پیادے

ہمارے ایک دوست سیاسی ورکر رہے ہیں، وہ ایک معروف سیاسی جماعت کے لئے برسوں کام کرتے رہے ،بڑے تفاخر سے بتاتے ہیں کہ ان کے والد اس پارٹی کے ووٹر تھے، وہ بھی تمام زندگی اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے اور تاحیات ایسا ہی کریں گے۔ ان کے والد پارٹی کے کرشماتی بانی لیڈر کے واقعات انہیں سنایا کرتے تھے ، وہ بانی لیڈر کی تقریروں سے تو زیادہ مستفید نہیں ہوسکے ،البتہ ان کی اولاد جب اس سیاسی ورثے کو لے کر آگے بڑھی تو ہمارے یہ دوست بھی دوسرے سیاسی کارکنوں کی طرح دل وجاں سے پارٹی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اپنے کیریئر، صلاحیتوں اور وقت کا بڑا حصہ پارٹی کے لئے قربان کیا، جس کا انہیں قطعی طور پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسی سیاسی کمٹمنٹ اچھی لگتی ہے۔ دائیں بازو کے مذہبی نظریات کا حامی ہو یا بائیں بازو کی ترقی پسند سوچ رکھنے والا کوئی کارکن ، اس کی بے لوث وابستگی اور اپنے نظریے کے لئے ایثار قابل قدر بات ہے۔ ایک بات کی مگر کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ لوگ ہر بار استعمال ہونے کے لئے کیوں تیار ہوجاتے ہیں؟پانچ پانچ سال پارٹی حکومت میںرہنے کے باوجود ان کارکنوں کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ۔جب بری کارکردگی اور بدنامی کی وجہ سے پارٹی ہار جاتی ہے تو پھر کارکنوں کی یاد ستانے لگتی ہے۔ یہ کارکن بھی ایسے بھولے واقع ہوئے ہیں کہ ایک ہلکی سی تھپکی سے سب کچھ بھول بھال کر دوبارہ سے اصیل خچرکی طرح کام میں جت جاتے ہیں۔ اپنے ان دوست سے میری اکثر بحث ہوتی ہے اور میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ اپنی پارٹی سے محبت کریں، مگرقیادت اور لیڈروں کو ٹف ٹائم تو دیا کریں۔انہیں یہ احساس تو دلائیں کہ آپ لوگ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونے کے لئے نہیں بنے۔ کسی شخصیت یا خاندان سے محبت، پیار یا وابستگی کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی غلطیوں پر ان کا ہاتھ نہ پکڑا جائے۔ویسے بھی وابستگی نظریے یا فکر سے ہونی چاہیے، کسی چہرے سے نہیں۔ ہماری روایتی سیاسی جماعتوں میں اس طرح کی وابستگی اور روایتی ووٹ بینک کی پاکٹس عام نظر آتی ہیں۔ 
تحریک انصاف اس لحاظ سے نسبتاً نئی جماعت ہے کہ اس کے ووٹر اور کارکنوں کی نوے فیصد تعداد پچھلے تین برسوں کے دوران اس میں شامل ہوئی۔ تحریک انصاف کو ایک ایڈوانٹیج یہ بھی حاصل ہے کہ ان کے کارکن دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ پڑھے لکھے اور سماجی طور پر بہتر پوزیشن کے مالک ہیں۔ یہ انصافین (سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی والے اپنے لئے خود یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں)قومی سیاسی ایشوز کے حوالے سے خاصی واضح سوچ کے مالک ہیں، سٹیٹس کو کے خلاف نفرت ان کے دلوں میں پل رہی ہے اور وہ مروجہ سیاست کے روایتی تصورات کو رد کرتے ہوئے ، اس گلے سڑے سسٹم کو اٹھا کر پھینک دینا چاہتے ہیں(یہ فقرے سوشل میڈیا پر انصافین کا ٹریڈ مارک بن چکے ہیں)۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے کہ تبدیلی کے حامی یہ لوگ اپنی پارٹی قیادت کے حوالے سے اسی روایتی ، گھسی پٹی سوچ کے مالک ہیں۔ وہی شخصیت پرستی، اپنے لیڈر کی غلط باتوں کی تاویل ، غلطیوں کا دفاع کرنااورانہیں آئوٹ آف دی وے جا کر رعایت دینا۔اس حوالے سے انصافین یاپیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن کے کسی حامی میں فرق نظر نہیں آتا۔ شاید انہیں یہ لگتاہے کہ اپنے لیڈرپر تنقید کرنے یا اس سے سوال پوچھنے سے وہ کمزور پڑ جائے گا ۔ یہ بات وہ نہیں سمجھ رہے کہ سوال نہ اٹھانازیادہ خطرناک ہے۔ یہ عمل ان کی پوری پارٹی کا مستقبل خطرے میں ڈال دے گا۔ 
اب اسی دھرنے والے معاملے کو دیکھ لیجئے۔ ہر طرح کے آئینی، سیاسی ، منطقی اور عقلی دلائل اس کے خلاف ہیں۔ عمران خان نے چارپانچ بنیادی غلطیاں کیں۔وزیراعظم کو یوں عوامی طاقت کے ذریعے ہٹانے کا مطالبہ نہ صرف غیر آئینی تھا، بلکہ ایسا کرنے کی صورت میں پورا سیاسی سسٹم بلڈوز کرنا پڑتا ،جو اس وقت کسی کے بس میں نہیں۔ سیاسی طور پر تو عمران کا ایجنڈا ہی زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھا۔ اتنا جلد حکومت کے خلاف ایسی انتہائی نوعیت کی مہم چلانا مناسب نہیں تھا۔ الیکشن کو مشکل سے ایک سال ہوا تھا، کوئی بھی جماعت اتنی جلد دوبارہ انتخابات کے لئے جانے کو رضامند نہیں ہوتی کہ اربوں کے اخراجات اور پھر پہلی جتنی سیٹیں لینا بھی یقینی نہیں۔ بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو زندگی میں پہلی بار اپنی مرضی کی صوبائی حکومت بنانے کو ملی، وہ کیوں خود کشی کریں گے؟ پیپلزپارٹی کو معلوم ہے کہ اگلی بار شاید اسے سندھ بھی نہ ملے ؟ جے یوآئی کے مولانا صاحب خیبر پختون خوا میں اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں پر اپنے بیٹے اور بھائی کو ہروا بیٹھے ہیں، وہ کیوں ایڈونچر کرتے ؟یہی حال اے این پی کا ہے۔ ن لیگ تو مرکزی حکومت میں ہے، وہ تو ویسے بھی ایسا نہیں کر سکتی۔ جماعت اسلامی تک اتنا جلد سب کچھ ریورس کرنے پر تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں بغیر کوئی مناسب اتحاد بنائے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا سیاسی مصلحتوں کے منافی تھا۔ پھر نوے کی دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کیخلاف ایسا کرتے رہے، مگر ہر باراپوزیشن کا گرینڈ الائنس ہی ایجی ٹیشن کرتا رہا ، کبھی مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی نے سولو فلائیٹ نہیں کی۔ عمران طاہر القادری صاحب کو ساتھ لے کر چل پڑے اور انہیں اپنا اتحادی سمجھتے رہے، نتیجہ سامنے ہے۔ماضی میں جب بھی حکومتیں ختم ہوئیں، ہربار اپوزیشن کو کچھ نادیدہ حمایت بھی حاصل تھی۔ عمران کو اگر کچھ اشارے ملے بھی تھے تو انہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ ہر ایک کی محدودات ہوتی ہیں۔ کچھ کر گزرنے کے لئے کچھ اسباب بھی ضروری ہوتے ہیں۔ویسے تو بعد میں یہ ثابت ہوا کہ عمران خان کو پردے کے پیچھے سے حمایت بھی حاصل نہیں تھی۔ ایک بڑا فیکٹر یہ بھی بنا کہ عمران خان ملک بھر میں سیاسی مومینٹم بنائے بغیر ہی چند ہزار لوگ ساتھ لئے چڑھ دوڑے۔دنیا میں کہیں اگرعوامی قوت کے بل بوتے پر تبدیلی آئی بھی تو ایسا لاکھوں بلکہ کئی ملین افراد کے اکٹھے ہونے پر ہی ہوسکا۔ اگر اس طرح کی کوئی تبدیلی آ بھی جاتی تویہ ایسا ٹرینڈ قائم ہوجاتا جو آنے والی حکومتوں کے لئے دردسر ہی بنتا۔ پھر کسی حکومت کے لئے اپنی مدت پوری کرنا ممکن نہ رہتا۔
یہ سب باتیں سادہ، واضح اور سامنے کی ہیں، تحریک انصاف کے کارکن اور لیڈر ان کا ادراک نہ کر پائے۔ وہ عمران خان کے شخصی کرشمے کے سحر میں بہہ گئے اور جن باتوں پر گرفت کرنی چاہیے تھی، نہ کر پائے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ایسا کیا بھی تو بڑے سطحی انداز میں اور نہایت تاخیر سے۔ اگر جماعتوں میں سیاسی کلچر موجود ہو اور بامعنی مشاورت کا نظام کام کرے تو پھرمعاملات کبھی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیںپہنچتے۔ واپسی کے راستے رکھے جاتے اور باعزت پسپائی کی آپشن کبھی ختم نہیں کی جاتی۔ عمران خان آج جس مشکل میں گرفتار ہیں اور جو کیفیت نظر آ رہی ہے، وہ کبھی نہ ہوپاتی۔ کاش ہمارے سیاسی کارکن اور ووٹرسیاسی بساط پرہمیشہ پیادے بنے رہنے کے بجائے اپنی اہمیت کا ادراک کر پائیں،اپنے اندر موجود بے پناہ قوت کا انہیں اندازہ ہوسکے۔ کاش...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں