اسلام آباد‘ کون کہاں کھڑا ہے؟

اسلام آباد میں جاری سیاسی کشمکش اپنے اختتام کی طرف جا رہی ہے۔ سیاست بڑی عجیب چیز ہے۔ بعض اوقات واقعات بڑی تیز رفتاری سے ہوتے ہیں، مگر ڈویلپمنٹ نہیںہوپاتی، کبھی واقعات سست روی سے رونما ہوتے ہیں، مگر اس دوران طے کیا جانے والا سفر تیز رہتا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران فریقین کے کردار اور ان کی اب تک کی حاصل کردہ کامیابیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
ابتدا حکومت سے کرتے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے شروع میں تحریک انصاف کے الٹی میٹم اور لانگ مارچ کی دھمکی کوبہت ایزی لیا۔انہوں نے اس ایشو کو سیاسی حوالے سے دیکھا ہی نہیں۔ مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ یہ سب مقتدر قوتیں کر ارہی ہیں ، وہی عمران اور قادری کے پیچھے ہیں، اس لئے ان دونوں کے خلاف کائونٹر سٹریٹیجی بنانے کے بجائے مقتدر قوتوں کے حوالے سے حکمت عملی بنائی جائے ، ان پر انٹرنیشنل گارنٹر کی جانب سے دبائو ڈلوایا جائے۔ سعودی عرب اور مغربی دنیا میں رابطے اسی لئے کئے گئے۔ تاہم بتدریج حکومت نے اپنی حکمت عملی معروضی حالات کے تحت بنائی۔ میاں شہباز شریف اور چودھری نثارکے ذریعے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی گئی۔ ایسی باتیں ظاہر ہے منظرعام پر نہیں آتیں، نہ ہی ان کی باضابطہ تصدیق کی جاتی ہے، مگر لگتا یہی ہے کہ ''مقامی سٹیک ہولڈرز‘‘سے بات کی گئی، ان کے تحفظات سنے گئے اور مستقبل کے لئے کسی قابل عمل ورکنگ ریلیشن شپ پر خاصی حد تک اتفاق ہوگیا۔ویسے یہ خبریں تو شروع ہی سے آ رہی تھیں کہ غیر سیاسی قوتیں مداخلت کرنے کے موڈ میں قطعی طور پر نہیں ہیں، وہ اہم قومی معاملات میں الجھی ہوئی ہیں اور اپنی تمام تر توجہ ادھر ہی رکھنا چاہتی ہیں، تاہم چند اہم سٹریٹیجک امور پرضرورت سے زیادہ پرجوش (Over-Ambitious) وزیراعظم کو کسی ڈسپلن میں لانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
حکومت نے اپنے سیاسی اتحادیوں کو ساتھ ملائے رکھا، مولانا فضل الرحمن سے بلوچ قوم پرستوں اور محموداچکزئی سے لے کر کے پی کے حکومت سے نکالے گئے پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پائوتک سب وزیراعظم کے ساتھ رہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی عملاً حکومت کا ساتھ دیا۔ شروع میں یوں لگا جیسے وہ ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، میرے جیسے لوگوں کو ان کا یہ عمل مستحسن لگا۔ جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ پیپلزپارٹی اپنی موجودہ سیاسی پوزیشن پر پوری طرح قانع اور خوش ہے۔ وہ ابھی نئے انتخابات نہیں چاہتی۔ پنجاب اور کے پی کے میں تو وہ عملاً ختم ہوچکی ہے، شائد اسے خطرہ ہے کہ وہ سندھ سے بھی دو چار نشستیں کم نہ کرا بیٹھے۔خورشید شاہ کا کردار اس قدر پروگورنمنٹ رہا کہ ہمارے دوست تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم نے پھبتی کسی، ''خورشید شاہ تو وفاقی وزیر برائے اپوزیشن امور ہی لگ رہے ہیں‘‘۔ جماعت اسلامی البتہ ثالثی میں سنجیدہ رہی۔ جماعت نے حیران کن طور پر پچھلے چند ماہ میں خاصا کچھ حاصل کیا ہے، کراچی میں ان کا غزہ مارچ بھی تعداد کے اعتبارسے متاثر کن تھا۔ جماعت اسلامی اور ان کے نئے امیرتفصیلی تجزیے کے متقاضی ہیں، اس پر کسی دوسری نشست میں بات ہوگی۔ مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ کو ہوشیاری سے استعمال کیا۔ان کے حامی قومی اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے ، اپنے حق میں متفقہ قرارداد بھی منظور کرا لی۔
عمران خان اس دھرنے کے حوالے سے اب سب سے کمزور پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی آپشنز خود ہی محدود کیں اور رفتہ رفتہ اپنے لئے'' باعزت واپسی‘‘ کے راستے بند کرتے گئے ۔ سب سے پہلی ناکامی تو ان کو لوگ اکٹھے کرنے میں ہوئی۔ تحریک انصاف کے پرجوش ساتھیوں کے علاوہ ہر آزاد تجزیہ کار اس پر متفق ہے کہ تحریک انصاف لوگ اکٹھے کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہ سکی، دس پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہوپائے، ان کے رات کے شو میں تعداد بیس پچیس ہزار تک پہنچتی رہی، اگر بہت زیادہ رعایت دیں تو تیس ہزار کہہ لیں ،لیکن لاکھوں تو دور کی بات ہے ، پچاس ہزار کا دعویٰ بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ مصر کے تحریر اسکوائر پر دس دس بیس بیس لاکھ لوگ جمع ہوتے رہے تھے ۔ اگر عمران خان اسلام آباد میںدو ڈھائی لاکھ لوگ اکٹھے کر لیتے تو صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔جو لوگ موجود ہیں ، انہیں کب تک اکٹھا رکھا جا سکے گا؟ اتنی گرمی اور حبس میںیہ بیچارے کب تک ٹھیرے رہیں؟ لیڈر حضرات تو اپنے گھروںیا ہوٹلوں میں چلے جاتے ہیں، ان بیچاروں کے پاس زمین پر سونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، ستم ظریفی یہ کہ سایہ تک موجود نہیں۔ لیڈروںکو اپنے کارکنوں کے اعصاب، برداشت اور جذبے کاایک حد سے زیادہ امتحان نہیں لینا چاہیے۔
عمران خان کی تباہ کن غلطی یہ رہی کہ وہ سیاسی اعتبار سے تنہا 
ہوتے گئے۔ دھرنا دیتے ہوئے انہوں نے اس قدر سخت موقف اپنایا ،جسے ماننا ممکن ہی نہیں تھا۔ نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کسی صورت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق خود مقتدر حلقے بھی یہ نہیں چاہتے تھے۔میاں صاحب کے جانے کے بعدکون آئے ، کون نہ آئے، پھر آئینی اور غیر آئینی اقدام کی ایسی طوفانی بحث چھڑ سکتی ہے، جس میں بہت کچھ اڑ جائے۔ عمران کو کچھ لچک پیدا کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کر پائے۔ عمران خان کو ایک بڑا نقصان یہ پہنچا کہ عوامی رائے عامہ بتدریج ان کے مطالبات کے خلاف ہوتی گئی۔ لوگوں میں اب بیزاری اور کوفت جھلکنے لگی ہے۔ رفتہ رفتہ ٹی وی سکرین بھی کشش کھونے لگی ہے۔ عمران کی ضرورت سے زیادہ جارحانہ تقریروں نے بھی انہیں نقصان پہنچایا ہے۔ جب یہ طوفان گزر جائے ، گرد بیٹھ جائے، انہیں جائزہ لینے کی فرصت اور حوصلہ ملے تو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف نے پایا کس قدر کم اور کھویا کتنا زیادہ ۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان حکومت پر دبائو ڈالے رکھنے میں ناکام رہے ۔عمران اپنے ترکش کے تمام تیرآزما چکے۔ لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے نجی محفلوں میں خان صاحب اپنی تین انگلیوں کے اشارے سے کہتے تھے کہ صرف تین دن میں سب ہو جائے گا۔سات دن آٹھ دن گزر گئے۔وہ اپنے ترکش کے تمام تیر آزما چکے۔ استعفوں سے سول نافرمانی کی (معصومانہ)اپیل تک ہرہتھیار استعمال کر لیا ، نتیجہ ندارد۔ اب کھلا ٹکرائو ہی آخری آپشن ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں کیا کہنا، وہ تجزیے کی منزل سے گزر چکے ہیں۔ ان کا رویہ منطقی ہے نہ دانش مندانہ۔ وہ کسی سسٹم کو مانتے ہیں نہ ہی ان کے پاس انارکی پھیلانے کے سوا کوئی متبادل تجویز۔ مجھے حیرت ہے کہ ان کے معتقدین ان کی انگریزی میں تقاریر پر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ مخصوص اعلانات اور وعدے مغربی دنیا میں موجود بعض لوگوں کے لئے کر رہے ہیں۔ ان کا پورا ایجنڈا اور طرز عمل ہی مشکوک ہے۔ 
جمعرات کی شام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ شاید حکومت آپریشن کرنے لگی ہے۔ یہ تباہ کن غلطی ہوگی۔ ویسے اندازہ یہی ہے کہ یہ پریشر ڈالنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ماڈل ٹائون والے سانحے کے بعد شریف برادران ایسی غلطی نہیں کرسکتے۔ حکومت البتہ تحریک انصاف کو علیحدہ اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ان کا دھرنا دن میں دو چار ہزار افراد تک محدود ہوجاتا ہے، رات میں کئی گنا زیادہ لوگ آ جاتے ہیں۔ حکومت نے غالباً یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ کنٹینر کھڑے کر کے شام میں آنے والوںکو روک لیا جائے ،تاکہ عمران کے ساتھ تھوڑے لوگ ہی رہ جائیں۔مسلم لیگ ن کو اگرچہ اس مقابلے میں کچھ برتری حاصل ہوچکی ہے، مگر اس پر نازاں ہونے کے بجائے دانش مندی سے کام لینا چاہیے۔عمران خان کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں، وہ سب کچھ دائو پر لگا چکے ہیں۔ ان کی تذلیل کرنے کے بجائے راستہ دینا چاہیے۔ ان کے چھ نکات میں سے بعض مانے جا سکتے ہیں۔انتخابی دھاندلی اور نئے الیکشن کے لئے ریفارمز کا ایجنڈا ختم ہونے یا دبنے والا نہیں۔ یہ مسئلہ چند ماہ یا سال بعد دوبارہ نئی قوت کے ساتھ ابھر سکتا ہے۔مسلم لیگ نون دھرناکے شرکا کو دبانے یا کچلنے سے ہر صورت گریز کرے اورجس حد تک مطالبات مانے جا سکتے ہیں، ازخود ہی ان کا اعلان کر دے۔ایسا کیا تو اس کے سیاسی ثمرات شریف برادران ہی کو ملیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں