ملالہ یوسف زئی کا نوبیل انعام

نوبیل انعامات کا اعلان عام طور پر ہر سال اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر کے انہی دنوں میں ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبیل انعام ملنے کاخاصا امکان تھا۔ انہی دنوں ملالہ کو دھڑادھڑ مختلف ایوارڈز اور انعامات دیے جا رہے تھے۔ عالمی میڈیا میں ایک ہائپ سی پیدا ہو چکی تھی، ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے خبریں اور آرٹیکل شائع ہو رہے تھے۔ یورپی یونین کے آندرے سخاروف ایوارڈ نے یہ تاثر پختہ کر دیا کہ اس بار امن کا نوبیل انعام بھی سولہ سالہ سواتی لڑکی کی گود میں جا گرے گا۔ ملالہ یوسف زئی کی کتاب‘ میں ملالہ ہوں (I Am Malala) ایک دھماکے کے ساتھ شائع ہوئی، ٹائمنگ بھی پرفیکٹ تھی، کتاب نے فوراً ہی میڈیا کی توجہ حاصل کر لی اور علمی ادبی حلقوں میں زیر بحث آنے لگی۔ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاالدین نے ایک مشہور لابنگ کمپنی کی خدمات بھی حاصل کر لیں، جو ہزاروں ڈالر معاوضے لے کر امیج بلڈنگ کرتی تھی۔ ہمارے جیسے اخبار نویسوں نے ملالہ یوسف زئی پر خصوصی رنگین اشاعت کی تیاری بھی کر لی، چینلز نے اپنے پیکج بنا کر رکھ دیے کہ نوبیل انعام کی خبر سنتے ہی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چلا دیے جائیں۔ سب چیزیں اپنی جگہ بالکل ٹھیک جا رہی تھیں۔ پاکستان میں ملالہ مخالف حلقوں نے اپنا ردعمل بھی تیار کرنا شروع کر دیا، ملالہ پر مغرب اور استعمار کی ایجنٹ ہونے کا لیبل چسپاں ہونے کو تیار تھا کہ اچانک ہی امن کا نوبیل انعام ملالہ کے بجائے کسی اور کو دے دیا گیا۔ ملالہ سے ہمدردری رکھنے والوں کو جس قدر دکھ ہوا ہو گا، اس سے زیادہ افسوس ملالہ پر تنقید کرنے والوں کو ہوا ہو گا۔ ایک اور سازشی نظریے کو پھیلانے کا ''سنہری‘‘ موقعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
اس سال نوبیل انعامات خاموشی سے وارد ہوئے۔ شاید ہم میڈیا والے اپنے اندرونی ایشوز میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ نوبیل کو لفٹ ہی نہیں کرا پائے۔ جمعرات کے روز میں نے سائنس کے حوالے سے دیے جانے والے نوبیل انعامات کی مختصر خبر اندرونی صفحات پر پڑھی تو اپنے میگزین سیکشن کے ایک ساتھی کی ذمہ داری لگائی کہ نوبیل انعام یافتگان پر نظر رکھے اور ان کے حوالے سے مواد اکٹھا کرے تاکہ سنڈے میگزین میں کچھ دیا جا سکے۔ امن کے انعام پر تو میری توجہ ہی نہیں گئی۔ مجھے ادب کے نوبیل انعام میں دلچسپی تھی۔ وہ اس سال ایک فرانسیسی ادیب کو ملا۔ جمعہ کی صبح ایک دوست نے ٹیکسٹ میسج کیا کہ اس فرنچ رائٹر کی تخلیقات کے انگریزی تراجم کہاں سے ملیں گے اور کیا اس کی کوئی چیز اردو میں ترجمہ ہوئی ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب لکھا کہ نیٹ پر سرچ کرتا ہوں۔ دفتر پہنچا تو ایک نئی خبر انتظار کر رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ اس سال امن کا نوبیل انعام ملالہ یوسف زئی کو دیا گیا ہے۔ ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ حیرانی اس پر کہ پچھلے سال ملالہ کے حوالے سے بھرپور ہائپ تھی، اس کی کتاب بھی سامنے آئی، جس میں بعض متنازع باتوں کے ساتھ ساتھ دل کو چھو لینے والے کئی دلکش نثری ٹکڑے شامل تھے۔ ملالہ کے درجنوں انٹرویوز بھی ہوئے، جن میں اس کی سوچ اور تعلیم کے حوالے سے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس سال ملالہ لو پروفائل میں رہی۔ پچھلے سال اور اس سال کے دوران کوئی ایسا
اہم واقعہ نہیں ہوا، جس میں ملالہ کا اہم کنٹری بیوشن ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملالہ کا نام اس فہرست میں شامل تھا، مگر وہاں تو پوپ سمیت بے شمار نام تھے۔ ایسے میں قرعۂ فال ملالہ یوسف زئی کے نام کیسے نکل پڑا؟ تاہم اس اچنبھے کے باوجود خوشی یہ تھی کہ چلو ایک پاکستانی کو نوبیل انعام تو ملا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبیل انعام ملا تھا، مگر مختلف وجوہ کی بنا پر ڈاکٹر صاحب کو گلوریفائی نہ کیا جا سکا۔ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ بھی کسی حد تک تنازعات لپٹے ہوئے ہیں، مگر ان کی شدت نسبتاً کم ہے اور پھر ملالہ کی اپنی ذات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ گل مکئی کی ڈائری لکھنے سے اب تک کے سفر میں ملالہ کی معصومیت اور سادگی نے سب کے دل موہ لیے ہیں۔ ملالہ نے مغرب میں بے پناہ پزیرائی ملنے کے باوجود اپنی روایات اور اقدار کو نہیں چھوڑا‘ بھلے وہ کسی ٹی وی چینل کا انٹرویو ہو یا کوئی ایوارڈ تقریب، ملالہ ہمیشہ سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے، معصومانہ مسکراہٹ لئے نہایت شائستگی سے گفتگو کرتے نظر آئی۔ پشتونوں، سواتیوں یا اہل پاکستان کو اس حوالے سے کبھی نظریں چُرانا نہیں پڑیں، شرمندہ نہیں ہونا پڑا۔ ورنہ ہمارے ہاں یہ عام کلچر ہے کہ کوئی اداکارہ ہو یا ادیب، انہیں پڑوسی ملک میں پزیرائی مل جائے تو ان کی زبانیں وہ اگلتی ہیں، جسے سن کر دکھ ہوتا ہے، لباس وہ پہنے جاتے ہیں کہ نظریں شرم سے جھک جائیں۔ 
نوبیل انعام کی ایک خاص اہمیت ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، مگر اس کا امن کے حوالے سے انعام بیشتر اوقات سیاسی فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ ادب کے نوبیل انعام پر بھی بسا اوقات تنقید کی جاتی ہے، مخصوص خطوں اور ممالک کے لوگوں کو زیادہ ایوارڈ ملتے اور ان سے زیادہ علمی اہمیت رکھنے والے ادیبوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔ مغرب کی طاقتور لابیوں کا دنیا کو دیکھنے کا خاص زاویہ نظر ہے۔ جو اس اینگل میں سوٹ کر جائے، اسے نوازا اور دوسروں کے ساتھ مختلف رویہ رکھا جاتا ہے۔ یاسر عرفات جب اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرے تو پھر اسے امن کا نوبیل انعام دیا جاتا ہے، جب وہ فرسٹریٹ ہو کر احتجاج کرے تو پھر دہشت گرد قرار پائے۔ ایران کی مذہبی حکومت کی مخالف شیریں عبادی کی پزیرائی کی جاتی ہے، مگر دوسرے بہت سے چہرے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ سوویت یونین کے دور میں کمیونسٹ مخالف ادیبوں اور لیڈروں کی سنی جاتی تھی، یہی رویہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو ناپسند کرنے والے چینیوں کے لئے اپنایا جاتا ہے۔ بارک اوباما کو کچھ کئے بغیر صدر منتخب ہونے کے فوری بعد امن کا نوبیل انعام مل گیا، اس امید پر کہ یہ امن کے لئے کام کرے گا، دوسری طرف طیب اردوان جیسے مسلم قوم پرست لیڈر کبھی اس صف میں نہیں آ سکتے۔ نیلسن منڈیلا جیسے چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جن کو ایوارڈ دینے سے اس انعام کی اپنی توقیر بڑھی۔ اس کے باوجود اگر کوئی عالمی فیصلہ پاکستان کے حق میں چلا گیا، ہمارا دنیا بھر میں کچھ سافٹ امیج بن جائے تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ ملالہ ہماری اپنی ہی بچی ہے، اسے نوازا جانا پاکستان کو نوازنے کے مترادف ہی ہے۔ ملالہ کو کھلے دل سے مبارکباد دینی چاہیے۔ اب ملالہ یوسف زئی کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ان کی زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ وہ تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ اس کی شروعات انہیں اپنے ملک سے کرنی چاہیے۔ یہاں اس کی بہت ضرورت ہے۔
ملالہ کے حوالے سے دو طرح کے انتہائی ردعمل پہلے بھی دیکھنے کو ملے تھے۔ اب پھر نظر آئیں گے۔ کچھ لوگوں نے ملالہ کو دیوی کا درجہ دیا۔ عقل و دانش اور جرأت و دلیری کا منبع انہیں قرار دیا اور ہر ایک پر یہ لازم قرار دیا کہ وہ صبح شام اس سنگھاسن پر پھول واریں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملالہ کو مغرب اور استعمار کا ایجنٹ تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا بھر کی تمام خرابیاں اس معصوم لڑکی میں سما چکی ہیں اور انہیں گولی ماری گئی تھی نہ ہی ملالہ نے ڈائری لکھی تھی، وہ سب ایک ڈرامہ تھا۔ ہمارے بعض لکھاریوں نے ملالہ کی کتاب کو بھی ایک سازش بنا دیا۔ اس کتاب پر تنقید کی جا سکتی ہے، ہم نے بھی اس حوالے سے ان دنوں اپنی معروضات پیش کی تھیں، مگر اسے سازش قرار دینا زیادتی تھی۔ ہمارے ہاں عام رواج بن چکا ہے کہ ہم ایسے معاملات میں انتہائی قسم کا ردعمل اپناتے اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔ توازن اور اعتدال کو ہم شاید کمزوری تصور کرتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ملالہ کے نوبیل انعام والے معاملے میں ایسا نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں