مضبوط مگر محتاط قدموں سے بڑھنا ہوگا

ہمارے ہاں ردعمل کی نفسیات میں عام طور پر شدت کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ایک طرف اگر انتہائی رویہ اپنایا گیا تو دوسری طرف بھی ویسی ہی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس کے دو نقصانات ہوتے ہیں ، ایک تو ردعمل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، دوسرا ظلم کے جواب میں اگر ویسے ہی ظلم کا مظاہرہ کیا جائے تو مظلوم کی اخلاقی برتری ختم ہوجاتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اسلام کی پسندیدہ اصطلاح ''اعتدال ‘‘کو بعض حلقے کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اعتدال کا مطلب پوری قوت سے جواب نہ دینا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رویوں میں توازن رکھا جائے اورردعمل میں ناانصافی یا ظلم سے بچا جائے۔ جہاں ضرورت پڑے ، وہاں اپنی پوری قوت استعمال کی جائے ، مگر یہ سب اس قدر سلیقے سے کیا جائے کہ کسی سے ذرہ بھر بھی زیادتی یا نا انصافی نہ ہو۔ کسی فرد، گروہ یا تنظیم کا کوئی بھی عمل ہمیں ردعمل میں ویسی شدت اور انتہا تک نہ لے جائے، یہی اعتدال ہے۔ ریاست کو ہمیشہ یہی رویہ اپنانا چاہیے ، کیونکہ ریاست انصاف اور عدل کا دوسرا نام ہی ہے۔ 
سانحہ پشاور کے حوالے سے بھی ہماری یہی معروضات ہیں کہ ہمیں اس بھیانک دہشت گردی کا پوری قوت سے جواب دینا چاہیے، کہیں پر ذرہ برابر بھی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے، قاتلوں اور ان کے حامیوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ سماج میں چھپے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کیا جائے، ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جائیں اور انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ میرے نزدیک ایک دہشت گرد اور اسے قیام وطعام کی سہولتیں فراہم کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں، بلکہ سہولت کار زیادہ خطرناک ہیں کہ وہ آستین کے سانپ ہیں، جنہیں تیزی سے پکڑ کر کچلنا چاہیے۔ یہ سب کرتے ہوئے مگر احتیاط کے تمام تر تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ ہر مرحلے پر یہ یاد رہے کہ کوئی بے گناہ نشانہ نہ بنے، محض مسلکی، گروہی تعصب یا شکل صورت کی بنا پر کسی کو ہرگز ہدف نہ بنایا جائے۔ کہیں پر کوئی غلطی ہوئی تو وہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔ 
یہ بھی یاد رہے کہ قدامت پسندمذہبی فکر، جہادی تنظیموں سے وابستگی یا سخت گیر مسلکی رویے بھی دہشت گردی کی دلیل نہیں ۔ پاکستان بے شمار داخلی تضادات رکھنے والا ایک پیچیدہ ملک ہے۔ جس کی اپنی ڈائنامکس ہیں، ان سب کو سمجھنا ہوگا۔ ہمارے ہاں روایتی مذہبی فکر یا سخت گیر مذہبی فکر والے کئی حلقے موجود ہیں، لاکھوں، کروڑوں لوگ اس سے وابستہ ہیں، مگر ان کی یہ سوچ ریڈیکل یا انتہا پسندانہ نہیں۔ تبلیغی جماعت روایتی فکر رکھنے والی جماعت ہے، مگر اس سے وابستہ لوگ اپنی تمام تر توجہ دعوت وتبلیغ پر مرکوز رکھتے ہیں۔اس کی بنیادی فکر دعوت کے گرد ہی گھومتی ہے اور دعوت کا کام کرنے والی کوئی بھی تنظیم عسکریت پسند نہیں ہوسکتی کہ مکالمہ اور دلیل ہی ان کے ہتھیار ہیں۔اس طرح بریلوی مکتب فکر میں بھی روایتی مذہبی سوچ غالب ہے، مگر یہ لوگ عسکریت پسندی، خاص کر تحریک طالبان پاکستان وغیرہ سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی، جے یوآئی اور بعض دوسری دینی جماعتوں کو بھی یہ رعایت دینی ہوگی کہ وہ اپنی روایتی دینی سوچ کے باوجود اس سسٹم کے حامی ہیں اور اس کے اندر کام کر رہے ہیں۔اسی طرح فورسز ہو، پولیس یا دوسرے سرکاری ادارے نماز، روزہ کی پابندی اور روایتی مذہبی حلیہ رکھنے والے بے شمار لوگ مل جائیں گے۔ ان کا مذہبی ہونا شدت پسندی کی دلیل نہیں۔ دلوں میں خوف خدا ہونا اور اپنی زندگیوں کو اللہ کے آخری رسول ﷺکے اسوہ کے مطابق ڈھالنے کی خواہش ہر اعتبار سے قابل تحسین اور قابل رشک ہے۔ اگرکسی میںشدت پسندی موجود ہے تو اسے الگ کر دینا چاہیے ،مگر صرف باریش ہونے کی بنا پر شک یا تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ مذہبی سوچ یا مذہب پر عمل کو اگر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے تو اس سے دلوں میں ناپسندیدگی پیدا ہوتی ہے ،جو آگے جا کر بیزاری، نفرت اور پھر سخت گیری میں بدل جاتی ہے۔ ہمارے لبرل اور سیکولر حلقوں کو یہ سامنے کی باتیں سمجھنی ہوں گی، لبرل حلقوں میں بھی ایک خاص قسم کے ''طالبان‘‘ موجود ہیں، جواتنے ہی سخت گیر، بے لچک اور متعصب ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی شدت پسندی اور تعصب کو رد کرنا ہوگا، وہ مذہبی فکر میں ہو یااس نے لبرل سوچ میں ڈیرے ڈال رکھے ہوں، سلوک ایک جیسا ہونا چاہیے۔
مسلکی حوالوں سے نرمی پیدا کرنے کی ہمیں کوششیں کرنی چاہئیں۔ ریاست نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ زہریلے مواد سے بھری کتابیں اور آڈیو کیسٹیں عام بازاروں میں ملتی رہی ہیں، آج بھی دستیاب ہیں۔ اس کو روکنا چاہیے، نفرت آمیز تقاریر پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ علما کو اعتماد میں لے کر آگے کا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ ماضی میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ علما اپنے پیروکاروں سمیت اکٹھے ہوئے۔ سیاست سے ہٹ کر مذہبی حوالوں سے اس پلیٹ فارم کو دوبارہ فعال بنانا ہوگا۔ ایک بات یاد رکھی جائے کہ مسلکی اختلافات آج کے نہیں، اس کی صدیوں پرانی تاریخ ہے، علما میں مناظرے، دلیل اورگفتگو کا عمل ہر دور میں چلتا رہا، ایسی صورت میں کوئی مضائقہ نہیں، ہاں قلم کی جگہ ہتھیار ہاتھ میں نہیں آنا چاہیے۔ باہم گفتگو جاری رہے تو تعصب کی شدت خودبخود کم ہوجاتی ہے۔ جامعۃ الازہر کے شیخ علی جمعہ نے مصری تکفیریوں اور شدت پسندوں کے ساتھ علمی مکالمے کا سلسلہ شروع کیا تھا، ان کے کہنے پر حکومت نے جیلوں میں قید علما اور نوجوانوں کو کتابیں اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی تھی۔ شیخ علی جمعہ نے اس حوالے سے کمال کا نقطہ بیان کیا تھا،وہ کہتے تھے،''کوئی انتہا پسنداچانک سے ماڈریٹ نہیں بن سکتا، اسے پہلے انتہا پسند سے کم انتہا پسند بنانا ہوگا، اگلے مرحلے پر وہ 
سخت گیر موقف رکھنے والا بنے گا، مکالمہ اور دلیل کا عمل جاری رہا تو پھر ایک وقت آئے گاجب اس کی سوچ میں نرمی آئے گی اور وہ ماڈریٹ بن جائے گا، مگر اس سے لبرل ہونے کی توقع حماقت ہے، فکری پوزیشن تبدیل ہونے میں گھڑیاں یا دن نہیں بلکہ برسوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔‘‘ مصر میں اس تجربے کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوئے تھے،کئی متشدد تنظیموں کے لوگوں نے اپنا سٹانس تبدیل کیا اور وہ مصری پرامن معاشرے کا حصہ بنے، حزب التحریر کے ایک بڑے حصے نے اپنی تنظیم سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ حتیٰ کہ ایمن الزواہری کے سابق ساتھیوں نے ہتھیار رکھنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ہمیں دہشت گردوں کے حوالے سے تو زیرو ٹالرنس کا رویہ اپنانا چاہیے، شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مگر سخت گیر فکر پر کریک ڈائون کر کے انہیں انتہاپسندی کی طرف دھکیلنے کے بجائے انہیں مکالمے اور باہم بات چیت کے ذریعے نرم بنانا چاہیے۔لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کوا ہمیت دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ ضروری ہے کہ ریٹنگ کے متلاشی ہمارے اینکر حضرات ایسے لوگوں کو اپنے چینلز کی سکرین مہیا نہ کریں۔ ایسے لوگوں کواپنی زہریلی فکر لوگوں تک پھیلانے کی اجازت ہرگز نہیں ملنی چاہیے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ نفرت انگیز تقاریر (Hate Speech) کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت زیادہ توجہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کے سلیپر سیل تلاش کرنے پر رکھنی چاہیے۔ ہمیں احتیاط مگر مضبوطی سے آگے کی جانب بڑھنا ہوگا، کامیابی انشاء اللہ پاکستانی قوم کو ملے گی، دہشت گردوں کے مقدر میں دنیا اور آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں