سید منور حسن کو شکست کیوں ہوئی؟

جماعت اسلامی کے امیر کے انتخابات میں جناب سراج الحق کا منتخب ہوجانا اپنی نوعیت کا ایک تاریخ ساز واقعہ تو ہے ہی، مگر اس کے اور بھی کئی مضمرات اور اثرات ہیں۔جماعت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اراکین جماعت نے پچھلے امیر کو منتخب نہیں کیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ قیم یعنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل کو امیر بننے کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ روایتی طور پر جماعت کا کوئی امیر اپنی خرابی صحت کی بنا پر الیکشن لڑنے سے معذوری اختیار کرے ،تب ہی اراکین کسی کو نیا امیر منتخب کرتے ہیں، ورنہ شوریٰ تو ہر بار تین نام ہی نامزد کرتی ہے ،مگر کارکن پہلے سے چلے آئے امیر ہی کو جتواتے رہے ہیں۔ جب امیر مقابلے میں نہ ہوا تو پھر روایت یہی رہی کہ اراکین نے قیم کو ووٹ ڈالا، جو نیا امیر بن گیا۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن پہلے قیم تھے۔ اس بار قیم لیاقت بلوچ تھے، مگرسید منور حسن کو مسترد کرنے والے اراکین نے جناب بلوچ کو بھی پزیرائی نہیں بخشی۔ ان انتخابات کے چند پہلو ایسے ہیں، جن پر بات ہونی چاہیے۔
جماعت اسلامی کے ترجمان کی وضاحت منگل کے اخبارات میں شائع ہوئی ،جس میں یہ کہا گیا کہ سراج الحق کی جیت کو سابق امیر سید منور حسن اور لیاقت بلوچ کی شکست نہ گردانا جائے۔ ترجمان نے یاد دلایا کہ یہ تینوں خود امیدوار نہیں بنے تھے، انہیں شوریٰ نے نامزد کیا، امیدواروں نے انتخابی مہم بھی نہیں چلائی، اس لئے اسے روایتی انتخابات کی طرح ایک کی فتح اور باقیوں کی شکست نہ سمجھا جائے ۔ ‘‘ امیر کے انتخاب میں ہارنے والے دونوں امیدواروں کے لئے دل میںموجود احترام کے باوجود یہ وضاحت گلے سے نہیں اتر پائی۔ انتخاب میں تین امیدوار تھے، ان کی اہلیت ، مثبت اور منفی پہلو سب کو دیکھ کر ووٹ ڈالا گیا ہوگا۔ ووٹ بینک جماعت اسلامی کے تجربہ کار اراکین پر مشتمل تھا۔ جماعت کا سسٹم کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہر اہم لیڈر کا مختلف اجتماعات کے مواقع پر اراکین کے ساتھ خاصا انٹرایکشن رہتا ہے، تقریریں، درس قرآن ، سوال جواب کے مختلف سیشنز،ہر ایک کی صلاحیتیں جانچنے اور پرکھنے کا خاصا وقت مل جاتا ہے۔ ان تینوں امیدواروں کو کمپین چلانے کی ضرورت نہیں تھی کہ ان کے نظریات، سوچ اور ارادے اراکین جماعت کے علم میں تھے۔ عام انتخابات ہوں یا نچلی سطح کے کونسلر کا انتخاب، بیشتر اوقات ووٹر امیدواروں سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے۔ اس لئے کمپین چلا کراپنے بارے میں بتایا جاتا اور اپنے پلان شیئر کیے جاتے ہیں۔ امیر جماعت کے انتخاب میں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کوئی رکن جماعت ایسا ہوگا ،جس نے سید منور حسن یا لیاقت بلوچ کو نہ سنا ہو، انہیں نہ جانتا ہو، ان کی صلاحیتوں سے بے خبر ہو؟ ایک صحافی دوست نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیا کہ ''جماعت کے ہر امیر ہربار انتخابات میں شکست کے بعد یہ بیان دیتے رہے کہ ہمیں اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے۔ اس شکست کومگر اخلاقی فتح قرار نہیں دے سکتے، اس لئے اسے ہار ہی کہنا چاہیے ۔ ‘‘
یہ سامنے کی حقیقت ہے اور مان لینا چاہیے کہ سید منور حسن کو جماعتی انتخاب میں شکست ہوئی ہے۔ شکست کا لفظ کسی کی تضحیک کے لئے نہیں برتا جا رہا ۔درحقیقت یہ کسی ایک فرد کی نہیں،بلکہ سید صاحب کی سوچ، نظریات، کام کرنے کے انداز اور طرز امارت کی ناکامی ہے۔ یہ اہم ترین نقطہ سمجھ لینا ضروری ہے‘ ورنہ اراکین جماعت نے جو روایت شکن اور انقلابی اقدام کیا،وہ بے ثمر چلا جائے گا۔ جناب منورحسن نے جس طرح معاملات چلائے ،جماعت اسلامی کو وہ جس نہج پر لے گئے ،امیر جماعت کے عہدے کو جتنا متنازع وہ بنا چکے... اس کے بعد یہ ہونا ہی تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو حیرت ہوتی ۔ جماعت اسلامی کے معاملات سے معمولی سی بھی واقفیت رکھنے والا یہ جانتا تھا کہ سات عشروں سے کچھ زائد عمر رکھنے والی یہ جماعت بتدریج زوال کے بعد ڈھلوان کے جس سفر پر یہ گامزن ہے ، وہاں سے اسے اٹھانا، کھینچ کر واپس لے آنا سید منور حسن اور ان کی ٹیم کے بس کی بات نہیں ۔ اسی لئے اراکین جماعت نے ایک روایت شکن فیصلہ کیا۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے اراکین اور پارٹی کلچر کو ٹریبیوٹ پیش کرنا چاہیے ۔ انہوں نے وہ کام کیا ہے ،جو پاکستان کی کسی بھی اور سیاسی یا مذہبی جماعت میں ممکن نہیں۔ کون سی ایسی جماعت ہے ، جہاںکارکن اپنے سربراہ کے خلاف ووٹ دیں ، اس کی جگہ کسی جونئیر سیاستدان کو منتخب کر لیں اور پھر ہارا ہوا سربراہ ناراض ہونے کے بجائے جیتے ہوئے کو مبارکباد دے اور کہے کہ آج سے آپ ہمارے امیر ہیں ، ہارنے والا خوش دلی سے جماعت کا حصہ بنا رہے اور اسی عزم سے تحریکی کاموں میں حصہ لینے کا اعلان کرے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے کارکن میاں نواز شریف، تحریک انصاف کے ووٹر عمران خان، پیپلزپارٹی کے جیالے آصف زرداری ، جے یوآئی کے کارکن مولانا فضل الرحمن کو اپنے ووٹ سے ہٹا دینے میں کامیاب ہوجائیں ؟ 
جناب لیاقت بلوچ کا الیکشن جیتنے کا توایک فیصد بھی چانس نہیں تھا، جماعت کے اندر یہ بات واضح تھی کہ لیاقت بلوچ زندگی بھر جماعت اسلامی کے امیر نہیں بن سکتے۔وہ ہمیشہ سٹیٹس کو کی علامت تصور کئے گئے، نوجوانوں میں ان کی کشش نہ ہونے کے برابر ، اولڈ گارڈز کے معیار تقویٰ پر بھی وہ پورا نہیں اترتے۔ پچھلے انتخاب میںاراکین نے لیاقت بلوچ کو تیسرے نمبر کا مستحق بھی نہیں سمجھا، پروفیسر ابراہیم کو ان سے زیادہ ووٹ مل گئے تھے۔ اس بار بھی نتیجہ طے شدہ تھا۔ سید منورحسن کی شکست کے تین چار اسباب ہیں۔سب سے بڑا دھچکا تو انہیں اپنے متنازع بیانات سے پہنچا۔ طالبان کو شہید کہہ کر وہ ایسے تنازع میں الجھے ، جس سے جماعت کو نقصان ہوا۔ پھر جوش بیاں میں کربلا کے استعارے کا غلط استعمال کر بیٹھے ، شور مچا تو وضاحت کرنی پڑی، ایسا کئی بار ہوا۔اپنی عاقبت نااندیشی سے انہوں نے جماعت کا تاثر فوج کے مخالف کھڑی سیاسی جماعت کا بنا دیا، معتدل مزاج کارکن اسے ناپسند کرتے تھے۔ سید صاحب کے مزاج کی تلخی اور تنک مزاجی بھی بہت سے لوگوں کو کھلنے لگی تھی۔ ان کے بارے میں جماعت کے اندر یہ تاثر بن چکا تھا کہ وہ میڈیا کو ہینڈل نہیں کرپاتے، میں نے خود کئی دوستوں کو جو رکن جماعت ہیں، یہ کہتے سنا کہ سید صاحب کے میڈیا پر جانے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ان کے طنزیہ، کٹیلے جملوںکو بھی ناپسند کیا جاتا تھا۔یہ 
تاثر عام تھا کہ انہوں نے جماعت اسلامی اور امیر کے مقام اور اس کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے ۔ لوگ حیرت سے کہتے جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کا امیر اور ایسا تلخ ، ایسا چڑچڑا پن، گو ان کے تقوے ،سادگی اور اخلاص کے سب معترف تھے۔ 
عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو بدترین شکست ہوئی ، بیشتر حلقوں میں جس طرح جماعت کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں ، اس پر پارٹی میں شدید ردعمل ہوا۔ الیکشن کی حکمت عملی پر کڑی تنقید ہوئی کہ وقت پر مناسب فیصلے نہ کرنے کے باعث سیاسی اتحاد بھی نہ بن پایا اوراکیلے رہ کر بھی پرفارم نہ کیا گیا ۔جماعت کے اندر ہر سطح پر یہ سوچ ابھری کہ اب بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائی جائیں، نئی حکمت عملی بنائی جائے اور کچھ ہٹ کر سوچا جائے۔ مصر، ترکی اور تیونس وغیرہ میں اسلامی جماعتوں کی انتخابی کامیابی نے بھی یہ سوچ پیدا کی کہ جماعت اسلامی کو بھی نئے تجربے کرنے چاہئیں، مگر یہ بات ہر ایک جانتا تھا کہ اولڈ گارڈز کی مضبوط گرفت اور سید منورحسن کی امارت کے دوران ایسا کرنا ممکن نہیں۔ کراچی میں الیکشن ڈے پر اچانک بائیکاٹ کرنے سے بھی بہت شو ر مچا۔ جماعت کی قیادت پر بہت تنقید ہوئی، کراچی کی قیادت بدلی بھی گئی، سید منور حسن بھی اس غلط فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنے۔پارٹی کے اندر بعض حلقوں میں یہ تاثر بھی تھا کہ سید منور حسن اولڈ گارڈز کو ہٹانے میں ناکام رہے، جماعت کے ایک خیر خواہ صحافی کے بقول وہ ایک چپراسی تک نہ بدل پائے ۔لیاقت بلوچ کو قیم بنانا ان کا پہلا کمپرومائز تھا،ایسے بہت سے کمپرومائز ہوئے۔ سراج الحق کو جتوانے کا ایک مقصد جماعت کے اندر نئی نسل کو آگے آنے کا موقعہ دینا بھی ہے۔وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، انہیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لئے انشاء اللہ کسی الگ نشست میں بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں