیمت میں لانا اور اہم جگہوں پر نصب کرنا چاہیے۔ ایک بات یاد رکھی جائے کہ اسلام آباد کچہری جیسے حملے کا جواب موجودہ پولیس اہلکار نہیں دے پائیں گے، ان کی تربیت اس معیار کی نہیں۔ اس کے لئے ریپڈ ایکشن فورس بنانی ہوگی، اگر اس میں تاخیر ہے تو فوج سے دس پندرہ ہزار لوگ ڈیپوٹیشن پر لے لینے چاہئیں، چند ہفتوں کی ٹریننگ انہیں سویلین انداز میں کام کرنا سکھا دے گی، کم ازکم ان کی جنگ لڑنے اور مخالف کے حملے کا جواب دینے کی تربیت تو ہوتی ہے۔ حرف آخر یہ کہ ہمیں اپنے پورے سکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام کو تبدیل کرنا اور انتہائی تیزرفتاری سے اسے جدید خطوط پر ڈھالنا ہوگا،ورنہ اسلام آباد کچہری جیسے سانحات کی روک تھام آسان نہیں ہوگی۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کر ماتم کرنے اورتباہی کے بعد دہشت گردوں پر لعن طعن کرنے سے بہتر ہے کہ عملی طور پر کچھ کر لیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں