دھرنے سے پھوٹتی کرنیں

اسلام آباد میں جاری دھرنے اور سیاسی کشمکش اپنے اہم ترین اور فیصلہ کن فیز میں داخل ہوچکے ہیں۔ دس دن گزرگئے ہیں۔سیاسی کارکنوں اور عوامی حلقوں کی طرح تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں نے بھی اس ایشو پر واضح پوزیشن لی۔ یہ ایسا اہم واقعہ تھا، جس نے ملک میں سیاسی تقسیم کوبڑھادیا ،مگر لوگ واضح سٹینڈ لینے پر مجبور ہوگئے ۔ جو اس دھرنے کے حامی ہیں، وہ بھی پوری شدت اور قوت سے حمایت کر رہے ہیں تو مخالفوں کی یکسوئی میں بھی کمی نہیں۔عمران خان اور پی ٹی آئی کے مضبوط سیاسی رول کا میںحامی رہا ہوں کہ مجھے ہمیشہ دو پارٹی سسٹم پر اعتراضات رہے۔ بارہ اکتوبر کو جنرل مشرف نے نواز شریف کا اقتدار ختم کیا تو فوجی آمر پر تنقید کرنے والے دیگر پوائنٹس کے ساتھ ایک یہ بھی گنواتے تھے کہ بڑی مشکل سے ملک میں دو پارٹی سیاسی سسٹم قائم ہوگیا تھا،اس کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ دلیل سن کر حیرت ہوتی۔ پاکستان جیسے سیاسی کلچر میں دونوں پارٹیوں پر تیسری پارٹی کاچیک ہونا چاہیے، بلکہ ہمارے ہاں تو ہر آٹھ دس سال کے بعد نئی سیاسی قوت پیدا ہونی چاہیے تاکہ پہلے سے موجود گروپس کی اجارہ داری ٹوٹتی رہے ۔پی ٹی آئی کے لئے اس نرم گوشے کے باوجود عمران خان کے مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کی ہم نے مخالفت کی کہ یوں طاقت کے زور پر حکومت بدلنے کا طریقہ کار انتہائی غلط اور نامناسب ہے۔ یہ روایت چل نکلی تو ملک میں کبھی مستحکم حکومت بن ہی نہیں سکے گی۔بڑی مشکل سے اسمبلی توڑنے والی اٹھاون ٹو بی کی آئینی شق ختم ہوئی، دھرنے کی کامیابی کی صورت میں یہ بھی ایک طرح کی اٹھاون ٹو بی بن جاتی۔ عمران کے ساتھی ڈاکٹر طاہرالقادری تھے ، جن کے پاس انقلاب کا مبہم ویژن اور کنفیوزکر دینے والے نعرے ہیں۔ جس شخص کا ایجنڈا واضح نہ ہو، وہ کسی سسٹم اور فریم ورک کو نہ مان رہا ہو تو اسے حسن ظن کی رعایت بھی نہیں ملتی، ایسے کرداروں کو غیر مشروط طور پر مسترد کر دینا چاہیے۔ دھرنوں پر تنقید اپنی جگہ،اس کا انجام جو بھی ہو، نتیجے سے قطع نظر، ان چند دنوں میں کئی اہم نکات ایسے نمایاں ہوئے ہیں، جن پر اس ایشو کی گرد بیٹھنے کے بعد بھی غور کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تین باتیں بہرحال ایسی بھی ہوئیں، جن کو سراہنا چاہیے۔ 
مجھے سب سے اچھا یہ لگا کہ اچھے خاصے بڑے گروہ اسلام آباد میں اتنے دنوں سے موجود ہیں اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ پاکستان کے مروجہ احتجاجی کلچر کو دیکھتے ہوئے کیا یہ معجزہ نہیں لگتا؟ عمران خان کے ساتھ بیس پچیس ہزار لوگ تو ہیں ہی، رات کے وقت یہ تعداد بڑھ جاتی ہے،ڈاکٹر قادری کے دھرنے میں بھی پندرہ سے پچیس ہزار کے قریب شرکا ء موجود ہیں ۔میراخیال ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ریڈ زون میں چالیس پچاس ہزار یا اس سے زیادہ لوگ اس قدر پرامن طریقے سے موجود ہیں۔اس کا کریڈٹ لیڈروں کو دیں یا کارکنوں کے ڈسپلن کو، تعریف تو بہرحال بنتی ہے۔اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے تحمل کو بھی کچھ نہ کچھ نمبر دینے پڑیں گے۔ اس میں سانحہ ماڈل ٹائون کے آفٹر شاکس کارفرما ہیں یا تیسری قوت کی دراندازی کا خوف یا کچھ اور ،مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انہوں نے برداشت کا مظاہرہ کیا اور ابھی تک طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے تقدس اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی ، صحافتی ، قانونی ، عدالتی اور عوامی حلقے اکٹھے ہوئے ہیں۔نواز شریف حکومت کا ناقداور شریف برادران کے طرز سیاست سے بیزاری کے باوجود مجھے جمہوریت ، آئین اور پارلیمنٹ کی حمایت کے لئے اتنے بھرپور انداز سے صف آرائی اچھی لگی ہے۔ اگر ماضی میں ایسا ہوتا تو شائد ہم پچھلے دونوں مارشل لاء سے محفوظ رہ پاتے۔پاکستانی عوام نے ماضی سے سیکھا ہے۔تیسرا اچھا پہلو یہ ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقت کے استعمال کی آپشن تقریباً معدوم ہی ہو رہی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے ذہن میں شاید یہ ہوگا کہ اگر ہم اپنے حامیوں کو بھرپور انداز سے مجتمع کر کے اسلام آباد میں پہنچ جائیں تو تین چار دنوں میں حکومت ختم ہوجائے گی۔ ایک عشرہ گزرنے کے بعد ان کی خوش فہمیاں اچھے طریقے سے ختم ہو گئی ہوں گی۔ ادھر حکومت بھی شروع میں مارچ کو روکنے اور کچلنے کی حکمت عملی پر کارفرما تھی ۔ اب انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کارمملکت سیاسی طریقے سے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔
دھرنے میں موجود دونوں جماعتوں کا طریقہ کار اور حکمت عملی اگرچہ یکسر غلط ہے ، مگر ان کے بعض مطالبات میں کچھ نہ کچھ وزن اور جواز موجودہے۔ان دس دنوں نے بہرحال بعض نئے مباحث ضرور شروع کئے ہیں۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی ،جب پچھلے دو تین دنوں میں سوشل میڈیا اور بعض تھنکنگ فورمز پر میں نے عمران اور قادری کے سخت مخالفین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان کی فلاں فلاں باتیں بہرحال درست ہیں، ان پر عمل ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر عمران خان نے الیکشن کے عمل کو شفاف اور قابل اعتماد بنانے کی ضرورت واضح کر دی۔ پچھلے سال مئی کے انتخابات کے بعد رگنگ کے الزامات تو لگے ،مگر الیکشن ریفارمز والی بات کھوہ کھاتے پڑ گئی تھی۔ صرف ایک دو ماہ پرانے اخبارا ٹھا کر دیکھ لیں، الیکشن اصلاحات کی بات کہیں پر نظر نہیں آتی تھی۔ آج ہر جگہ یہ ڈسکس ہو رہی ہے، نئے الیکشن کمیشن، بائیو میٹرک سسٹم اورنچلی سطح تک انتخابی نظام کی خامیاں دور کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے موجود ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔مجھے صرف ایک خدشہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی رکن جماعتوں کو روایتی انداز کا دھاندلی والا الیکشن سوٹ کرتا ہے، وہ کیوں ایسی اصلاحات لانا چاہیں گی، جن سے ان کے ہاتھ کٹ جائیں۔جو جماعتیںروایتی الیکٹ ایبلز طاقتور شخصیات کے ذریعے الیکشن جیتتی ہے، بائیومیٹرک الیکشن وہ کیوں چاہیں گے؟ ایم کیو ایم کراچی میں شفاف انتخابات 
کیوں چاہے گی، جس میں اس کی نشستیں آدھی سے بھی کم رہ جائیں، کم وبیش یہی حال دوسری جماعتوں کا ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ کی کمیٹی کی اصلاحات پر میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو نظر رکھنی چاہیے ، دھرنے کا انجام کچھ بھی ہو، الیکشن ریفارمز اب لانی ہی ہوں گی۔ 
اسی طرح لوگ گستاخانہ انداز میں یہ کہتے ہیں،'' ہم جمہوریت کے حامی ہیں، مگر جمہوریت کو بھی ڈیلیور کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کا مطلب بادشاہ بن جانا نہیں، اپنے ہی گھر کے بندوں کو اعلیٰ مناصب پر بٹھانا غلط ہے، ارکان پارلیمنٹ اپنی مراعات تو خوشی سے لیتے ہیں، عام آدمی کو بھی ریلیف دیں...‘‘ یہ وہ باتیں ہیں جوآج ہر گلی کوچے میں کی جا رہی ہیں۔ سسٹم میں تبدیلی لانے کی بات بھی اب ہونے لگی ہے۔ڈاکٹر قادری کے پاس تبدیلی کا واضح فریم ورک موجود نہیں، انقلاب کا رومانوی تصور وہ بیچ رہے ہیں، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ عوام کے ایک بڑے حلقے میں تبدیلی لانے اور سسٹم بدلنے کی خواہش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ہے۔کل کو ان کی جگہ کوئی لے لے گا، اس لئے اصل مطالبے کونظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سسٹم کو بدلنے کے لئے اب بحث آگے بڑھانی چاہیے، روایتی افسرشاہی ، تھانہ کچہری کا عذاب، پٹوار یوں کا استحصال ، تباہ حال سکول سسٹم اور ناکافی صحت کا نظام ... یہ سب چیزیں ازسرنو دیکھنے اور Redefine کرنے والی ہیں۔اسی طرح سول ملٹری ریلیشن شپ پر بھی سنجیدہ اور بامقصد گفتگو ہونی چاہیے۔ عام آدمی تو درکنا ر، ہمارے اہل دانش بھی اس حوالے سے کنفیوز ہیں۔اس ایشو کو زیربحث لانا چاہیے۔ اب کھل کر باتیں کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں