کون سا نظام؟

بچپن میں ہمارے گھر کے پاس ایک بابا جی کی دکان ہوا کرتی تھی،دکان کیا، ایک کھوکھا سا تھا۔زیادہ سامان نہیں تھا، دو چار مرتبان سے پڑے ہوتے ، وہاں سے بچوں کے کھانے پینے کی چھوٹی موٹی اشیاء مل جاتیں۔ ویسے اس زمانے میں آج کل کی طرح کے مزے مزے کے چاکلیٹ، کینڈی، چپس وغیرہ کہاں ملتے تھے۔ چاکلیٹ کی تو شکل ہی اس وقت دیکھنے کوملتی ،جب باہر سے کوئی عزیز پاکستان آتا اور ازراہ تلطف چاکلیٹ کا تحفہ دیتا۔ اسی طرح آج کل چپس کی درجنوں ورائٹی موجود ہے، ہمارے بچپن میں تو ایک ہی طرح کے چپس اور ایک ہی طرح کی نمکو تھی، جس پر تیز مسالہ چھڑک کر دیا جاتا۔یہ اور بات کہ ان بظاہر عام سی چیزوں میں جو مزا تھا، آج کے مہنگے ترین چاکلیٹ اور امپورٹڈ چپس میں نہیں ملتا۔ شائد ہر دور میں گزرے لمحات کا اپنا لطف ہے، جس کا موازنہ کسی اوروقت سے نہیں کیا جاسکتا۔خیربات بابا جی کی ہورہی تھی، ان کا نام اللہ وسایا تھا، مگر ہم سب چاچا وسو یا ڈاڈا (دادا)وسو کہہ کر پکارا کرتے۔ اس دکان پر ایک اور بابا آ کر حقہ پیا کرتا۔ وہ کسی دور میں فوج میں رہا تھا اور اسے تقسیم سے پہلے ہندوستان کے کئی شہروں میں گھومنے کا موقعہ ملا۔ حقہ کے کش لیتے ہوئے ، وہ اس زمانے کی کہانیاں سنایا کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بات وہ ہمیشہ زور دے کر کہتا ،'' انگریز کے زمانے کی کیا بات تھی، ان کا نظام بہت اچھا تھا، ہر ایک کو انصاف ملتا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی تھی۔‘‘ اس بات پر وہاں بیٹھے دوسرے بابے تائید میں سر ہلاتے۔ یہ بات میں نے اکثر جگہوں پر سنی۔ انگریز کے دور کی تعریف کرنے والے مجھے احمد پورشرقیہ سے لاہور تک بہت لوگ ملے۔ ان سب کا اصرار یہی ہوتا کہ انگریز کا سسٹم ٹھیک تھا، ایمانداری تھی، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوسکتی تھی، پولیس اپنا کام کرتی، انگریز افسر اصول کا بڑا پابند ہوتا ... وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات ہے کہ جب مطالعہ کرتے تو معلوم ہوتا کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کو سخت نقصان پہنچایا، بے پناہ لوٹ مار کی اور مقامی صنعتوں کو پنپنے نہیں دیا، اس خطے کو صرف خام مال کے لئے ہی استعمال کرتے رہے۔ یہ تحقیق اور علمی باتیں کتابوں کی حد تک محدود تھیں، گلی محلے میں عام آدمی کی رائے البتہ مختلف ملتی۔ وجہ سادہ سی تھی کہ عام آدمی کو اکانومی کے تقاضے معلوم نہیں، وہ چیزوں کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھتا، اس کا تمام تر سروکار اس کی اپنی زندگی سے رہتا ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی، بیمار پڑنے پر دوائی ، اپنے بچوں کے لئے سستی اور معیاری تعلیم ، ضرورت پڑنے پر سستا انصاف اوراگلی نسل کے لئے مناسب سے معاشی مستقبل کی یقین دہانی درکار ہوتی ہے۔
آج کل ہمارے ہاں ایک فقرہ بہت مقبول ومعروف ہے۔ ہر جگہ یہی نعرہ ملتا ہے کہ ہم نظام بدل دیں گے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعتیں بھی یہی کہتی ہیں کہ یہ سسٹم یا نظام گل سڑ گیا ہے، ہم اس کی جگہ نیا نظام لائیں گے۔ انقلابی ایجنڈا رکھنے والی تنظیمیں ہوں، شدت پسند گروہ ہوں یا مسلح عسکریت پسند ... ان سب کا بنیادی ہدف موجودہ نظام ہی رہا۔ جب بھی کہیں کسی مظلوم کے ساتھ زیادتی ہو، مقامی انتظامیہ کی نااہلی اور بے حسی آشکار ہو ،تو خواہ وہ عدالت ہو یا سیاسی جماعتیں یا اس المیے پر صف ماتم بچھانے والے تجزیہ کار اور ٹی وی اینکرز... ہر ایک کی زبان پر ایک ہی فقرہ آتا ہے کہ اس گلے سڑے نظام کو بدلنا ہوگا۔ اپنی اٹھارہ انیس برس کی صحافت میں سینکڑوں بار یہ جملہ پڑھا اور سنا۔ ان تمام حلقوں سے معذرت کے بعد یہ سادہ سا سوال اٹھانے کو جی چاہ رہا ہے کہ موجودہ نظام کس طرح بدلے گا؟ اس کی جگہ کون سا نظام لائیں گے؟ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ان اقوال زریں پر ایمان لانے کے بجائے پہلے یہ سوال پوچھ لیا جائے کہ اس جملے کی وضاحت تو کر دیں۔ اگر نظام بدلنا مقصود ہے تو آپ کے پاس نئے نظام کا کوئی نقشہ تو موجود ہوگا، اسے شیئر کر لیں ۔ اگر کسی کے ذہن میں پولیس کے سسٹم کو بدلنے کا نقشہ ہے تو اسے شیئر کریں، جیسا کہ عمران خان نے ایک بار کہا تھا کہ بعض مغربی ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی تھانے دار (شیرف)منتخب ہوا کرے گا، اس پر ان کا اس قدر مذاق اڑا کہ دوبارہ انہوں نے یہ تجویز نہیں دہرائی۔ تاہم اگر کوئی واقعی اس ماڈل پر یقین رکھتا ہے تو اسے شیئر کرے تاکہ اس کا تجزیہ کیا جاسکے۔ چیف منسٹر پنجاب نے اگلے روز مظفر گڑھ میں بھی یہی بات کہی کہ یہ گلا سٹرا نظام بدلنا ہوگا۔ ان کے ذہن میں یقینا کوئی خاکہ ہو گا کہ یہ بات انہوں نے کم وبیش سو ڈیڑھ سو بار کہی ہے ۔انہیں اس کام میں دیر کیوں لگ رہی ہے ؟ 
سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر نظام میں کیا تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ ڈپٹی کمشنر کی جگہ ڈی سی او لا کے ہم نے دیکھ لیا، اب دوبارہ کمشنری نظام لے آئے، کیا چیزیں بہتر ہوگئیں؟کیا پولیس کی جگہ کوئی نئی فورس بنائی جائے گی؟ تھانوں میں تفتیش کے بجائے کچھ اور کیا جائے گا؟ پٹواری کے عہدے کا نام بدل دیا جائے گا؟ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جگہ مشینوں سے علاج کرایا جائے گا؟ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جگہ روبوٹ لے لیں گے؟ تعلیمی اداروں میں ٹیچرز کی جگہ کوئی اور مخلوق پڑھایا کرے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں، جو ہمیں پوچھنے ہوں گے۔ کب تک پٹے پٹائے فقرے اور گھسے پٹے فرسودہ نعرے سنتے رہیں؟ ہمارا موجودہ نظام کم و بیش اسی طرز کا ہے، جس پر انگریز کے دور کی انتظامیہ کاربند تھی۔ اگر فلموں کی طرح عملی زندگی میں بھی فلیش بیک کر کے منظر کو ستر سال پیچھے لے جایا جائے تو یکسر مختلف منظرنامہ نظر آئے گا۔اگر فیوڈل نظام برا ہے اور یقیناً برا ہے تو اس وقت یہ نظام آج سے سو گنا زیادہ طاقتور تھا۔ اس وقت بھی سیاسی میدان میں یونینسٹ پارٹی کے زمین دار اور جاگیردار چھائے تھے۔ بلدیاتی اداروں اور اسمبلیوں میں عام آدمی کی جگہ تب بھی نہیں تھی، وہاں جاگیردار، نواب ،مخدوم اور سردار ہی تھے۔ پنجاب اور سرحد دونوں جگہ دیکھ لیں۔ سرحد اور بلوچستان کی تو صورتحال مزید دگرگوں تھی۔ اس کے باوجود عام آدمی اس طرح ظلم کا شکار نہیں 
تھا، کیونکہ انتظامیہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ قوانین وضوابط کے مطابق کام کریں۔ پولیس کو سختی سے ہدایات تھیں کہ قتل یا زیادتی کرنے والا خواہ جس قدر طاقتور اور بااثر ہو، اسے چھوڑنا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی رٹ بھی قائم کی، ایک سپاہی بڑے سے بڑے سردار کو گھر سے گرفتار کر کے تھانے لے جا سکتا تھا۔محکمہ مال یا دوسری جگہوں پر بدعنوانی برائے نام تھی۔ سکولوں میں تعلیمی معیار اس قدر عمدہ تھا کہ اس زمانے کے پرائمری اور مڈل پاس بھی آج کے بی اے سے بہتر انگریزی اور اردو لکھ سکتے تھے۔
آج کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس ہو یا انتظامیہ کے دوسرے شعبے ، ہر جگہ افسران اور نچلے اہلکاروں کی وابستگی آئین، قانون اور ضابطوں سے نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی سزا اور جزا کا دارومداران طاقتوراور بااثر افراد کے ہاتھ میں ہے، جن کا مقامی سطح پر بھی اثرورسوخ ہے اور جو صوبائی اور ملکی سطح پر بھی مختلف مافیاز کا حصہ ہیں۔جدید تقاضوں کے مطابق ہمارے نظام میں تبدیلیاں آنی چاہئیں، جدید ٹیکنا لوجی کو اس کا حصہ بننا چاہیے، مگر اصل خرابی نظام میں نہیں ، افراد میں ہے۔ اصل خامی یہ ہے کہ ہمارے حکمران میرٹ اور اہلیت کی بنا پر تقرر اور تبادلے نہیں کرتے، اگر کوئی افسر راہ راست پر چلنے کی جرأت کر بیٹھے تو کوئی اس کی پشت پناہی نہیں کرتا۔ جس دن یہ ہو گیا، اسی گلے سڑے نظام سے خوشگوار مہک آنا شروع ہو جائے گی۔ نظام کی تبدیلی کا نعرہ صرف اپنی کمزوری اور بے ہمتی چھپانے کے لئے لگایا جاتا ہے۔ نیت ہو تو اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، اس کے لئے طویل عرصہ بھی درکار نہیں۔ چند ماہ میں نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں