’’پاکستانی داعش‘‘

سوال وہی ہے کہ پاکستان میں داعش آ چکی ہے یا نہیں؟ عسکریت پسند تنظیموں میں اس کے اثرات کس قدر گہرے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ کس قدر بڑا خطرہ بن سکتی ہے؟
پاکستان میں داعش کے کردار پر بات کرنے سے پہلے یہاں مذہبی عسکریت پسندی کی مختلف سطحوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ پاکستان میں نائن الیون کے بعد فاٹا اور ملک کے بعض دوسرے علاقوں میں جو عسکریت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، ان کی چار اقسام تھیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ طالبان کا نام کئی گروپوں کے لئے استعمال کیا جاتا رہا، مگر حقیقی معنوں میں طالبان سے مراد افغان طالبان ہیں۔ افغان طالبان عسکریت پسندی میں منفرد پوزیشن کے حامل رہے ہیں۔ مشہور زمانہ حقانی نیٹ ورک ان کا ایک اہم حصہ ہے، مگر مجموعی طور پر حقانی برادران طالبان کے مرکزی نظم اور قائد ملا عمر کے ماتحت تھے اور ہیں۔ وزیرستان کے وزیر قبائل پر مشتمل ملا نذیر گروپ اور حافظ گل بہادر کا گروپ افغان طالبان کا اتحادی رہا ہے۔ افغان طالبان کا فوکس افغانستان رہا اور انہوں نے نیٹو افواج کے خلاف کارروائیوں پر توجہ دی۔ پاکستانی فوج یا ریاست سے ٹکرانے سے انہوں نے ہمیشہ گریز کیا۔ عسکریت پسندی کا دوسرا اہم حصہ القاعدہ ہے۔ عرب، ازبک، چیچن اور مشرق وسطیٰ کے بعض دوسرے ممالک کے جنگجوئوں پر مشتمل القاعدہ نے نائن الیون کے بعد پاکستان کا رخ کیا۔ ان میں سے کچھ قبائلی علاقوں میں مقیم رہے جبکہ بعض نے پاکستانی شہروں کا رخ کیا۔ وہ گرفتار بھی یہیں سے ہوئے۔ ابو زبیدہ، شیخ خالد محمد شہروں ہی سے گرفتار ہوئے۔ بعد میں القاعدہ کے بیشتر کمانڈر شمالی وزیرستان میں پناہ گزیں رہے۔ ان میں سے بعض امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بھی بنے۔ القاعدہ کا ایجنڈا شروع سے گلوبل تھا۔ امریکہ ان کا دشمن نمبر ایک تھا، جسے ٹف ٹائم دینے کی خاطر وہ مختلف منصوبے بناتے رہے۔ 
القاعدہ کی پالیسیوں کا سب سے خطرناک حصہ اسلامی ریاستوں کی سرحدوں اور ان کے قومی مفادات کو نظر انداز کرنا ہے۔ مثال کے طور پر القاعدہ کا کبھی یہ ایجنڈا نہیں رہا کہ اس کی کسی کارروائی سے پاکستانی ریاست کیلئے عالمی سطح پر کس قدر مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اس کے نیوکلیئر اثاثے خطرے میں پڑ جائیں گے یا پھر ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ جوابی طور پر پاکستانی ایجنسیوں نے القاعدہ اور افغان طالبان کے حوالے سے واضح پالیسی بنائی۔ القاعدہ کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ ان کے اہم کمانڈر گرفتار کر کے امریکیوں کے حوالے کئے جاتے رہے اور ان کے نیٹ ورک کو توڑنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ افغان طالبان کے حوالے سے البتہ مختلف رویہ رکھا گیا۔ حقانی نیٹ ورک کو برسوں تک نہ چھیڑا گیا۔ طالبان کے خلاف بڑا آپریشن کرنے سے بھی گریز رہا۔ اس بار آپریشن ضرب عضب میں البتہ ہر مسلح گروپ کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی پالیسی میں اس حوالے سے شفٹ آیا ہے کہ پہلی بار حقانی نیٹ ورک کو بھی رعایت نہیں دی گئی۔ 
عسکریت پسندی کے حوالے سے تیسرا اور اہم ترین گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کا ہے۔ بیت اللہ محسود نے بڑی مہارت کے ساتھ اس پلیٹ فارم پر مختلف گروپوں کو اکٹھا کر کے ایک موثر اور طاقتور تنظیم کی شکل دی۔ بیت اللہ محسود کی اصل قوت محسود جنگجو تھے، مگر انہوں نے دوسری ایجنسیوں کے قبائلیوں پر مشتمل کئی گروپ بھی مجتمع کر لئے۔ القاعدہ کو ان کی اور انہیں القاعدہ کے بڑے نیٹ ورک اور جدید سوچ رکھنے والے ماسٹر ٹرینرز کی ضرورت تھی، اس لئے ٹی ٹی پی اور القاعدہ قریب ہوئے اور خود کش بمباروں کی ایک بڑی فوج تیار ہوئی۔ بیت اللہ محسود کو سابق جہادی تنظیموں سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے (سپلنٹر) گروپوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ یہ سپلنٹر زیادہ تر حرکتہ الجہاد الاسلامی، حرکت المجاہدین اور جیش محمد سے الگ ہوئے۔ یہ تینوں تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں نائن الیون سے پہلے متحرک تھیں۔ ان میں دو تین باتیں مشترک تھیں۔ سب دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے تشکیل دیں۔ ان میں بعض مدارس کے انقلابی ذہن رکھنے والے لڑکے بھی شامل تھے۔ تیسرا ان تینوں کا کسی نہ کسی شکل میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلق رہا اور وہ عرب جنگجوئوں سے بھی متاثر تھے۔ ان میں سے بعض جنرل پرویز مشرف کے خلاف حملوں میں بھی ملوث تھے۔ لشکر جھنگوی کے مختلف دھڑے بھی ان پنجابی طالبان کا حصہ رہے۔ جب نائن الیون کے بعد پاکستانی حکومت کی پالیسی نے یوٹرن لیا، مقبوضہ کشمیر میں محاذ جنگ بند ہو گیا، افغانستان میں امریکیوں کے خلاف جنگ تیز ہوئی تو جہادی تنظیموں کے بعض لڑکوں نے ادھر کا رخ کیا۔ جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں کا الزام بھی بعض سابق جہادی گروپس پر لگا۔ جب ان کے خلاف کریک ڈائون ہوا تو یہ بھی بھاگ کر وزیرستان اور دوسری ایجنسیوں میں پہنچ گئے۔ الیاس کشمیری جیسے اساطیری شہرت رکھنے والے کمانڈر کے شامل ہونے سے انہیں مزید تقویت ملی۔ قبائلی ایجنسیوں کے عام پشتونوں کی نظر میں ہر نان پشتون پنجابی ہوتا ہے۔ انہوں نے ان جنگجوئوں کو پنجابی طالبان کا نام دیا۔ قبائلی علاقوں میں رہنے کے لئے انہیں مقامی سپورٹ چاہیے تھی، اس لئے یہ تحریک طالبان پاکستان کے اتحادی بن گئے۔ ہمارے لبرل سیکولر حلقے ہمیشہ ایک ہی بات کہتے رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت ان تمام مسلح گروپوں کا بلاامتیاز خاتمہ کرے۔ میرے جیسے عام اخبار نویسوں کا البتہ یہ خیال تھا کہ یہ چاروں الگ الگ گروپ ہیں۔ انہیں الگ الگ ہی ڈیل کرنا اور ان کے داخلی تضادات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جو گروپ ریاست کا ساتھ دیں، انہیں واپسی کا راستہ دینا چاہیے۔ یہ وہ پالیسی ہے جو پچھلے سال ضرب عضب سے پہلے اپنائی گئی۔ ٹی ٹی پی میں ملا فضل اللہ کے امیر بننے سے تقسیم آ گئی۔ محسود الگ ہو گئے۔ پنجابی طالبان بھی بڑی حد تک الگ ہوئے۔ افغان طالبان کا ایجنڈا پہلے ہی افغانستان تھا۔ القاعدہ کے بیشتر جنگجوئوں اور کمانڈروں نے شام اور عرا ق کا رخ کیا، جہاں زیادہ بڑا تھیٹر آف وار چل رہا ہے۔ اس تقسیم در تقسیم سے ٹی ٹی پی کمزور ہوئی۔ اس کا مہمند ایجنسی گروپ عمر خالد خراسانی کی قیادت میں الگ ہو کر احرارالہند میں شامل ہو گیا۔ احرارالہندکے گروپ کا بننا ٹی ٹی پی کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں اس کا صفایا ہو چلا ہے۔ اس لئے پاکستان میں عسکریت پسند گروپ ایک نئے اور کٹھن ترین چیلنج سے دوچار ہیں۔ داعش کا نام استعمال ہونا بھی درحقیقت ان بدلے ہوئے زمینی حقائق کا غماز ہے۔ 
دراصل بعض گروپس کیلئے اب اپنے آپ کو زندہ رکھنا ہی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ پہلے یہ جنوبی یا شمالی وزیرستا ن میں پناہ لے لیتے تھے۔ وہاں فوجی آپریشن چل رہا ہے۔ ویسے بھی مقامی محسود قبائل کی مخالفت کے بعد ان کیلئے وہاںجگہ نہیں بچی۔ علاوہ ازیں فاٹا ایجنسیوں میں ملا عمر کو قائد مانے بغیر مقامی آبادی کی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب جو چھوٹے موٹے گروپ بے یارومددگار ہو چکے ہیں، ان کے لئے داعش ہی واحد آپشن بچی ہے کہ شائد اس طرح خلافت پر یقین رکھنے والے حلقے ان کی فنانشل اور لاجسٹک سپورٹ کے لئے تیار ہو جائیں۔ داعش اپنے نظریے اور ایجنڈے کی بنا پر پاکستان میں نہیں آ سکتی۔ دولت اسلامیہ عراق و شام کا پاکستان سے کیا لینا دینا؟ نہ پاکستان کی ان کے ساتھ سرحد ملتی ہے، یہاں سے اسلحہ وہاں جا سکتا ہے نہ ہی داعش والوں کو پاکستانی ریکروٹوںکی زیادہ ضرورت ہے۔ وہاں اتنا بڑا محاذ موجود ہے، جہاں کیلئے مقامی طور پر باآسانی ہزاروں جنگجو دستیاب ہیں۔ پاکستان میں داعش کے انتہائی شدت پسندانہ تکفیری نقطہ نظر کے لئے بھی زیادہ جگہ نہیں۔ یہاں کے ریڈیکل حلقوں میں ملا عمر کے فکری پیروکار ہیں یا پھر القاعدہ کے گلوبل ایجنڈے سے ہمدردی رکھنے والے کچھ لوگ۔ القاعدہ اور ملا عمر کے افغان طالبان دونوں ہی کا داعش سے مسابقت اور مخاصمت کا رشتہ اور تعلق ہے۔ اس لئے ہمارے ہاں داعش بڑا چیلنج نہیں۔ یہ اپنے بقا کی جنگ لڑتے بعض چھوٹے گروپس کی آخری چال ہے۔ میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو بوکھلانے کے بجائے پوری صورتحال سمجھنی چاہیے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم ناکافی مواد اور مفروضوں پر رائے قائم کر رہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے چھ کمانڈروں کے داعش میں شامل ہونے کی خبر ایک اخبار (دنیا نہیں) نے شائع کی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اخبار نے وہ خبر ایک نیوز ایجنسی سے لی۔ نیوز ایجنسی نے ایک نجی چینل اور اس نے سوشل میڈیا کے ایک پوسٹ سے وہ خبر بنائی۔ جب ایسے سورسز سے اطلاعات اکٹھی کی جائیں گی تو غلط نتائج ہی اخذ ہوں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں