قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں!!

ستی ہندوئوں کی مشہور مذہبی رسم رہی ہے۔ ہندو مائتھالوجی کے مطابق ستی نام کی ایک دیوی نے خود کو جلا کر ہلاک کر لیا تھا۔ اپنے خاوند اور باپ کے مابین لڑائی کا اسے شدید صدمہ ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ رواج ہو گیا کہ ہندو عورتیں بیوہ ہو جانے کے بعد اپنے خاوند کی چتا کے ساتھ ہی جل مرنے لگیں۔ ایسی موت کو گلوری فائی (Glorify) کیا جاتا تھا۔ ایسی عورتوں کا بڑا مرتبہ مانا جاتا۔ ہندوستان میں صدیوں سے یہ رسم چلی آ رہی تھی۔ کٹر مذہبی گھرانوں، خاص طور پر راجپوتانہ کی ریاستوں میں ستی کا رواج عام تھا۔ مغلوں نے اس رسم کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی۔ ہمایوں نے اس کے خلاف حکم جاری کیا۔ شہنشاہ اکبر نے جبری ستی پر پابندی لگائی۔ ستی سے پہلے مقامی کوتوال سے منظوری کو لازم قرار دیا گیا؛ تاہم یہ رسم چلتی رہی۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو انہیں یہ رپورٹس ملیں کہ ہر سال پانچ سو سے چھ سو عورتیں ستی کی رسم کے تحت جل مرتی ہیں۔ انگریزوں نے1829ء میں بنگال میں ستی پر پابندی لگائی۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی عورت کے ستی ہونے کی صورت میں اس کے خاندان والوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ مقامی ہندو آبادی نے اس قانون کو چیلنج کیا، مگر پریوی کونسل نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔ انگریز انتظامیہ نے بڑی سختی سے اس قانون پر عمل درآمد کرایا۔ سر چارلس نیپئر کا ایک مکالمہ بہت مشہور ہے۔ ستی کی حمایت کرنے والے ہندو عمائدین کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی اور موقف اختیار کیا کہ ستی کی رسم پر پابندی نہ لگائی جائے کیونکہ یہ ان کی قوم کا رواج ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس پر لازمی عمل کریں گے۔ جنرل نیپئر نے جواب دیا، ''ٹھیک ہے، آپ اپنے اس رواج پر عمل کر کے بیوائوں کو جلنے دیں، ہم ایسے ہر واقعے کے بعد اس جلنے والی خاتون کے ورثا اور ایسے ہر شخص کو‘ جس نے اس کام میں اس کی مدد کی، گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ یہ ہماری قوم کا رواج ہے کہ قانون توڑنے والے کو سخت ترین سزا دی جائے۔ آپ اپنی رسم پر عمل کریں، ہم اپنی رسم کو نبھائیں گے‘‘۔ عمائدین کا وفد یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا۔ ستی کے خلاف قانون کو بعد میں پورے ہندوستان میں نافذ کر دیا گیا‘ حتیٰ کہ راجپوتانہ کی ریاستوں میں بھی اس پر مکمل عمل درآمد کرایا گیا۔ 1841ء میں کاٹھیاواڑ، 1841ء میں کولہا پور، 1842ء میں ناگپور اور میسور، 1843ء میں اندور اور 1846ء میں جے پور میں بھی یہ قانون نافذ کر دیا گیا۔ آخرکار 1861ء میں ملکہ وکٹوریا کے حکم پر پورے ہندوستان میں ستی کے خلاف قانون جاری کر دیا گیا۔ قانون کو بلا امتیاز نافذ کیا گیا۔ انگریز کے دور کی انتظامیہ کا کمال ہے کہ ایسی پرانی اور قدیم مذہبی رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔ کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ 
انگریز دور میں بے شمار خامیاں تھیں۔ اس خطے کا انہوں نے معاشی اور سیاسی استحصال کیا۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک غلام بنائے رکھا۔ یہ ان کی مضبوط ایڈمنسٹریشن تھی، جس نے قوانین پر مکمل عمل درآمد کرایا۔ کسی بڑے سے بڑے جاگیردار، نواب کی جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ جرم کر کے قانون کے شکنجے سے بچ سکے۔ یہی وہ خوبی ہے، جس کی وجہ سے آج بھی بڑی عمر کے لوگ انگریز دور کو یاد کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ٹھگوں کا خاتمہ بھی انگریز ایڈمنسٹریٹروں ہی کی بدولت ممکن ہوا۔ ان ٹھگوں کے عجیب و غریب قصے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس فتنے پر کس طرح قابو پایا جا سکا، حالانکہ یہ ٹھگ بھی ایک پُراسرار کلٹ یا مذہب کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ خود کو عام آدمیوں میں چھپائے رکھتے اور موقع ملتے ہی مہلک وار کرتے۔ انگریز افسروں نے اپنی کمٹمنٹ سے ٹھگوں کو شکست دی۔ ان پر تحقیق کی، ان کے راز حاصل کئے، شناختی اشارے، گفتگو وغیرہ کا پتہ چلایا اور ایک ایک کر کے ہر علاقے سے ان کے گروہ ختم کئے۔ آج ٹھگوں کا نام صرف پرانی کتابوں ہی میں ملتا ہے۔ 
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد انگریز دور کی ستائش نہیں بلکہ یہ بتانا تھا کہ بہت سے مسائل بنیادی طور پر گورننس سے تعلق رکھتے ہیں۔ مضبوط سسٹم، اہل اور دیانت دار انتظامیہ، سخت فالو اپ اور مجموعی طور پر قوانین کی حکمرانی یقینی بنانے سے ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سادہ سی بات کو نظر انداز کر کے خلط مبحث پیدا کی جاتی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر معاملات کو الجھایا اور کنفیوژن پیدا کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہوتا ہے۔ بعض ایشوز پر سرگرم کردار ادا کرنے والی این جی اوز یا تنظیموں کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے اور مخصوص ایجنڈے کو اٹھانا ان کی ''مجبوری‘‘ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں شدت بڑھی ہے۔ مذہبی حوالوں سے عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ معمولی باتوں پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہ سب باتیں درست ہیں۔ ان کا علاج ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پر علمی ادبی سرگرمیوں کو فروغ دے کر، معاشرے میں مثبت فکری بحثوں کی حوصلہ افزائی کر کے، کھیلوں، تخلیقی ثقافتی سرگرمیوں پر توجہ دے کر سماج کا رویہ معتدل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک پہلو ہے، مگر ہمارے ہاں شدت پسند انفرادی رویوں کا ایک سبب قانون پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ جو گروہ، تنظیم یا فرد قانون ہاتھ میں لے، اسے سخت ترین سزا دی جائے۔ کسی کو بچ نکلنے کا موقع نہ ملے تو یہ شدت دم توڑ جائے گی۔ پاکستان میں ہندو یا مسیحی اقلیتیوں کے حوالے سے ریاست یا سماج کی سطح پر منفی جذبات موجود نہیں ہیں۔ کبھی ملک میں مسلم ہندو یا مسلم مسیحی فسادات نہیں ہوئے۔ کہیں پر مسیحی آبادی یا افراد کو نشانہ بنایا بھی گیا تو وہ مقامی مسئلہ ہی تھا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملک گیر سطح پر اس کے اثرات نمودار ہوئے ہوں، بلکہ ایسے ہر سانحے کے بعد عوام کی غالب اکثریت نے مظلوم اقلیتی کمیونٹی ہی کا ساتھ دیا۔ بعض این جی اوز ایسے ہر افسوسناک واقعے کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شدت پسندی سے مغلوب ہو کر قصور میں جس مسیحی جوڑے کو زندہ جلایا گیا، یہ واقعہ کبھی نہ ہو پاتا، اگر ملک میں اس سے پیشتر ہونے والے واقعات میں برق رفتاری سے قانون پر عملدرآمد کیا جاتا۔ سیالکوٹ میں ہجوم نے دو لڑکوں کو جس وحشیانہ انداز سے موت کے گھاٹ اتارا، ان کے خلاف کیا کارروائی ہو پائی؟ مریدکے میں فیکٹری مالک کو گمراہ کن پروپیگنڈا کے تحت مار دیا گیا، اس معاملے میں بھی فوری انصاف نہیں ہوا۔ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مسئلہ وہی گورننس کا ہے۔ ہمارا گورننس سسٹم کمزور بلکہ مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے۔ جب تک ہم قانون کی حکمرانی یقینی نہیں بنا لیتے، اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ شدت پسندی ختم کرنے کے دیگر فارمولوں پر بھی عمل کریں، مگر گڈ گورننس کو یقینی بنائے بغیر پائیدار حل نہیں نکل سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں