فیصلے کی گھڑی

آخر کار وہی ہوا،جس کا اندیشہ تھا۔ حجت تمام ہوئی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا۔ میرے جیسے چند اخبار نویس پاکستانی طالبان اور ان کے حامی گروپوں سے مذاکرات کی حمایت کرتے رہے۔یہ موقف اختیار کرنا آسان نہیں تھا۔ ہمارے ہاں بعض ایشوز پر انتہائی آرا پائی جاتی ہیں، ایک حلقہ حمایت کی انتہا کر دیتا ہے تو دوسرا مخالفت میں ہر حد عبور کر جاتا ہے۔ طالبان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کے حامی انہیں دل وجاں سے چاہتے ہیں تو مخالف نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پاکستانی طالبان کو یہ محبت تو ورثے میں ملی ، نفرت البتہ انہوں نے سوچ سمجھ کر اپنائی گئی پالیسیوں کے طفیل کمائی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کو ایک بڑا ایڈوانٹیج اپنے نام کا حاصل ہے۔نام سے ایسا لگتا ہے ،جیسے یہ افغان طالبان کی پاکستانی شاخ ہے۔ ٹی ٹی پی نے ہمیشہ اس تاثر سے فائدہ اٹھایا، ان کی قیادت افغان طالبان کے امیر ملا عمر کو اپنا امیر ماننے کا اعلان کرتے رہی۔ یہ اور بات کہ ان پاکستانی طالبان کا نظم ہمیشہ سے الگ رہا ہے اور انہوں نے اپنی من پسند پالیسیاں ہی بنائی ہیں، خواہ ان کے نتیجے میں افغان طالبان کو جتنا بھی نقصان اٹھانا پڑے۔تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کا ایجنڈا بھی الگ الگ رہا ہے ۔ افغان طالبان کا محاذ افغانستا ن کی سرزمین رہی اور ہدف امریکی اور نیٹو افواج۔ انہوںنے کبھی پاکستانی فورسز یا حکومت کے خلاف کارروائی نہیں کی۔کارروائی تو دور کی بات ،انہوںنے کبھی کھل کر ریاست پاکستان یا حکومت پاکستان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی نہیں بنایا۔
یہ بہت اہم نقطہ ہے، جس پر ہمارے ہاں زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسیوں پر شدید تنقید کرنے والے اور فورسزپر امریکہ کی حمایت کی پھبتی کسنے والوں نے کبھی سوچا کہ ہمارے جن ائیر بیس سے امریکی طیارے اڑ کر افغان طالبان کو نشانہ بناتے رہے،نیٹو افواج کی سپلائی لائن یہاں سے جاری رہی،یہ سب کچھ جنہیں ختم کرنے کے لئے کیا گیا تھا، وہ افغان طالبان تو پاکستان کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کبھی شکوہ کیا نہ ہی اپنے حامیوں کو پاکستانی فورسز پر حملوں کے لئے اکسایا، آخر کیوں ؟افغان طالبان تو پاکستان کے مخالف نہیں ہوئے ، البتہ پاکستانی سرحد میں بسنے والے تحریک طالبان پاکستان ،جنہیں افغانستان جا کر امریکہ سے لڑنے کی توفیق تک نہ ہوئی، وہ کئی برسوں تک چین کی بانسری بجاتے رہے اور خاصے عرصے تک ان کے لیڈروں میں سے کوئی امریکی ڈرون کا نشانہ بھی نہیں بنا، ...وہ پاکستانی طالبان کیوں پاکستانی افواج کے اس قدر مخالف ہوگئے کہ حملوں سے سینکڑوں جوان اور افسر شہید کر ڈالے ۔ افغان طالبان میں بہت سے پاکستان کا نام احسان مندی سے لیتے ہیں،سرگوشیو ں میں وہ کئی ایسی کہانیاں سناتے ہیں،جنہیں سن کر آدمی ورطہ حیرت میں پڑ جائے۔ افسوس کہ ان کہانیوں کو سنانے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ ابھی اسے سینے میں تھامے رکھنے کا وقت ہے۔صرف ایک ہی نقطہ عرض کئے دیتا ہوں کہ پچھلے چھ سات برسوں سے امریکہ کے دو سب سے بڑے اہداف رہے ہیں،افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ اور افغان طالبان کا سب سے اہم گروپ حقانی نیٹ ورک۔ امریکی ماہرین جانتے تھے کہ اگر حقانی نیٹ ورک کو ختم کر دیا گیا تو افغانستان میں طالبان کی سرگرمیاں بہت حد تک کنٹرول ہوجائیں گی، کوئٹہ شوریٰ کے خاتمے کا مطلب افغان طالبان کی قیادت کا منتشر ہوجانا تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ امریکہ جیسی سپرپاور ایک ہاری ہوئی جنگ سامنے دیکھ کر کس حد تک دبائو پر اترآئی ہوگی۔ پاکستانی خفیہ اداروں کو کس حد تک الجھانے اور پھنسانے کی کوششیں کی گئی ہوں گی، اربوں ڈالر کی ترغیب اپنی جگہ ہوگی۔ اس سب کے باوجود اگر آج حقانی نیٹ ورک اپنی پوری قوت کے ساتھ قائم ہے، افغان طالبان کی قیادت نہ صرف زندہ بلکہ صورتحال کو پوری طرح کنٹرول کئے ہوئے ہے... تو اس کے پیچھے کچھ ہاتھ ان دلیر مگر کم نصیب لوگوں کا بھی ہے،جو دونوں طرف سے پس رہے ہیں۔ جن پرپوری مغربی دنیا ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگا رہی ہے تو اپنے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انہیں نالائق، ناکارہ اور غیرملکی قوتوں کے ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ 
خیربات کسی اور طرف چلی گئی ، ذکر مذاکرات کی ناکامی کا ہو رہا تھا۔ اپریل کے اواخر میں لکھے گئے ایک کالم میں خاکسارنے عرض کی تھی کہ یہ امن مذاکرات اتمام حجت ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ٹی ٹی پی کی قیادت کو وقت کی نزاکت سمجھنی چاہیے۔ یہ معاملہ اب مزید لٹکایا نہیں جا سکتا۔میرے کالم کا آخری جملہ تھا،''ٹی ٹی پی کی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مذاکرات اتمام حجت کے لئے ہو رہے ہیں، انہیں ناکامی سے ہر طور بچانا چاہیے۔‘‘ افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا، ٹی ٹی پی کے قائدین بدلتے حالات کا ادراک نہیں کر پائے ۔ دراصل افغانستان کا ایشو سمٹ رہا ہے، جو جنگ دس سال تک جاری رہی، وہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ افغانستان میں نئی صف بندی ہوگی، طالبان مستقبل کے سیٹ اپ کا مرکزی حصہ ہوں گے ۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ فاٹا ایجنسیوں میں جاری عسکریت پسندی کا کھیل بھی اب زیادہ نہیں چل پائے گا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن 2012-13ء میں ہو سکتا تھا ،مگر اس وقت اس کا زیادہ نقصان افغان طالبان کو پہنچتا۔ حقانی نیٹ ورک کے لئے وہ سال بہت اہم تھے۔ اب صورتحال بدل چکی ہے، اب شمالی وزیرستان میں آپریشن کا بنیادی مقصد وہاں موجود دہشت گردی کے مراکز ، خاص کر ریکروٹنگ سنٹر ختم کرنے ہیں۔ عسکریت پسندوں کے لئے اب قبائلی ایجنسیوں میں محفوظ جگہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ بہتر یہی تھا کہ وہ ریاست کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی ترک کرتے اور امن مذاکرات کو کامیاب بناتے۔ افسوس کہ ملا فضل اللہ اور ان کے سخت گیرموقف رکھنے والے ساتھیوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ 
آپریشن شروع ہوچکا، مثبت پہلو یہ ہے کہ اسے ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں، انٹیلی جنشیا اور میڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہوچکی۔ یہ بات بہت ضروری تھی، اس نوعیت کے آپریشن سے پہلے قومی اتفاق رائے لازمی ہوتا ہے۔ عمران خان اس کے مخالف تھے ، مگر اب وہ بھی آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اندر اضطراب ہوگا، جماعت کے نوجوان کیڈر میں بہت لوگ سید منور حسن کے دور کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ والے بیانیہ کے اسیر ہیں، انہیں معاملات سے قطعی طور پر آگہی نہیں ،وہ ابھی تک جنرل پرویز مشرف کے خلاف چلائی گئی تحریک کے سحر سے باہر نہیں آئے، کسی نے یہ بتایا ہی نہیں کہ آج کل 2007ء نہیں بلکہ 2014 ء چل رہا ہے، تاہم جماعت کی قیادت اس بار زیادہ محتاط اور ذمہ دار ہے۔شمالی وزیرستان تو پوری طرح کلیئر ہوجائے گا، فورسز نے جنوبی وزیرستان جیسا معرکہ لڑا ہے، شمالی وزیرستان نسبتاً کم مشکل ٹارگٹ ہے۔ اہم بات یہ ہوئی کہ مذاکرات کے عمل کے نتیجے میں ، جس پر ہمارے کئی دوست شدید تنقید کرتے رہے ، تحریک طالبان پاکستان تقسیم ہوگئی ہے۔ محسود قبائلی پہلی بار الگ ہوچکے ہیں، کئی اہم اور طاقتور گروپ غیر جابندار رہنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ امن مذاکرات تو ناکام رہے ،مگر تحریک طالبان پاکستان کے اندر جو گروپ اور جنگجو امن چاہتے تھے، وہ واضح اور یکسو موقف اپنا چکے۔ ان میں سے بیشتر سائیڈ لائن ہوگئے۔ یہ کہنا مگر قطعی طور پر غلط ہوگا کہ ٹی ٹی پی کمزور یا غیر موثر ہوگئی۔نہیں، ان کا اپنا اچھا خاصا نیٹ ورک موجود ہے، کئی شہروں میں سلیپنگ سیلز ہیں، ان کے فنانسر موجود ہیں، سرمائے کی بھی قلت نہیں۔ ہمارے سویلین اداروں ،آئی بی اور خاص کر پولیس کو مل کر اس نیٹ ورک کو توڑنا ہوگا۔ یہ فوج کا نہیں بلکہ سویلین انتظامیہ کا کام ہے۔ اس حوالے سے پچھلا پورا سال ضائع کیا گیا۔ میرے جیسے عام اخبارنویس بھی چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ پولیسنگ کے سسٹم کو مضبوط بنایا جائے ، ہیومن انٹیلی جنس موثر کی جائے ، مگر کچھ نہیں ہوا۔ اب بھی وقت ضائع نہ کیا جائے۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے، ہمارے مستقبل کا بہت حد تک دارومدار اس آپریشن پر ہے، لہٰذا کوتاہی نہ کی جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں