جنرل آئزن ہاورفارمولا

وزیراعظم نواز شریف کو امریکہ کے معروف صدر آئزن ہاور(Eisenhower)کے فارمولا سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ امریکی تاریخ کے نامور جنرل اور دو مرتبہ صدر رہنے والے آئزن ہاورکے تجربات اور مشاہدات مسلم لیگ ن کے سربراہ کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں، شرط مگر یہ ہے کہ وہ اس فارمولے سے کچھ سیکھنا چاہیں۔ 
اس فارمولا یا میتھڈ پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے کچھ آئزن ہاورکے بارے میں۔ جنرل آئزن ہاور امریکہ کے مشہور جنرل تھے، دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے بطور فائیو سٹارجنرل کام کیا۔ وہ یورپ میں اتحادی فوجوں کے سپریم کمانڈر تھے۔1944,45ء میں مغربی محاذ پر فرانس اور جرمنی پر کامیاب حملوں کی قیادت آئزن ہاور ہی نے کی تھی۔ بعد میں وہ نیٹو کے پہلے سپریم کمانڈر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آئزن ہاور سیاست میں آئے اور 1952ء کا صدارتی انتخاب ری پبلکن امیدوار کے طور پر جیت لیا، وہ دوسری بار بھی صدر بنے اور پھر1960ء میں امریکی صدور کے لئے زیادہ سے زیادہ دو بار صدر رہنے کی مدت مقرر ہوگئی، ورنہ اس کے امکانات تھے کہ آئزن ہاور تیسری بار بھی صدر امریکہ بن جاتے۔ آئزن ہاور ایک مضبوط اور موثر لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس پر حملہ کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ حملہ کا دن مقرر ہوگیا، تمام تیاریاں ہوگئیں، مگر عین وقت پر موسم میں غیرمعمولی تبدیلی آگئی، طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں، بادلوں اور بارش کی وجہ سے بحری افواج اور فضائیہ کے لئے حملہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ صورتحال نازک تھی، جرمن فوجیں نارمنڈی ، فرانس کے ساحل پر جمع ہورہی تھیں، اگر حملے میں تاخیر کی جاتی تو خدشہ تھا کہ جرمن فوجیں وہاں اپنا دفاع مضبوط کر لیں گی، جدید ہتھیار بھی ان کے پاس پہنچ جائیں گے، دوسری طرف خراب موسم میں حملہ ہزاروں افراد کے نقصان کا باعث بن سکتا تھا۔ فیصلہ کا اختیار سپریم کمانڈر جنرل آئزن ہاور کے کندھوں پر تھا۔ آئزن ہاور نے آخری لمحوں تک انتظار کیا اور پھر موسمیات کے ماہرین نے رپورٹ دی کہ چھتیس گھنٹوں کے لئے موسم بہتر ہوجائے گی، اس کے بعد پھر حالات بگڑ جائیں گے۔ آئزن ہاور نے حملے کا رسک لیا اور ایک نوٹ لکھا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری میرے اوپر ہے، ناکامی یا کسی غیر متوقع نتائج کی صورت میں کوئی اور کمانڈر ذمہ دار نہیں ہوگا۔ خوش قسمتی سے حالات ٹھیک رہے اور اتحادی فوجوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔
آئزن ہاور آٹھ سال تک امریکہ کے صدر ہے، انہوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کے اقتدار پر طویل عرصے سے غلبے کا خاتمہ کیا اور مضبوط حکمرانی کی بنیاد ڈالی۔ آئزن ہاور نے اپنے تجربات کی بنیاد پرچند اہم مشورے دئیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لیڈر ہی وہ شخص ہے جو انتظامیہ کو ڈائریکشن دیتا ہے۔ بیورو کریسی کے ان گنت افراد پر مشتمل کل پرزوں کو رہنمائی اور وژن کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیڈر ہی وہ بنیادی پرزہ ہے، جس کے گرد تمام مشینری گھومتی ہے۔ بسا اوقات اس مشینری کے مختلف پرزوں کے پاس اپنی اپنی معلومات ہوتی ہیں، مکمل تصویر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے۔ لیڈر وہ معلومات جمع کرتا، ان کا تجزیہ کرتا اور ان کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ مکمل خاکہ اس کے پاس ہی ہوتا ہے، اسے ہی ٹکڑے جمع کر کے تصویر بنانا ہوتی ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے، جس سے وہ بچ نہیں سکتا۔ پاکستان کے موجودہ تیل کے بحران پر اس نقطے کو منطبق کر کے دیکھیں، اوگرا، پی ایس او، وزارت پٹرولیم ، وزارت خزانہ... نجانے کن کن شعبوں کی بات ہو رہی ہے، خرابی یہ ہوئی کہ مرکزی سطح پر اس قسم کے بحرانوں، ان مختلف ٹکڑوں کے مناسب کوآرڈی نیشن نہ ہونے کا نوٹس لینے، بروقت فیصلہ کرنے والی اتھارٹی موجود نہیں تھی۔ ایسا بنیادی پرزہ، جس نے ان تمام پر نظر رکھنے کامیکنزم بنا رکھا ہو... وہ اس پورے کھیل میں نظر نہیں آیا۔
آئزن ہاور نے کام کے بے پناہ دبائو اور ذمہ داریوں کو نمٹانے کے لئے ایک ایسا فارمولا یا میتھڈ ایجاد کیا، جس نے ماڈرن ٹائم مینجمنٹ کی بنیاد ڈالی ۔ ان کا ایک مشہور مقولہ ہے،''جو اہم ہے، وہ کبھی کبھار ہی ارجنٹ ہوتا ہے اور ارجنٹ (ہنگامی)نوعیت کے کام کبھی کبھار ہی اہم ہوتے ہیں۔ ‘‘اس سے ارجنٹ اور اہم نوعیت کے کاموں میں فرق سامنے آیا۔ آئزن ہاور کا طریقہ کار تھا کہ اپنے سامنے موجودہ پراجیکٹس اور کاموں کی فہرست پرنظر دوڑاتے اور پھر اس فارمولے کی کسوٹی پر اسے آزماتے۔ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے کہ کون سا کام حقیقتاً اہم ہے اور کون سا صرف ہنگامی نوعیت کا ہونے کے باعث ہی زیادہ ضروری محسوس ہو رہا ہے۔ پھر وہ ہنگامی کام بھی نمٹاتے ،مگر اپنا فوکس اہم نوعیت کے پراجیکٹس اور کاموں پر رکھتے۔ ایسے چیزیں یا کام جن کی نوعیت قطعی ہنگامی نہیں، مگر ان کی اہمیت میں کلام نہیں اور ان پر کام کرنا آگے چل کران کے لئے یا قومی سطح پر مفید ثابت ہوسکتا ہے، انہیں وہ اپنی ترجیحی فہرست میں رکھتے۔ 
اس سے ماڈرن ٹائم مینجمنٹ کا آئزن ہاور میتھڈ وضع کیا گیا۔ اس کے مطابق زندگی کے معمولات اور کاموں کو چار خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کام اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ا نہیں مجبوراً فوری طور پر نمٹانا پڑتا ہے۔ کوئی ایسا بحران ،جسے فوری توجہ چاہیے، ایسا مسئلہ جو ہنگامی اقداما ت کا متقاضی ہے، جسے لٹکایا جانا ممکن نہیں۔ ایسے کاموں پر فرد یا حکومت کی توانائی کا بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے۔ دوسرا خانہ ان کاموں کا ہے ،جو ہنگامی نہیں،مگر وہ اہم ہیں۔ چونکہ ان میں تاخیر کی جا سکتی ہے، اس لئے عام طور پر لوگ یا حکومتیں انہیں لٹکا دیتی ہیں۔ یہ طریقہ کار مگر غلط ہے ۔ اس خانے میں بنیادی طور پر پلاننگ ،مستقبل کے وژن کے مطابق کئے جانے والے کام شامل ہیں۔ ان پر جتنی محنت کر لی جائے، اتنا ہی مستقبل میں ہنگامی نوعیت کے بحرانوں اور ٹینشن والے ایشوز سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک فر دہو، گروہ ، تنظیم یا پھر حکومت ...اس کی ترجیح اہم نوعیت کے کام ہونے چاہئیں۔ اسے ہنگامی کام نمٹانے کی نفسیات 
سے باہر آ کر اپنے ، آس پاس اور قوم کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔تیسرا خانہ ان کاموں کا ہے جو اہم تو نہیں، مگر ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کبھی مجبوری کی وجہ سے ایسے کام آ جاتے ہیں، جنہیں نمٹانا پڑتا ہے ، مگر ان پر زیادہ وقت ضائع کرنا دانشمندی نہیں۔ چوتھا خانہ ان کاموں کا ہے، جن میں صرف وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ حکمرانوں کے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیںہوتا ۔ چھٹی منانے ، ویک اینڈ اپنے آبائی علاقوں میں گزارنے والی تعیشات ان کے لئے نہیں ہوتیں۔ہماری حکومتوں کا یہ عام وتیرہ رہا ہے کہ وہ صرف روز مرہ کے معاملات ہی نمٹا پاتی ہیں، ہنگامی نوعیت کے بحران ہی اس کی تمام توانائی کھا جاتے ہیں، ان کے پاس ایسے اہم ایشوز پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں بچتا ، جن کو بروقت کر کے مستقبل کے مسائل سے بچا جا سکے۔ موجودہ حکومت بھی اسی بیماری (سنڈروم )کا شکار ہے ۔ پہلے دن سے وہ بحرانوں کا شکار رہی ہے، کبھی بحران ان کے مخالف پیدا کرتے ہیں تو بیشتر اوقات یہ ''نیک کام‘‘ انہوں نے خود انجام دیا۔ حکومت نے اگر ڈیلیور کرنا ہے تو اسے اپنا ماڈل بدلنا ہوگا ۔ آئزن ہاور فارمولا اسے مدد فراہم کر سکتا ہے۔ا سے صرف ارجنٹ اور اہم ایشوزمیں فرق کر کے اپنی ترجیحی فہرست دوبارہ سے بنانی ہوگی۔ ویسے وزیراعظم نوازشریف کے لئے آئزن ہاور کا ایک مشہور قول بھی دلچسپی کا حامل ہوگا، ''لیڈر کو اپنی ٹیم کی غلطیوں اور خامیوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو لگتا ہے کہ لیڈراقتدار میں آئے ہی دوسروں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ہیں، مگر انہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ اپنی ٹیم کی اچھائیوں کا کریڈٹ ٹیم کو اور غلطیوں کا ڈس کریڈٹ ٹیم لیڈر کو اٹھانا پڑتا ہے۔ قربانی کے بکرے ڈھونڈنے والے لیڈر نہیں ہوتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں