پورا منظرنامہ سمجھنا ہو گا !

امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت کے حوالے سے جس قدر زوردار مباحثے بھارت میں جاری ہیں، اتنے نہیں تو اس سے کچھ کم بحث ہمارے ہاں بھی ہو رہی ہے۔ اخباری کالموں، ٹاک شوز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی اس کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ صدر اوباما کی بھارت یاترا اور بھارت امریکہ معاہدوں کی خبریں سن کر پاکستان میں مایوسی اور ڈپریشن کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گزشتہ روز ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ آفس میں ایک دوست ملنے آئے ، پڑھے لکھے ہیں ، لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی ہے، اخبارات کے لیے بھی مضامین لکھ کر بھیجتے رہتے ہیں ، ایک آدھ شائع بھی ہوجاتا ہے۔ وہ چھوٹتے ہی بولے : ''پاکستان بہت پیچھے رہ گیا، بھارت بازی لے گیا ‘‘۔ ان سے استفسار کیا، کس حوالے سے فرما رہے ہیں ۔ کہنے لگے: '' آپ کو علم نہیں کہ امریکی صدر اوباما نے بھارت کا تاریخی دورہ کیا ہے، کئی تاریخی اعلانات بھی کیے ہیں ‘‘۔ ہم نے عرض کیا : '' آپ کو کاہے کی پریشانی لاحق ہوگئی اس سے؟ ‘‘ حیرت سے انہوں نے دیکھا اور تیز لہجے میں بولے: '' آپ جانتے ہیں کہ بھارت امریکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے کیا اثرات ہوں گے؟‘‘ عرض کیا : ''یہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ کس کے خلاف ہے؟‘‘ انہوںنے ترنت جواب دیا : ''ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ ، بھارت کے ساتھ مل کر چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے، یہ پارٹنر شپ اسی حوالے سے ہے ‘‘۔ عرض کیا : '' تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ بھارت کی جگہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے خلاف سٹریٹیجک پارٹنرشپ بنائے ؟‘‘ یہ سن کر وہ چکرائے اور بولے : ''ایسا تو خیر نہیں ہوسکتا، چین تو ہمارا قابل اعتماد دوست ہے، اس کے خلاف کچھ کرنے کا ہم کیسے سوچ سکتے ہیں؟‘‘عرض کیا: '' یہی آپ کے پہلے سوال کا جواب ہے کہ چین کے علاوہ اس خطے میں بھارت اور پاکستان ہی دو اہم پلئیر ہیں۔ پاکستان کا چین کے ساتھ سٹریٹیجک تعاون چل رہا ہے، ہماری بیشتر دفاعی اور سٹریٹیجک ضروریات چین ہی پوری کرتا ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ نے چین کے خلاف کوئی اتحاد بنانا ہے تو وہ بھارت کے ساتھ ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ تو اس قابل ہی نہیں۔ بھارت اور امریکہ کی پارٹنر شپ فطری طور پر بنتی ہے، اس پر ہم پاکستانیوں کی مایوسی اور پریشانی کیسی؟‘‘ یہ سن کر وہ چپ ہوگئے۔
امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے اور اپنے آپ کو ناکارہ قرار دینے سے پہلے اس پورے منظرنامے کو سمجھنا ہوگا۔ امریکہ کا اس خطے میں ایک ایجنڈا اور مستقبل کے حوالے سے اس کی کچھ سٹریٹیجک ضروریات ہیں۔ وہ چین کے پھیلائوکو محدود کرنا اور اسے اپنے جتنی بڑی عالمی طاقت نہیں بننے دینا چاہتا۔ جنوبی چینی سمندر میں اس نے چین کو خاصا محدود کر دیا ہے۔ فلپائن، جاپان ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا وغیرہ امریکہ کے اتحادی ہیں، چین کوشش کے باوجود وہاں اپنا اثر ونفوذ نہیں پھیلا سکا۔ گوادر سے چین تک کا تجارتی روٹ چین کی ضرورت اسی لئے بنا۔ جنوبی ایشیا میں عرصے سے امریکہ کو قابل اعتماد پارٹنر کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہمیشہ امریکہ کی نسبت چین پر زیادہ اعتماد کرتا رہا۔ لہٰذا اس خطے میں بھارت ہی امریکہ کے لیے واحد آپشن ہے جس کے ساتھ وہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ بنا کر چین کے گرد دیوار کھڑی کرسکے گا۔ 
ویسے امریکی اعلانات کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ امریکہ نے بھارت کو پانچ سو ارب ڈالر کی باہمی تجارت کا لالی پاپ دیا ہے۔ ایسا ہونا مگر اتنا آسان نہیں۔ اس میں وقت لگے گا اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بھارتی معیشت اس وقت بہت برے دور سے گزر رہی ہے۔ اس کی جی ڈی پی تین چار فیصد گری ہے اور بھارتی معیشت کے سائز کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھیں کہ وہاں ڈھائی تین سو ارب ڈالرڈوب گئے ہیں۔ بھارتی مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ چکی ہے، نجی شعبے میں چلنے والی کئی ایئرلائنز شدید خسارے میں ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی نوکریاںچلی گئیں یا تنخواہوں میں کمی ہوئی ہے، جن لوگوں نے قرضے لے کر اشیائے ضرورت اور گاڑیاں وغیرہ خریدی تھیں، وہ رو رہے ہیں۔ امریکی تجارت کے نتیجے میں پہلے تو وہ ڈھائی تین سو ارب ڈالر کا نقصان ریکور ہوگا، پھر جا کر بھارتی معیشت سنبھل پائے گی۔
سلامتی کونسل میں مستقل نشست ملنے کا تو فی الحال سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے امریکہ کی منظوری اتنی اہم نہیں کہ امریکہ تو پچھلے کئی برسوں سے بھارتیوں کو یہ لارا دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ چین کا ہے۔ جس دن چین نے کہا کہ ہم بھارت کو سلامتی کونسل میں چھٹی عالمی قوت کے طور پر مستقل سیٹ لینے دیں گے، ایسی کسی کوشش کو ویٹو نہیں کریں گے، تب ہمارے لیے یہ باعث تشویش ہوگا۔ 
افغانستان کے حوالے سے امریکہ نے بھارت کا نام لیا مگر عملی صورت یہ ہے کہ وہاں بھارتی کردار پہلے ہی خاصا محدود کیا جا چکا ہے۔ یہ '' نیک کام‘‘ خود امریکیوں نے اپنے ہاتھوں انجام دیا ہے۔ اوباما مودی پریس کانفرنس میں پاکستان کا نام تک نہیں آیا۔ میں نے ایک سابق ڈپلومیٹ سے اس بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر کہنے لگے:'' اس پر تو پاکستان کو خوش ہونا چاہیے۔ وہاں پاکستان کا نام کسی منفی حوالے سے ہی آنا تھا۔ امریکہ کی مہربانی سمجھیں کہ انہوںنے ایسا نہیں ہونے دیا، ورنہ کسی اخبارنویس سے پریس کانفرنس میں کوئی تیکھا سوال کرانا کیا مشکل تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ اس حوالے سے مشہور بھی ہے، لگتا ہے کہ امریکی ڈپلومیٹک ٹیم نے ایسا نہیں ہونے دیا‘‘۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایسی'' مثبت‘‘ باتیں ٹی وی والوں کوسوٹ نہیںکرتیں، اس میں کوئی سنسنی ہے نہ ہی اپنے آپ پر لعن طعن کرنے کا موقع ہے، ریٹنگ بھی نہیں مل پاتی۔
ایک اور بات بھی سمجھنے کی ضرور ت ہے۔۔۔۔ امریکی صدر کا دورہ لانگ ٹرم سٹریٹیجک مفادات کے حوالے سے تھا، مگر ڈے ٹو ڈے افئیرز کے حوالے سے وزیر خارجہ جان کیری نے حال ہی میں اس خطے کا دورہ کیا۔ امریکہ ، افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو کلیدی اہمیت دے رہا ہے، بھارتی کردار وہاں محدود ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر بھارتی دبائو کم کرنے اور بلوچستان سے بھارتی مداخلت ختم ہونے کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بلوچ مزاحمتی گروپوں کے حوالے سے کوئی بریک تھرونظر آ جائے گا۔ ہمیں امریکی صدر کے دورے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر ملک کے اپنے اپنے کارڈز ہوتے ہیں۔ پاکستان اپنے کارڈز بڑی عمدگی سے کھیل رہا ہے۔ ہمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا گھر درست کرنا چاہیے۔ تحریک طالبان پاکستان اور شدت پسند گروپوں کی عسکریت پسندی کے خاتمے، بلوچستان کی شورش کو اچھے طریقے سے ہینڈل کرنے اور کراچی میں امن لانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں آخری رائونڈز کا کھیل جاری ہے، وہ بڑی احتیاط سے کھیلنا ہوگا۔ چین کے ساتھ تجارتی شاہراہ پر معاملات تیزی سے آگے بڑھانے ہوں گے۔ آخر میں تجزیہ کاروں اور اینکر حضرات سے صرف اتنی گزارش ہے کہ مایوسیوں اور تاریکیوں کا کاروبار بھلے مفید سہی ، مگر پورا منظر نامہ سمجھ کر دیانت داری سے تجزیہ کریں۔ ہم میں لاکھ خامیاں ہیں مگر جہاں ہم اچھا کھیلے ہوں، وہ ماننا چاہیے۔ ہر وقت سر میں خاک ڈالنا نارمل لوگوں کا کام نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں