اتمام حجت

حکومت اور پاکستانی طالبان مذاکرات کی خبریں دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ شروع میں تو خاصا اتارچڑھا ئو رہا۔ عرفان صدیقی صاحب حکومتی کمیٹی کے غیر رسمی سربراہ تھے ،تو انہوں نے میڈیا کے ساتھ خاصا انٹرایکشن رکھا ۔اس کے دو فائدے ہوئے، ایک تو لوگوں میں موجود کنفیوژن خاصا کم ہوا، انہیں پہلی بار تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات کیا ہیں اور یہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں۔ عام طور پراس حوالے سے بہت کم معلومات سامنے آتی تھیں اور جو لوگ اس بارے میں کچھ معلومات رکھتے بھی تھے، وہ ہمیشہ مذاکرات کی ناکامی کا الزام فوج یا اسٹیبلشمنٹ پر عائد کر دیتے تھے۔ صدیقی صاحب والی (مرحوم) کمیٹی نے پہلی بار معلومات میڈیا پر شیئر کیں توحقیقی صورتحال سامنے آئی۔ یہ اور بات کہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بننا بعض حلقوں کو ناگوار گزرا اور پہلے میجر(ر) عامر نے جو اسی کمیٹی کے ممبر تھے، اپنی کمیٹی ہی کے خلاف بیان داغ ڈالا، اسے بار بار دہرایا، حتیٰ کہ وہ کمیٹی ختم کرا کر ہی دم لیا۔مجھے آج تک ان کے بیانات کی وجہ سمجھ نہیں آئی ، ممکن ہے وہ میڈیا میںخود کو نظر انداز کئے جانے پر ناخوش ہوں۔ موجودہ کمیٹی میں جو نمائندے شامل کئے گئے، مجھے تو ان کی کوئی تک سمجھ نہیںآئی۔ خیر پچھلے چند ہفتوں سے اس حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔سفارتی دنیا میں شٹل ڈپلومیسی کی مشہور اصطلاح ہے، یہ مذاکرات تو شٹل کاک ڈپلومیسی لگتے ہیں، بیڈ منٹن کے کھیل کی طرح جس میں شٹل (چڑیا)کو اٹھا کر دوسرے کی کورٹ میں پھینک دیا جائے، وہ برق رفتاری سے شٹل جواباً واپس پھینک دیتا ہے ۔ یہ بھی کم وبیش اسی طرح کے مذاکرات لگ رہے ہیں۔ ویسے ان مذاکرات سے چند دلچسپ نتائج ضرور برآمد ہوئے ہیں، بعض اندازوں کی تصدیق ہوئی اور چند ایک پر تومہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ 
سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان سے منسوب ہر کارروائی کے ذمہ دار وہی تھے۔ کسی اور کو کبھی جرات نہیں ہوئی کہ وہ اپنا جرم ان کے سر تھوپ سکے۔ دائیں بازو کے بعض لکھنے والے ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات ٹی ٹی پی کے بجائے بلیک واٹر ، امریکی ، بھارتی ایجنٹوں یا اسی نوع کے گروپ کرتے رہے اور الزام ٹی ٹی پی کے سر تھوپا گیا۔پچھلے تین ماہ کے دوران حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ بلیک واٹریا امریکی، بھارتی ایجنٹ، را کے سپانسرڈ گروپ یہاں یقیناً ہوں گے، مگر لگتا ہے کہ وہ کسی اور کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جب سے ٹی ٹی پی مذاکرات کے عمل میں شریک ہوئی اور انہوں نے بڑے لیول پر حملوں سے گریز کیا، اس وقت سے کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا۔ شروع کے چند حملے بعض چھوٹے گروپوں نے کئے یا عمر خالد خراسانی کی جانب سے ایف سی کے جوانوں کوقتل کرنے کا واقعہ ہوا، اس کے بعد مہمند ایجنسی گروپ بھی خاموش ہوگیا۔ اسلام آباد کچہری پر حملہ البتہ مختلف نوعیت کا تھا، جس کے حوالے سے ایک نئے گروپ احرارالہند کا نام بھی سامنے آیا، مگرلگتا ہے کہ بعد میں ٹی ٹی پی نے اس گروپ تک بھی رسائی پا لی اوراسلام آباد کچہری جیسے خوفناک حملے کے بعد اس طرح کا دوسرا حملہ نہیں ہوا۔ اسلام آباد سبزی منڈی میںبم دھماکہ ٹی ٹی پی سٹائل کی کارروائی نہیں تھی، اس کے پیچھے یا تو اپنے دعوے کے مطابق بلوچ شدت پسند ہی ہیں یا پھر یہ کسی چھوٹے گروپ کی کارروائی ہے۔ کرا چی میں کارروائیاں البتہ الگ نوعیت کی ہیں، وہاں ٹارگٹڈ آپریشن کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی گروپوں کے پولیس اور رینجرز پر حملے بھی چل رہے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرخدانخواستہ مذاکرات ناکام ہوئے اور دوبارہ سے ٹی ٹی پی کے حملے شروع ہوئے تو براہ کرم اسے امریکہ اور را کے کھاتے میں ڈال کر قوم کو دھوکہ دینے سے گریز کیا جائے۔ 
اسی طرح یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد یا مہمند گروپ کے احسان اللہ احسان وغیرہ حقیقی کردار ہیں اور کسی دوسرے گروپ کی جرات نہیں کہ وہ اپنی کارروائیاں ان کے اوپر ڈال سکے، نہ ہی میڈیا یا صحافی کسی جعلی شاہد اللہ شاہد یا کسی اور ترجمان کی ذمہ داری قبول کرنے والی بات مانتے ہیں۔ اس سے پہلے ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی ،جو زور دے کر کہتے ،''ایک فون کال سے کیا ہوتا ہے، اس سے یہ کیسے ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ کارروائی پاکستانی طالبان نے کی ہے، کوئی جعلی شخص بھی تو ایسا کر سکتا ہے؟‘‘ ان تین چار مہینوں میں ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیںآیا کہ کسی دوسری تنظیم یا گروپ نے طالبان کا ترجمان بن کر فون کیا ہو اور میڈیا نے اسے مان بھی لیا ہو۔ مستقبل میںاگر ٹی ٹی پی نے کوئی کارروائی کی تو ان کے ترجمان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کو ایک ٹھوس شہادت تصور کرنا چاہیے۔ 
سب سے دلچسپ حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ پاکستانی طالبان اور حکومت کے مابین کچھ زیادہ اختلاف نہیں۔طالبان کے بعض حامی لکھنے والے اپنی پرجوش خطابت سے یہ تاثر دیتے تھے کہ جیسے یہ کوئی حق وباطل کا معرکہ ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔پاکستانی طالبان کے مطالبات سیدھے سادہ ہیں۔ ان کے قیدی چھوڑ دئیے جائیں، مالی نقصانات کی تلافی کی جائے، جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلائی جائے ، کوئی ایسا سیف زون ہو، جہاں وہ آزادی سے گھوم پھر سکیں۔ اگر حکومت یہ مطالبات مان لے تو بڑی حد تک بریک تھرو ہوجائے گا، یعنی مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان عالمی قوتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے اور جہاد کی نوبت آچکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ طالبان گروپوں اور ریاست پاکستان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں،یہ ٹکرائو ختم بھی ہوسکتا ہے۔ 
عام تاثر یہ بھی دیا جاتا رہا ہے کہ ڈرون حملے ہی ٹی ٹی پی کی شدت پسندانہ پالیسی اور حملوں کا باعث ہیں۔ اب پچھلے تین مہینوں سے تو یہ حملے نہیں ہوئے، مذاکرات کے ایجنڈے میں یہ نقطہ ہے بھی نہیں۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ٹی ٹی پی کے ہائی پروفائل قیدی رہا نہ کرنے پر ہوں گے یا پھر فوج واپس نہ بلانے کے نقطے پر کشیدگی پیدا ہوگی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی طالبان یا ان کے حامیوں کی جانب سے ڈرون حملوں والی دلیل جذباتی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے دی جاتی تھی، ورنہ یہ بنیادی نقطہ تنازع نہیں ہے۔ 
میرے جیسے لوگ یہ لکھتے اور کہتے رہے ہیں کہ افغان طالبان کو پاکستانی طالبان سے الگ سمجھنا چاہیے کہ ان کا ایجنڈا یکسر مختلف ہے، ملا عمر افغان طالبان کے لیڈر ہیں اور اگرچہ پاکستانی طالبان ملا عمر کو اپنا لیڈر مانتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کا اپنا کمانڈاینڈ کنٹرول سٹرکچر ہے۔ ہماری مخالفت کرتے ہوئے افغان اور طالبان ایشو کے ماہر سمجھے جانے والے بعض ممتاز صحافی اپنی تحریروں اور اپنے'' جرگوں‘‘ میں یہ کہتے رہے کہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب واضح ہوگیا کہ یہ دونوں الگ الگ گروپ ہیں۔ خاصا عرصہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ ملا عمر کی جانب سے کرنل تارڑ کی رہائی کے لئے کہا گیا،مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تھااور بعد میں کرنل امام قتل بھی ہوگئے۔ اب پچھلے دنوں وزیرستان میں سید سجنا اور شہر یار محسود گروپوں کے ٹکرائو میں کئی لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ملا عمر کی جانب سے ایک پمفلٹ تقسیم ہوا، جس میں مقامی لوگوں سے پاکستانی طالبان کے دونوں دھڑوں کے مابین صلح کے لئے دعا کرنے کا کہا گیا، تاکہ یہ جنگجوآپس کی لڑائی ختم کر کے افغانستان کو اپنا میدان عمل بنائیں۔ اگر ملا عمر حقیقی طور پر پاکستانی طالبان کے بھی امیر ہوتے تو انہیں دعا کی بجائے صرف ایک حکم جاری کرنا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا۔ یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ ملا عمر اور افغان طالبان کی شدید خواہش ہے کہ حکومت اور پاکستانی طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے فیصلہ کن لڑائی میں افرادی قوت میسر آسکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملا عمر کی یہ خواہش اور دعاکس حد تک پوری ہوپاتی ہے ؟ جہاں تک حکومت اور پاکستانی طالبان مذاکرات کی کامیابی کا سوال ہے، بہتر یہی ہے کہ یہ معاملہ یوں ہی نمٹ جائے اور کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ دونوں فریقین دانشمندی سے کام لیں، ٹی ٹی پی کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ مذاکرات اتمام حجت کے لئے ہو رہے ہیں،انہیں ناکامی سے ہر طور بچانا چاہیے۔ اسی میں ہر ایک کی بھلائی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں