کتابیں‘ جنہوں نے زندگی پر اثر ڈالا

سوشل میڈیا پر آج کل بک بکٹ چیلنج سیریز بھی چل رہی ہے، جس میں دس پسندیدہ کتابوں کے بارے میں بتانا ہوتا ہے، یا وہ کتابیں جنہوں نے زندگی بدل ڈالی۔ فیس بک پر یہ دلچسپ تھریڈ تھا، جس پر لوگوں نے بڑی شاہکار قسم کی کتابیں لکھی تھیں۔ اس میںایک شخص اپنی پسندیدہ کتابیں بتانے کے بعد آگے مختلف لوگوں کو نامزد کرتا ہے ،جنہوںنے اپنی اپنی پسند کی کتابیں شیئر کرنی ہوتی ہیں۔ ایک دو دوستوں نے مجھے بھی نامزد کر دیا۔ میں سوچتا رہا کہ کون سی کتابوں کا انتخاب کیا جائے۔ پڑھنے کی چاٹ تو بچپن ہی سے پڑ گئی تھی، کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا، اس لئے کسی خاص ترتیب سے نہیں پڑ ھ سکا،جو ہاتھ آیا پڑھتا گیا، چھوٹے سے شہرمیں بلدیہ کی چھوٹی سی لائبریری تھی، جو کچھ وہاں تھا، استفادہ کیا۔ لاہور آیا تو یہاں کی بڑی لائبریریاں دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ اس وقت مگر صحافت کا آغاز ہوچکا تھا۔اخبارنویسی صبح نو سے شام پانچ بجے والی ملازمت ہے نہیں، یہاں آنے کا تو وقت ہے، واپسی کا متعین نہیں۔ اس لئے رفتہ رفتہ وقت سکڑتا گیا۔ گاہے سوچتے ہیںکہ کالج ، یونیورسٹی کے زمانے میں جب وقت فراواں تھا، اس وقت کوئی رہنمائی کرنے والا ہوتا اور انتہائی ضروری (Must Read) کتابوں کی ایک فہرست مرتب کر دیتا تو شائد ان دنوں کا بہتر استعمال ہوسکتا۔ مجھے تو برادرم رئوف کلاسرا پربھی رشک آتا ہے۔ ہر نئی اچھی کتاب وہ خرید کر پڑھتے اور اس پر کالم بھی جڑ دیتے ہیں، نئی فلم لازمی دیکھتے ہیں ، فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی خاصے متحرک ہیں،صبح جلد اٹھنا پڑتا ہوگاکہ دنیا نیوز کے آٹھ بجے والے نیوز شو میں بھی شریک ہوتے ہیں، صحافتی ذمہ داریاں اور کالم اپنی جگہ‘اللہ انہیں مزید ہمت دے۔
بات کتابوں کی ہور ہی تھی، سچی بات تو یہ ہے کہ میری زندگی میں بہت سی خوشیاں ڈائجسٹوں اور رسالوں کی مرہون منت رہی ہیں۔ادب عالیہ کے لئے اپنے تمام تر احترام اور محبت کے باوجود میں ڈائجسٹوں کا شکر گزار ہوں۔ خاص کر سب رنگ ڈائجسٹ کا ، جس کے لیجنڈری ایڈیٹر شکیل عادل زادہ نے پوری دو نسلوں کے ادبی ذوق کی آبیاری کی۔ سب رنگ کا میری زندگی پر بہت گہرا اثر ہے، مشرقی اور عالمی ادب کے بہت سے شیڈ ہم نے سب رنگ ہی میں دیکھے اور سیکھے۔ دنیا کی بہترین کہانیاں پڑھیںاور چٹ پٹی مسٹری کہانیوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ خاص کر شکیل عادل زادہ کے لکھے سلسلہ وار ناول بازی گر کی میرے اور میرے جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ ''بازی گر ‘‘اردو کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے، اگرچہ ہمارے تنگ نظر ادبی ناقدین اس حقیقت کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے۔شکیل عادل زادہ اردو کے بہترین فکشن رائٹر ہیں، خاص کر ان کی نثر بے مثال ہے۔ ایسی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور نثر کم ہی دیکھنے کو ملی۔ یہ طالب علمانہ دعویٰ ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے اس کالم نگار کی نظر سے مختار مسعود کی لافانی نثر، ڈاکٹر خورشید رضوی، مشتاق احمد یوسفی، انتظار حسین، حسن منظر اور محمد کاظم کی نثر اوجھل نہیں ہوئی۔ بازی گر کا کمال صرف اس کی اچھوتی زبان میں مضمر نہیں، اس کے کردار اور ان کی ٹریٹمنٹ بھی غضب کی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ بازی گر ایک نشہ، ایک طلسم ، ایک سمندر ہے۔ جس نے بازی گر پڑھا، سمجھا اور اپنے اندر اتارا، زندگی کو دیکھنے کا اس کا زاویہ نظر بدل گیا۔استاد بٹھل کا کردار اردو ادب کے لازوال اور انمٹ کرداروں میں سے ایک ہے۔ بازی گر کے کس کس کردار کا ذکر کیا جائے۔ فیض آباد کی زرین، بمبئی کی جولین،حیدرآباد کی برجیس،کلکتے کی شہ پارہ اور سب سے بڑھ کرپری چہرہ کورا... جس کے سحر نے اس ناول کے قاری کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ متاثرین میں صرف مرکزی کردار بابرزماں خان نہیں بلکہ ان گنت بے چہرہ لوگ بھی اسی طرح گھائل ہوئے۔ اپنی زندگی میں وہ کورا ، زرین ، رما اور جولین ہی کھوجتے رہے، نتیجے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ 
سب رنگ اور بازی گر مگر کچھ بعد کا معاملہ ہے۔ ابتدا تو بچوں کی کہانیوں سے ہوئی۔ ٹارزن، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، وغیرہ۔ ان میں نمایاں مظہر کلیم کی طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ تھیں۔مظہر کلیم کی شہرت جاسوسی ناول نگار کی ہے، مگر انہوں نے کمال دلچسپ انداز میں ان دونوں داستانوں کی سیریز لکھی تھیں، بعد میں ڈھونڈتا رہا، مگر نہ مل سکیں۔داستان امیر حمزہ کے کردار بھی کمال کے تھے۔ لندھور پہلوان جو سات من کا گرز تنکے کی مانند اچھالتا ہاتھی پر بیٹھا جھومتا رہتا، سعدی کرب جو مشہور عرب کردار معدی 
کرب کی کاپی تھی،بھنا ہوا سالم اونٹ کھا جاتا۔ عمرو عیار کی عیاریاں (بہت بعد میں علم ہوا کہ اصل تلفظ زبر کے ساتھ عمر یعنی امر عیار ہے)، طلسم ہوشربا کی طلسم جادو جو ہمیشہ دس سال کی بچی لگتی، خمار جادو جو عیار جادوگرنی تھی، ملکہ گلگلوں نازک چشم، ملکہ مخمور سرخ چشم اور شہزادہ اسد جس نے افراسیاب جادو کو شکست دی۔ میری خواہش ہے کہ کاش کو ئی پبلشراس دلچسپ سیریز کو دوبارہ سے شا ئع کرے۔ ویسے تو ان دنوں ہمیں اشتیاق احمد کے انسپکٹر کامران اور انسپکٹر جمشید سیریز والے ناول بھی اچھے لگتے تھے، ان کا اپنا مزہ تھا، مگر اصل چسکہ ابن صفی کے ناولوں نے لگایا۔ ابن صفی کی عمران سیریز اور کرنل فریدی سیریز جس نے نہیں پڑھی، اس نے بہت کچھ مس کیا ۔ خالص ادبی ناولوں کی طرف بڑھنے سے پہلے ڈائجسٹوں کے چند مزید رائٹرز کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان میں سرفہرست محی الدین نواب ہیں، جن کی کہانی دیوتا نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا، اگرچہ بعد میں وہ غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی، مگر شروع کے چند برسوں میں اس کا سحر دیدنی تھا۔ سسپنس ڈائجسٹ کی آخری کہانی کمال کی ہوا کرتی تھی۔ خاص کر جوعلیم الحق حقی نے لکھیں۔ ''عشق کا عین‘‘ ان کا ایسا ناول تھا، جو اگر ڈائجسٹ میں شائع نہ ہوتا تو اسے یقیناً اعلیٰ ادب میں شامل کیا جاتا۔ ڈائجسٹوں سے تعصب کی وجہ سے حقی صاحب کو نظر انداز کیا گیا، ورنہ ان کی اماوس کا دیا، حج اکبر اور اس جیسی بہت سی طویل کہانیاں یا ناولٹ کمال کے تھے۔ حقی صاحب چند دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے ، افسوس کہ ایسے باکمال لکھاری کو ہم نے مجرمانہ حد 
تک نظر انداز کیا۔ طاہر جاوید مغل بھی ایک اور بہت عمدہ لکھاری ہیں، جو ڈائجسٹوں کی نذر ہوگئے، ان کے تھرلنگ ناول ''تاوان ‘‘نے بلا مبالغہ ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا ۔ استاد جہانی کا کردار بھی اردو ادب کے چند لازوال کرداروں میں شمار ہوگا،یہ کہانی پڑھنے والے سائیں عالی کا طلسماتی ہالے میں لپٹا کردار کیسے بھلا سکتے ہیں؟
غالباً فرسٹ ائیر میں کالج لائبریری سے میں نے مستنصر حسین تارڑ کا ناول پیار کا پہلا شہر پڑھا۔ یہ تارڑ کے سحر میں گرفتار ہونے کی ابتدا تھی۔ تارڑ کے سفرناموں نے احمد پورشرقیہ جیسے دور افتادہ شہر میں رہنے والے اس طالب علم کومسحور کر دیا، جس نے کبھی اکیلے اپنے شہر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ مستنصر حسین تارڑ کو بھی میری رائے میںدرست مقام نہیں ملا۔ وہ اردو ادب کے بہت اہم ناول نگار ہیں، جس کا ادبی حلقے اعتراف نہیں کرتے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے ناول بہائو کے حوالے سے چند تعریفی سطریں لکھ دی جاتی ہیں۔ تارڑ کے دامن میں مگربہائو کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔'' راکھ ‘‘،'' قربت مرگ میں محبت‘‘ اور'' خس وخاشاک زمانے ‘‘جیسے شاندار ناول... جنہیں اردو کے دس بہترین ناولوں میں شامل کئے بنا بات نہیں بنتی۔ ویسے تو'' ڈاکیہ اور جولاہا‘‘ کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔ محبت کی ایسی بلا خیز صورت اور اس کی قیامت خیزی کو تحریر میںلے آنا معرکے سے کم نہیں۔ 
ہماری خوش نصیبی کہ صحافت کے لئے میگزین کے شعبے کا انتخاب کیا، جہاں کتابوں کے ساتھ تعلق مضبوط اور گہرا ہوا۔ تبصرے کے لئے آنے والی بعض عمدہ کتابیں بھی مفت ہاتھ آئیں۔ عالمی ادب کے چند بہترین تراجم بھی پڑھے ، مگر ان کے بارے میں اگلی نشست میں بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں