سکیورٹی سٹیٹ بمقا بلہ ویلفیئر سٹیٹ

کسی ملک کو سکیورٹی سٹیٹ ہونا چاہیے یا ویلفیئر سٹیٹ ؟ فقرے کی گہرائی میں جائے بغیر ابھی صرف ان چند الفاظ پر ہی غور کیجئے۔سادہ سا مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی ریاست اپنے مزاج اور بُنت میں یا تو سکیورٹی سٹیٹ ہوسکتی ہے یا پھر ویلفیئر۔اگر یہ بات درست مان لی جائے تو یقیناً یہ اہم سوال ہے کہ پاکستانی ریاست کو سکیورٹی سٹیٹ ہونا چاہیے یا پھر ویلفیئر سٹیٹ؟ اسی سوال کو ہمارے بعض دانشور بڑی سنجیدگی سے اٹھاتے اور اس کا تجزیہ فرماتے ہیں۔نیک نیتی اور اخلاص میں یقیناً کوئی کلام نہیں، مگر کیا ایسا تجزیہ کرنے والے کچھ زیادہ سادگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ 
پہلے سکیورٹی سٹیٹ اور ویلفیئر سٹیٹ کے تصور پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ان کی کوئی متعین تعریف تو شاید نہ مل سکے ،مگر ہمارے دانشور اور تجزیہ کار جس انداز میں ان اصطلاحات کا ذکر کرتے اور بحث کرتے ہیں ، اس اعتبار سے سکیورٹی سٹیٹ سے مراد ایسا ملک یا ریاست ہے،جہاں مختلف وجوہ کی بنا پر سکیورٹی ایشوز دوسرے معاملات پر غالب آجائیں، جہاں فوج یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ اصل طاقت بن جائے ، اس ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں سکیورٹی ایشوز کو سامنے رکھ کر بنائی جائیں، عام شہریوں کی فلاح وبہبود ، قومی بجٹ میں سوشل سیکٹر کے لئے مختص رقم کی حیثیت ثانوی ہو،ملکی دفاع اور سکیورٹی ایجنڈے کو ترجیح حاصل ہو۔ ویلفیئر سٹیٹ میں اس کے برعکس شہریوں کی فلاح وبہبود بنیادی اور اولین ترجیح ہوتی ہے۔اس ملک کے بجٹ میں سوشل سیکٹریعنی صحت، تعلیم ،انصاف،عوام کو جدید سہولتوں کی فراہمی پر زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، دفاع کی نوعیت ثانوی ہوتی ہے، اس کے لئے زیادہ رقم نہیں رکھی جاتی یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ویلفیئر سٹیٹ میں داخلی اور خارجہ پالیسیاں بناتے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 
جب اوپر دیے گئے الفاظ میں سکیورٹی سٹیٹ اور ویلفیئر سٹیٹ کی تعریف کی جائے تو کون کافر ہوگا جو یہ کہے گا کہ اس کا ملک سکیورٹی سٹیٹ بنے، ہر ایک چاہے گا کہ وہ ایک فلاحی یا ویلفیئر ریاست میں زندگی گزارے، جہاں اس کی خاطر سب کچھ کیا جائے، اسے دنیا جہان کا سکھ دینے کی کوشش کی جائے۔ یہاںپر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہم اپنے ملک پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کے بجائے سکیورٹی سٹیٹ کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ اس عظیم مقصد کی راہ میں کیا امر مانع ہے؟ کیا صرف پانچ چھ لاکھ فوج ہی اس غیرمعمولی خوبصورت تصور کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے، چند اعلیٰ افسران جنہیں یہ خطرہ ہے کہ اگر ملک ویلفیئر سٹیٹ بن گیا تو ان کی اہمیت ختم ہوجائے گی، ان کے اللے تللے ختم ہوجائیں گے؟ یہ وہ تاثر ہے، جو ہمارے بیشتر لبرل سیکولردانشور یا روایتی مذہبی نقطہ نظر کے ناقد اہل قلم دیتے ہیں۔ ان کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ اگر ہم اپنے دفاعی بجٹ کو کم کردیں تو یہ رقم شہریوں کی فلاح پر خرچ ہوسکتی ہے، آخر ہمیں اتنی بڑی فوج کی ضرورت ہی کیا ہے... وغیرہ وغیرہ۔ 
ہمارے خیال میں یہ تمام بحث ایک فکری مغالطہ ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ بمقابلہ ویلفیئر سٹیٹ کی بحث کا کوئی جواز نہیں۔ دنیا میں دو ہی طرح کی ریاستیں پائی جاتی ہیں۔ اچھی ریاست یابری ریاست۔ ریاستیں یا دوسرے الفاظ میں ان کی حکومتیں بری ہوتی ہیں یااچھی ۔ وہاں گڈ گورننس ہوتی ہے یا بیڈ گورننس۔ اچھی ریاست میں گڈ گورننس صرف الفاظ کی حد تک نہیں،بلکہ عملی طور پر نظر آتی ہے، وہاں ادارے مستحکم ہوتے اور اپنا کام بڑی عمدگی سے سرانجام دیتے ہیں۔ بری ریاستوں میں بیڈ گورننس ہر طرف نظر آتی ہے۔ادارے تباہ حال ، حکمران اور عمال کرپٹ اور خود غرض ہوجاتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر ریاست کومختلف ادوار میں مختلف نوعیت کے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض چیلنجز بڑے اور فیصلہ کن نوعیت کے ہوتے ہیں کچھ ثانوی نوعیت کے۔ ریاست ان چیلنجز پر جس طرح کا ردعمل دیتی ہے، وہی اسے بسا اوقات اچھی اور بری یا نالائق ریاستوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جدید تاریخ کے سب سے بڑے ماہر پروفیسر ٹائن بی نے کئی جلدوں پر مشتمل اپنی شاہکار کتاب اے سٹڈی آف ہسٹری اسی اہم نکتے کو واضح کرنے کے لئے لکھی۔ ان میں سے کچھ چیلنجز بیرونی یعنی داخلی نوعیت کے ہوتے ہیں تو بعض اندر سے جنم لیتے ہیں۔ایک اور بات بھی اچھی، کامیاب اور مضبوط ریاستوں کو بری، نالائق اور کمزور ریاستوں سے ممیز کرتی ہے، وہ غلطیوںسے سبق سیکھنے کی اہلیت ہے۔ مہذب جمہوری معاشروں میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے ، ان کی اصلاح کرنے اور مستقبل میں ان کو دہرانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے وہ اپنی اجتماعی قومی دانش بروئے کار لانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ تھنک ٹینک بنائے، یونیورسٹیوں کے ریسرچرز اور سکالرز کو اہم قومی مسائل کے حوالے سے اسائنمنٹس سونپی اور حزب اختلاف کے رہنمائوں سے مشاورت کے بعد بنیادی ملکی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ 
جہاں تک سکیورٹی معاملات یا ایشوز کو اہمیت دینے کی بات ہے، یہ بہت سے معاملات میں اختیاری نہیں ہوتا۔ دراصل بعض ممالک کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہوتی ہے، اس کے گرد ایسے پڑوسی موجود ہوتے ہیں، جن کی طرف سے کوئی نہ کوئی چھیڑ چھاڑ ہمیشہ چلتی رہتی ہے، کسی خاص خطے میں بعض اقوام یاممالک کے مابین فطری تضادات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہاں مستقل امن کی صورتحال قائم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اب پاکستان کو ہی دیکھ لیجئے، ہماری مغربی سرحد افغانستان سے ملتی ہے، جو ہمیشہ سے کسی نہ کسی انداز کی شورش کا مرکز رہا ہے۔ یہ صورتحال آج کی نہیں، سٹریٹجک ڈیپتھ کی پھبتی تو خیر آج کل کسی جاتی ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ پچھلے ہزار سال سے یہ سرحد برصغیر پاک وہند کے لوگوں کے لئے مستقل درد سر بنی رہی۔ کتنے ہی حملہ آور یہاں سے وارد ہوئے، بعض بے پناہ تباہی پھیلا کر واپس چلے گئے تو کئی یہاں پر ٹک گئے اور آج وہ پاک وہند کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ کروڑوں لوگ افغانستان سے یا اس راستے سے یہاں پر آئے، کچھ یہاں مدغم ہوگئے تو بے شمار مقامی لوگوں کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے۔ یورپ میں بھی اس نوعیت کے مسائل رہے،وہاں بھی کئی ممالک ہمیشہ پستے رہے، بڑی طاقتوں کی پاور گیم کا نشانہ انہیں بننا پڑا۔ ابھی یوکرائن کا مسئلہ کیا ہے؟ وہاں سیکورٹی سٹیٹ یا 
ویلفیئر سٹیٹ کا ایشو نہیں ، یورپی یونین اور امریکہ کے مقابلے میں روسی اثرورسوخ کی کشمکش ہے، جس کا نشانہ یوکرائنی باشندوں کو بھگتنا پڑے گا۔ جس خطے میں بھارت جیسا جارحانہ ایجنڈا رکھنے والا ملک موجود ہو گا، جو اپنے خطے میں زبردستی بڑے بھائی کا رول نبھانا چاہتا ہے بلکہ اپنے خطے میں کسی چھوٹے بھائی کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں، اسے صرف طفیلی ملک ہی چاہئیں، وہاں پرریاست کوئی بھی ہو، سکیورٹی ایشوز ان کی بنیادی ترجیح بن جائے گی۔ پاکستانی ریاست میں بے شمار مسائل ہیں، کئی چھوٹی خرابیاں اب شدت اختیار کر چکی ہیں۔ ان سب کو ٹھیک کرنا ہوگا، ہمیں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم مرض کی تشخیص درست کر لیں۔ 
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بیڈگورننس بلکہ نان گورننس ہے۔ اگر شہریوں کی ویلفیئر کے لئے کام نہیں ہورہا، تو اس کی بڑی وجہ کرپشن اور نالائقی ہے۔ صحت، تعلیم اور سوشل سیکٹر کے دیگر شعبوں میں اس وقت جتنے فنڈز موجود ہیں ،وہی اگر درست طریقے سے استعمال کر لئے جائیں تو بہت سے معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ ہم ڈیفنس بجٹ کا ایک عرصے سے رونا روتے رہے ہیں، مگر آج قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہمیں ڈیفنس بجٹ سے دوگنے سے زیادہ رقم خرچ کرنی پڑ رہی ہے۔ اس بدانتظامی کا ذمہ دار کون ہے؟ صرف پانچ سالہ سابق دور حکومت میں بیس پچیس ارب ڈالر کے بیرونی اور ایک ہزار ارب سے زیادہ کے اندرونی قرضے لیے گئے۔ ان میں سے سکیورٹی پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوا؟ جو ادارے درست طریقے سے چل رہے تھے، انہیں ڈبو دیا گیا، ان کے دیوالیہ ہوجانے میں کس کا ہاتھ ہے؟ہمیں اپنی غلطیاں سدھارنی، سمت درست کرنی ہے، مگر اس کے لئے پہلے ہمیںمسائل کی درست تشخیص کرنی ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں