باتیں کلدیپ نائر کی

چند دن پہلے ممتاز بھارتی صحافی کلدیپ نائرلاہور میں ،ایک تھنک ٹینک کی تقریب میں مدعو تھے۔ کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل گفتگو کا ایجنڈا تھا۔ کلدیپ نائر کے ساتھ ہمارے شعلہ بیان مقرر اور اتنے ہی تیز دھار کالم نویس اوریا مقبول جان بھی سپیکر تھے۔ اوریا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے کئی واقعات سنائے، ڈرامائی نشیب وفراز سے گزار کر انہوں نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت پر زور دیا اور یہ ثابت کیا کہ یہ فلیش پوائنٹ ہے، اسے نظرانداز کرکے امن قائم کرنا ممکن نہیں۔ کلدیپ نائر خاموشی سے وہ سب باتیں سنتے رہے۔ گفتگو شروع کرتے ہوئے پہلے انہوں نے اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کا ذکر کیا، لاہور میں گزرے اپنے ایام جوانی کی یاد تازہ کی ، ایف سی کالج لاہور سے انہوں نے گریجوایشن اور لاہور ہی سے لاء کیا۔ قائداعظم سے ملاقات کی تفصیل سنائی، جنہوں نے بقول کلدیپ یہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت نہ صرف امریکہ اور کینیڈا کی طرح دوست پڑوسی ہوں گے بلکہ اگر کسی بیرونی قوت نے بھارت پر حملہ کیا تو پاکستانی فوجی بھارت کا ساتھ دیں گے۔ تقسیم کے بعد کلدیپ نائربھارت چلے گئے ، دلی کے ایک اردو اخبار کو جوائن کر لیا۔ انہوں نے مولانا حسرت موہانی سے ملاقات کا دلچسپ احوال بتایا۔ کہنے لگے کہ جہاں ہمارا دفتر تھا، مولانا بھی وہیں اسی عمارت میں مقیم تھے۔ کلدیپ نائر کو اردو شاعری سے دلچسپی تھی،انہوں نے ایک روز مولانا سے ملاقات کی اور انہیں اپنی شاعری دکھائی، مقصود اصلاح لینا تھا۔ حسرت موہانی صاف گو انسان تھے، انہوں نے نوجوان کلدیپ کو دو مشورے دئیے، پہلا یہ کہ شاعری چھوڑ دو، اس میں کچھ نہیں رکھا، دوسرا یہ کہ بھارت میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں، اس لئے اردو صحافت چھوڑ کر انگریزی میں طبع آزمائی کرو۔کلدیپ نائر مولانا حسرت موہانی کے مشوروں سے متاثر ہوئے، شاعری تو انہوں نے فوری چھوڑ دی، اس کے بعد کبھی کوئی شعر نہیں کہا، اردو صحافت بھی جلد چھوڑ دی، باہر چلے گئے، وہاں مزید تعلیم بھی حاصل کی اور پھر انگریزی صحافت ہی کو اختیار کیا، جس میں انہیں نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 
کلدیپ نائر کی آٹو بائیو گرافی ''Beyond the Lines‘‘ ڈیڑھ دو سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ برادرم رئوف کلاسرا‘ جنہیں کتابیں پڑھنے بلکہ خرید کر پڑھنے میں ملکہ حاصل ہے، نے مجھے اس کتاب کے بارے میں پرجوش میسج بھیجا،جس کا مفہوم تھاکہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بہتر نان فکشن بک نہیں پڑھی۔ انہوں نے اس کتاب پر ایک دو کالم بھی لکھے۔ میری خواہش تھی کہ اسے پڑھا جائے ،مگر وقت کے شکنجے سے اتنی فرصت ہی نہ مل پائی۔ میرے پاس ایسی درجنوں کتابیں جمع ہوچکی ہیں، جنہیںابھی پڑھنا ہے۔سوچتا ہوں کہ اس کے لئے کیلنڈر سے چند گھنٹے چرانے ہی پڑیں گے۔خیر نائر صاحب کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ بھی اب شائع ہوچکا ہے، فکشن ہائوس لاہور نے اسے ''ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔سوچ رہا ہوں کہ ترجمہ ہی پڑھ لیا جائے ، ایک لمبی نشست کافی ہوجائے گی۔ پڑھنے کے بعد اسے ضرور قارئین سے شیئر کروں گا۔ 
بات اس تقریب کی ہو رہی تھی، کلدیپ نائر کی اپنی ایک خاص سوچ اور فکر ہے۔ وہ پاک بھارت دوستی کے پُرجوش علمبردار ہیں۔ بتانے لگے کہ پچیس برسوں سے ہر سال چودہ اگست کو واہگہ بارڈر پر آ کر امن کی شمعیں جلاتا ہوں۔ پہلے تو اکیلا یا دو چار دوست آتے تھے، مگر پچھلے سال بھارتی پنجاب کی سائیڈ پر ایک لاکھ افراد کا مجمع اکٹھا تھا ،جو امن کے نعرے لگا رہا تھا۔ بزرگ بھارتی صحافی نے صاف گوئی سے کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر تقسیم کا مخالف تھا اور ہوں، میں مذہب کی بنیاد پر دو قومی نظریے کو نہیں مانتا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کا مرحلہ تو گزر گیا، اب میں اس کے حق میں ہوں کہ سرحدوں کا احترام کیا جائے، ایک دوسرے کے ساتھ امن وامان سے رہا جائے اور تمام تر توجہ عام آدمی کی زندگی بہتر کرنے پر لگانی چاہیے۔کلدیپ نائرکا کہنا تھا کہ میرا مستقبل کے حوالے سے ویژن یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار ہوں گے اور یورپی یونین کی طرز پر تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ یہ پورا خطہ تجارتی مرکز بنے گا۔کلدیپ نائر اس سے متفق تھے کہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے ،تاہم کشمیر کا مسئلہ بھی پرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے، جنگ اس کا حل نہیں، کلدیپ نائر کے بقول دونوں طرف کے کشمیرکے عوام کوزیادہ سے زیادہ داخلی خود مختاری دی جائے، صرف دفاع اور خارجہ امور کے محکمے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے پاس ہوں ، کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے پر کوئی پابندی نہ ہو، یہ اس کا فطری حل ہے۔
تقریر ختم ہونے کے بعد ان سے خاصے تندوتیز سوالات ہوئے۔میڈیا کے بعض لوگ اور چند ریٹائر فوجی افسران ،جو آج کل اخبارات اور ٹی وی پر تجزیہ نگاری کرتے ہیں، بھی شریک 
تھے۔ انہوں نے اعدادوشمار کی رو سے بھارت میں مسلمانوں کی ابتر حالت زار کی نشاندہی کی اور بھارتی حکومت کی پالیسیوں کو اس کا سبب قرار دیا۔ ایک سوال بھارتی مہمان سے بار بار ہوا ،'' پاکستان آنے والے بھارتی فنکاروں، ادیبوں ، سیاستدانوں اور دیگر عمائدین کی بڑی پزیرائی ہوتی ہے ، مگر ہر ایک کسی نہ کسی بہانے سے یہ بات ضرور کہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کھینچی گئی سرحد دراصل مصنوعی لکیریں ہیں، جنہیں مٹ جانا چاہیے۔ ہم ایک ہیں، وقت نے ہمارے درمیان دیواریں کھڑی کر دی ہیں، جنہیں گرانا ہوگا ... وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘کلدیپ صاحب اس حوالے سے وضاحت پیش کرتے رہے ۔ ان کا کہنا تھا ،'' بھارت میں ایسی کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ ایک زمانے میں وہاں پاکستان کے خلاف فضا تھی، ان دنوں پاکستان سے دوستی کی بات کرنا بھی مشکل تھی، مگر اب تو صورتحال یکسر بدل چکی ہے،بھارتی سیاست میں بھی پاکستان کے خلاف نعرے نہیں لگتے۔بلکہ اب تو بھارت میں ایک بڑی لابی یہ کہتی ہے کہ ''خبردار جو پاکستان کو ساتھ ملانے کی بات کی، پہلے ملک میں مسلمان تھوڑے ہیں جو بیس کروڑ مزید لائے جائیں‘‘۔ کلدیپ نائر کی وضاحت کے باوجود بار بار یہی سوال ہوتا رہا۔میں نے اپنی باری پر نقطہ اٹھایا کہ ''آپ اس خطے کو یورپی یونین کی طرح مشترکہ تجارتی اقتصادی منڈی دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اس علاقے کے اپنے تضادات اور داخلی مسائل ہیں۔ اس نوعیت کے تجارتی اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لئے بڑے ممالک کو کچھ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے ،بلکہ ایثار کی نوبت آجاتی ہے۔اگر یورپی یونین میں انگلینڈ، فرانس اورجرمنی جیسے ملک ایثار سے کام نہ لیتے 
تو یورپ کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتا تھا۔ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ خطے کا بڑا ملک بھارت ہے ،مگر وہ زبردستی بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کا پورے خطے میں ایک ایجنڈا ہے اور وہ اسے ہر حال میں آگے بڑھاتا ہے۔ہمسایہ ممالک کو مجبوراً اپنے مفاد کی خاطر نہ صرف مستعد ہونا پڑتا ہے ،بلکہ بھارتی ایگریسو پالیسیوں کو کائونٹر کرنے کے لئے پراکسی وار لڑنے کی حد تک جانا پڑتا ہے۔ اس لئے جب تک بھارتی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنشیا کی سوچ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک تجارت اور اقتصاد سمیت کسی بھی حوالے سے ٹھوس اور بامعنی پیش رفت نہیں ہوسکتی، بلکہ اگر کسی طرح کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہوجائے تب بھی یہ کشیدگی کسی اور طریقے سے ظاہر ہوجائے گی‘‘۔ تقریب کے میزبان نے کلدیپ نائر سے اس پر تبصرہ کرنے کا کہا تو انہوں نے ایک فقرے میں جواب دیا کہ مجھے اس بات سے پورا پورااتفاق ہے۔ تقریب کے بعد چائے پیتے ہوئے میں کلدیپ نائر کے پاس بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہا۔ایک دوست نے ان سے کہا کہ آپ کی بات بھارت میں سنی جاتی ہے، براہ کرم وہاں بتائیے کہ اگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پانی کے مسئلے پر پاکستانی تحفظات دور نہ کئے تو کشیدگی بڑھے گی اور ایک بڑی جنگ پانی کے مسئلے پر برپا ہوسکتی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی جب تجربہ کار بھارتی صحافی نے اس بات سے بھی اتفاق کیا، ان کا کہنا تھا کہ پانی کے معاملے پر بھارت کو لچک دکھانی چاہیے، پاکستان کو اکاموڈیٹ کیا جائے ، ورنہ خلیج بڑھے گی۔ اپنی آپ بیتی کے حوالے سے وہ خاصے پرجوش تھے،کہنے لگے کہ میں نے دانستہ اردو ترجمے کانام ''ایک زندگی کافی نہیں ‘‘رکھا، میری عمر نوے سال ہونے والی ہے، بھرپور زندگی گزاری مگر اب جا کر احساس ہوا کہ یہ دنیا دیکھنے ، اسے سمجھنے اور گہرائی کے ساتھ دیکھنے کے لئے ایک زندگی کافی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں