چاکلیٹ بار

دو تین سال پہلے میں نے ایک کالم لکھا، ''زندگی کو بچوں کی آنکھ سے دیکھیں۔‘‘مشہور کمیونسٹ دانشور اور لیڈر ٹراٹسکی کا مشہور فقرہ ہے،زندگی کوعورت کی آنکھ سے دیکھیں۔ ٹراٹسکی کا مفہوم یہ تھا کہ عورت زندگی کی کٹھنائیوں اور دکھ درد کو زیادہ اچھے طریقے سے محسوس کر سکتی ہے،اس لئے مردوں کو بھی اپنے اندر یہ حس عورتوں سے مستعار لے لینی چاہیے۔ عورت کے کئی روپ ہیں، معلوم نہیں یہ بات کس حد تک درست ہے ، البتہ ماں کا چہرہ ایسا ہے کہ اس پر یہ سو فی صد درست اترتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لئے تو ہر وقت دعا کرتی رہتی ہے،مگر اپنے بچوں کے لئے تفکر اسے دنیا بھر کے بچوں کے لئے محبت کرنا سکھا دیتا ہے۔ میری والدہ جب بھی ہمارے لئے دعا کرتی ہیں اور ایسا چوبیس گھنٹوں میں ہزاروں بار ہوتا ہے، ہر بار ان کے لبوں سے یہی جملہ نکلتا ہے کہ رب تعالیٰ میرے بچوں اور ہر ایک کے بچوں کی خیر ہو۔ ساٹھ کے عشرے میں پی آئی اے کا ایک طیارہ قاہرہ جاتے ہوئے کریش ہوا تھا، یہ بہت مشہور حادثہ تھا، پہلی فلائٹ تھی، اس لئے اس میں متعدد صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا، وہ سب ہلاک ہوگئے، ان میں میرے ماموں یاسین ترین بھی تھے۔ والدہ کو جوان بھائی کے صدمے سے دوچارہوناپڑا۔ آج چالیس برس گزر گئے ، جب بھی آسمان میں پرواز کرتے کسی طیارے کو دیکھتی ہیں، بے اختیار مسافروں کے لئے دعا لبوںپر آ جاتی ہیں۔ٹراٹسکی کے قول پر غور کرتے ایک دن ذہن میں خیال آیاکہ زندگی کو بچوں کی آنکھ سے دیکھنا بھی اچھوتے تجربے سے کم نہیں۔ بچوں میں تین چار ایسی خوبیاں ہیں ،جو ہم بڑوں کو ان سے سیکھنی چاہئیں۔ ان میں ہمیشہ زندگی کے لئے ایکسائٹمنٹ رہتی ہے۔نئی چیزوں کی طرف وہ لپکتے اور تجربات سے گریز نہیں کرتے۔ سب سے بڑھ کر وہ زندگی سے خوشیوں کو کشید کرتے ہیں، اپنے حال میں رہنا انہیں پسند ہے، ماضی کی تلخیوں اورمستقبل کے موہوم خدشات سے بچے کبھی پریشان نہیں ہوتے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہوجاتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لانے کے لئے بیش قیمت اشیاء کی ضرورت نہیں پڑتی، چند روپوں والی کوئی چیز، معمولی سا واقعہ انہیں کھلکھلانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان میں ایک اور اہم بات ایسی ہے جس پر رشک آنا چاہیے۔ ان کا غصہ ،نفرت اور بیزاری وقتی ہوتی ہے۔ جس بچے سے لڑیں گے، چند منٹوں یا گھنٹوں بعد اسی سے کھیلتے نظر آئیں گے۔ ان کے معصوم دل کینہ اور بغض سے پاک ہوتے ہیں، فوری ردعمل ،مگر کچھ ہی دیر میں دل کو صاف کر لینا۔ ایک حدیث مبارکہ میں بچوں کی ایسی بعض خصلتوں کا ذکر کیا گیا اور اسے ایمان کی صفات سے تشبیہ دی گئی ہے۔ 
اپنے کالم میں تو اس بات کا ذکر نہیں کیا ،مگر پھر ایک دن احساس ہوا کہ بچوںمیں ایثار اور قربانی کا جذبہ اگر کاشت کر دیا جائے تو اس کے بھی غیر معمولی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ان میں ایک فطری عدم تحفظ ہوتا ہے،اپنے کھلونوں کی وہ حد درجہ حفاظت کرتے اور دوسروں سے مل بانٹ کر کھیلنے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں۔ والدین یا اساتذہ اگر تھوڑی سی کوشش کریں تویہ رویہ یکسر بدل جاتا ہے، پھر وہی بچے اپنے لنچ باکس کو بھی دوسروں سے شیئر کرنے کوتیار رہتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل میرے آٹھ سالہ بیٹے عرصم خاکوانی نے فرمائش کی کہ اسے لنچ باکس کے ساتھ پیسے بھی دئیے جائیں کہ وہ بھوکا رہ جاتا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ لنچ باکس کا کیا کرتے ہو، جواب ملا کہ ایک کلاس فیلو لنچ نہیں لے کر آتا، اس لئے اپنا لنچ باکس وہ اسے کھلا دیتا ہے۔ نرم دل تو وہ شروع سے ہے ، معلوم ہواکہ کچھ گھر کے بڑے ایثار کے موضوع پر لیکچر دیتے رہتے ہیں، کلاس ٹیچر بھی یہی سمجھاتی ہیں، اس لئے فراغ دلی کی یہ کیفیت پیدا ہوگئی۔ پتہ چلا کہ اس کا ایک دوست ہارون بھی ایسی ہی صفت کا مالک ہے، وہ اپنا لنچ باکس عرصم کے ساتھ شیئر کرتا رہا، پراٹھا بنوا کر لاتا تو آدھا خود کھاتا اور آدھا اسے کھلاتا۔بڑا اچھا لگا ۔ یہ وہ خیر کا عنصر ہے،جس کے بیج ہمیں اپنے بچوں میں ڈالنے چاہئیں۔اس کی فصل برسوں بعد مگر بھرپور ملتی ہے۔ 
اتوار کے اخبارات میں ایک دلچسپ خبر پڑھنے کوملی، دل کھل اٹھا۔ بہت اچھا لگا۔ ایک معروف امریکی چینل نے چند دن پہلے اپنی خصوصی رپورٹ میں اس واقعے کی تفصیل پیش کی۔ کہانی ایک سات سالہ بچے جوناہ سے شروع ہوئی، بدقسمتی سے وہ جگر کی ایک لاعلاج مہلک بیماری کا شکار ہوگیا۔ اس بیماری میں جگر کے اندر شوگر جمع تو ہوتی ہے،مگر وہ جسم میں اسے خارج نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں باڈی کا شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہوجاتا ہے، اگر ہر چار پانچ گھنٹوں کے بعد ایک خصوصی ٹیوب کے ذریعے معدے میں شوگر داخل نہ کی جائے تو موت تک واقع ہوسکتی ہے۔ معصوم بچے کی ماں ہر صبح تین بجے اٹھ کر بچے کو ٹریٹمنٹ دیتی ہے ،
تاکہ اس کا شوگر لیول برقرار رہ سکے۔ ہر رات ماں باپ یہ دعا مانگ کر سوتے ہیں کہ علی الصبح تین بجے کے الارم سے ان کی آنکھ کھل جائے ، وہ جانتے ہیں کہ ایک بارکی غفلت بھی ان کے بچے کی جان لے سکتی ہے۔ معصوم جوناہ اس تکلیف سے دن میں کئی بار گزرتا ہے۔ اس کی تمام تر امیدیں فلوریڈا یونیورسٹی کے ایک ریسرچ سکالر ڈاکٹر پروفیسر ڈیوڈسن وائن سٹائن سے وابستہ ہیں، جو اس لاعلاج بیماری پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر ڈیوڈسن کی ریسرچ کی فنڈنگ بند ہوگئی،مایوس ہو کر پروفیسر نے سوچا کہ ریسرچ ختم کر دی جائے۔ ننھے جوناہ کے لئے یہ خبر بڑی تکلیف دہ تھی، اس کا سادہ مطلب یہ تھا کہ اسے اپنی تمام زندگی اسی تکلیف اور اذیت کو برداشت کرنا ہوگا، اس کی زندگی مسلسل رسک سے دوچار ہوگی ، چند گھنٹوں کی غفلت اس کیلئے موت کا پیغام لائے گی۔ یہاں پر کہانی نے ایک انوکھا موڑ لیا۔ جوناہ کا ایک قریبی دوست ڈیلن سیگل ہے، اپنے بیمار دوست کے ساتھ اس کی دوستی گہری تھی۔ اسے علم ہوا کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث جوناہ کی بیماری کے علاج کے لئے کی جانے والی ریسرچ ادھوری چھوڑنی پڑ رہی ہے۔ جوناہ کی ماں نے اس کے پوچھنے پر بتایا کہ ریسرچ پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ چھ سالہ ڈیلن نے عہد کیا کہ وہ اس مقصد کے لئے فائٹ کرے گا۔ اس نے اپنے والدین اور جوناہ کے والدین سے اس کا تذکرہ کیا۔ ڈاکٹر ڈیوڈسن تک بھی یہ بات پہنچی، ننھے بچے کے عزم نے بوڑھے پروفیسر کو بھی متاثر کیا، مگروہ جانتا تھا کہ ایک ملین ڈالر کتنی بڑی رقم ہے۔ ادھر ڈیلن کی سنجیدگی مثالی تھی۔ اس نے اپنے دوست کی مدد کیلئے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ چند ہفتوں میں اس نے ''چاکلیٹ بار ‘‘ کے نام سے اپنی کتاب مکمل کر لی ، اس کے والدین نے وہ کتاب شائع کرنے میں مدد کی۔ ڈیلن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میرے لئے چاکلیٹ بار سے مراد ایک شاندارچیز ہے۔ پارک میں جھولے لینا چاکلیٹ بار ہے، ڈزنی لینڈ بھی ایک خوبصورت چاکلیٹ بار ہے ، آخری پیرا گراف میں اس نے لکھا کہ میں اپنے دوست کی مدد کرنا چاہتا ہوں ،یہ میرے لئے سب سے بڑا چاکلیٹ بار ہوگا۔ 
ڈیلن کی کتاب کو جو پزیرائی ملی ، وہ بذات خود تاریخ بن چکی ہے۔ اس نے شروع میں اپنی کتاب کی دو سو کاپیاں اپنے سکول میں فروخت کیں۔ آہستہ آہستہ اس کی مدد کی داستان اور کتاب لکھنے کا قصہ پھیلتا گیا،پہلے مقامی اخبارات نے خبریں لگائیں، پھربڑے اخبار اور ویب سائٹس اس جانب متوجہ ہوئیں، ریڈیو شو اور ٹی وی چینلز نے بھی اس انوکھی مہم کو کوریج دینا شروع کی۔ آج یہ پوزیشن ہے کہ ڈیلن کی کتاب کی ہزاروں، کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں ، کتاب کی تمام تر آمدنی ڈاکٹر ڈیوڈسن کی ریسرچ کو جا رہی ہے، اب تک ساڑھے سات لاکھ ڈالر اکٹھے ہوچکے ہیں، اندازہ ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں مقررہ ہدف پورا ہوجائے گا۔ ڈاکٹر ڈیوڈسن کو حیرت ہے کہ ان کے ریسرچ سنٹر کے لیے آج تک ہونے والی تمام تر ڈونیشن اکٹھی کر کے بھی ننھے ڈیلن سیگل کی کوشش کے برابر نہیں ہوسکی۔ ننھے مصنف سے ایک اخبارنویس نے اس تجربے کے بارے میں دریافت کیا، ڈیلن کا جواب تھا، مجھے خوشی ہے کہ میری وجہ سے نہ صرف میرے دوست جوناہ بلکہ اس مہلک بیماری میں مبتلا تمام بچوں کی تکلیف دور ہوجائے گی، یہ میرے لئے چاکلیٹ بار کے ڈبے کے مترادف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں